عبدالکریم ظہیری میرے استاد تھے ۔ میں نے قرآن شریف تو اُن سے پہلے کے مولوی حبیب اللہ سے پڑھی تھی ۔ نگرانی تو اُس مولوی صاحب کی تھی لیکن اصل میں مجھے قرآن شریف مدرسے کے سینئر طالب فاضل سالارانی نے ختم کروادی ۔
مولوی حبیب اللہ کے بعد مولوی عبدالکریم مسجد کے امام بنے ۔ میں نے آگے کی تعلیم یعنی پنج کتاب ، گلستان، بوستان، یوسف زلیخا، تعلیم الاسلام ،شروط الصلوہ اُن سے پڑھے۔ قدوری آدھے تک پڑھی، ایک دوپارے حفظِ بھی کیے۔ پھر میرے والد اور مولانا مجھے اکوڑہ خٹک کے (مولوی سمیع اللہ والے )مدرسے بھیجنا چاہتے تھے مگر میری ماں نے بہت شور مچایا ، آنسو بہائے کہ اتنی دور بچے کو جانے نہیں دوں گی، تو میں وہاں جانے سے بچ گیا۔
مولاناکے نام کے تین حصے ہیں: مولانا، عبدالکریم، اور ظہیری۔ مولانا کا لقب تو انہیںہم شاگردوں اور ان کے مقتدیوں نے دے رکھا تھا ۔ عبدالکریم اُس کے استاد نے انہیں بنادیا تھا۔ اور ظہیری بطور شاعر اُن کا تخلص تھا۔
ماہنامہ سنگت میں چھپنے والے اُن کے خطوط بہت مقبول ہواکرتے تھے ۔ وہ طویل خطوط لکھتے تھے۔مزاح میں لپٹے، علم اور درد سے بھرے خطوط۔فارسی ،اردواور بلوچی سے خلط ملط خطوط۔ شعر،فلسفہ،اورحکایت سے مزین خطوط۔ایک ہی خط میں کبھی مجھے مخاطب کررہے ہیں،کبھی عبداللہ جان جمالدینی کے نام پیغام لکھ رہے ہیں،کبھی ڈاکٹر خدائیداداور سائیں کماخان شیرانی سے کچھ کہہ رہے ہیں اورکبھی نواب خیربخش مری سے اپنی عقیدت کااظہارکررہے ہیں…….. اور اُسی خط میں سنگت کے قارئین سے بھی براہ راست خطاب کررہے ہیں۔ ذرا دیکھیے اور بتائیے کہ کبھی اتنے خوبصورت فقرے سے آپ نے کسی خط کی ابتدا کی؟ : ”ہر قدم پر سلا متی قدم بوس ہو“۔
”ہوسکتا ہے ڈاکٹر صاحب کومیرے اس خط سے بوریت ناگواری ہو۔ خدا کی قسم مجھے جناب سے باتیں کرنے میں لذت اور زندگی محسوس ہورہی ہے۔دل چاہتا ہے جناب سے ہمکلام ہوتے ہوتے موت آئے“۔
صحت کے طویل ترین اورتکلیف دہ مسائل نے ہمارے اس بہت ہی ڈائریکٹ،بے تکلف قاری اوررائٹر، اور عالم وبزرگ دوست کی جان لے لی۔
وہ ادب کو عمومی بلوچ انداز میں برتتا تھا ، اصطلاحات سے پاک صاف ستھرے الفاظ: ” میری باتوں کی طوالت سے نہ اکتائیں۔ یہ زندگی ایک کہانی ہے جو آسمانوں سے نہیں ٹپکتی یہاں زندوں کی زندگی سے جنم لیتی ہے“۔
جیسے ذکر ہوا، مولانا اکثر طویل اور موجی خطوط سنگت کے لئے لکھتے تھے۔ سبق بھرے خطوط جو زندگی کی راہ کو پاک کرتے تھے، توہمات سے ، انتہا پسندی سے ، مہم جوئی سے اور بزدلی سے۔ ایک بار سنگت کے کسی شمارے میںمیرے چین کے سفر نامے میں مست تﺅکلی کے ایک مصرعے کو مستعارلے کر میں نے ایک ذیلی سرخی لگائی تھی:” بہار خان کو ساتھ لوں گا“۔ مولانا نے خط لکھا:”سفرِ چین میں ظہیری کو ساتھ رکھےے، بہار خان کو چھوڑےے کہ وہ بہشت باش رہتے ہیں“۔
سنگت کے بارے میںوہ بہت پر امید رہتے ۔ حوصلہ افزائی کرتے :
” سنگتوںکا سہارا۔ ایسے شمعوں کو روشن رکھنے والے پروانے ابنوہ سے نہیں گھبراتے۔ زندگی میں مزہ جب ہے جب کہیںمیٹھا ہو کہیں کڑوا ۔ سنگت میں سب کچھ ہے۔ سیاست، ریاست، ہدایت، بغاوت، تنقید، تبصرہ ، شعر، غزل، محبت کے نور“۔
انہیں واقعی سنگت کا انتظار رہتا تھا۔ وہ البتہ مشرقی بلوچی بولتے تھے اور سنگت میںلکھنے والے احباب میں مغربی لہجے کی بلوچی لکھنے والوں کی تعداد اور تناسب زیادہ ہے ۔ جس سے” ان کا مستفید ہونا بہت مشکل“ تھا۔
ایک بار رسالے میں ایک دوست کی بلوچی غزل شائع ہوئی۔ مولانا نے ایک پورا مضمون نما تنقیدی /اصلاحی خط لکھ ڈالا۔ ملاحظہ ہو:
” اس دفعہ ایک عاشق نے قہرو ظلم کی انتہا کر دی۔سنگت کے صفحہ نمبر 69میں غنی غمگین صاحب سخن پرواز ہیں:
دراہیں دنیا سُچاث لالا پرواہ مبات
(یہ ساری دنیا جل جائے لال کو پرواہ نہ ہو)
رکھ اللہ، رحم اللہ ، نعوذ باللہ ۔بچائیے ڈاکٹر صاحب ۔ بچاےئے عبداللہ جان صاحب ۔ شہباز قلندر، پیر سوہری نوثانی، مائی مہمدانی آساتوس ۔ ثریا امیرالدین پردہ آپال۔ وہارو ننگریں واہربی۔ شاہ لطیف، اس جہان کے زندہ بزرگو، اولیا اوتار قطب غوثو۔ بچاﺅ۔ خدا کی خدائی کو بچاﺅ۔ وہ ظالم عاشق شرابِ عشق سے بے ہوش ہو کر کہتا ہے:
دراہیں دنیا سچات لالا پرواہ مبات
”امان۔ اللہ امان۔ عرفِ عام میں اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب کائنات دنیا ہے۔ اور وہ عاشق کہتے ہیں : دراہیں دنیا سچاث لالا پرواہ مبات۔ تو بہ زاری، اللہ کُوکڑو۔ ارض وسما ماہ و خورشید ، انجم پروین کہکشاں ، انسان ، حیوان ، درند چرند، جمادات ، نباتات ،انجیل، تورات، گیتا گرو گرنتھ۔ ۔۔۔سب کچھ جل جائے لالا پرواہ مبات ۔ مست توکلی ! یہ عشق ہے؟۔ مجنوں ، پنوں،فرید ، مہیوال، مشائخ شیراز اور ساری دنیا کے عاشقو! یہ بتاﺅ ۔ یہ بھی کوئی عشق، مہر، محبت ہے کہ تمام دنیا جل جائے او ر لال کو پرواہ نہ ہو ؟۔ اس آتش زدگی پر دنیا کے ظالم ترین انسان بھی حیران اور لرزہ بہ اندام ہیں۔ ہلاکو، چنگیز ، تیمور، حجاج وغیرہ وغیرہ ۔ اس جہاں سوز کے خوف سے میںبیمار لاچار عبدالکریم اور عبداللہ جمالدینی تو قریب المرگ ہوگئے۔ ہم دونوں اورتمام دنیا والے اس آتشزن کے خوف سے تورہ بورہ ،ویت نام ،عراق ، افغانستان ،ہیروشیما، ناگا ساکی، کشمیر ، فلسطین، ننگا بھوکا اور غریب پاکستان اور بے کس بلوچستان بنے ہوئے ہیں۔
رحم کر اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا
دنیا والوں کے خیال میں پہلے ملا مولوی لوگ بڑے ناتر س ہوتے ہیں جنہوں نے دین مذہب کو بدنام کر کے امت کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ اپنے ناپائیدار پیٹ اور منحوس عزت کے لیے ایسے خرافات ایجاد کیے کہ اللہ امان، ان حضرات نے عبادت گاہوں کو جبین سائی کے لیے نہیں بلکہ خو ن اور لاشوں سے مزین کرنے کے لیے آباد کر رکھا ہے۔
براین دین و ایمان بباید گریست
ان بے خداﺅں کے دین ایمان اعمال اور تعویزات نے:
خداﺅ جبرئیل مصطفی رادر حیرت اندا خت
پھر بھی امت میں نیکوں کی کمی نہیں۔ علمائے حق کی وافر مقدار موجو د ہے۔ یہ ملا سُو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
دنیا والوں کو معلوم ہے سیاست دان بادشا ہ بڑے بڑے لو گ اپنے پیٹ پگڑی کرسی محلات، نفس پروری عیش عشرت کے لیے خون کی ندیا ں بہا دیتے ہیں۔ اور اپنے باپوں کو جیل اور بھائیوں کو اندھا اور لنگڑالولا کر دیتے ہیں۔ دنیا والے اس درندگی کو بھی برداشت کرتے آئے ہیں۔ہائے رے عشق تیری خیر ہو تو بہت بہت نا ترس لوگو ںکے دل و ذہن پہ آ گیا ۔ وائے تیری بدنامی: دراہیں دنیا سچات لالاپرواہ مہ بات ۔
عشق محبت پرکسی خاص ہستی کی اجارہ داری نہیں جو مجنوںبنے اور پنوں بنے۔ مست حافظ شیرازی اور کچھ سے کچھ بنے۔ ہم کون ہیں کسی کو روکنے والے۔ ایمان امن ملک وطن محنت انسانیت اور حسن سے محبت عشق اور ماں باپ بیٹے بہن بھائی اولاد چچا ماموں بیوی وغیرہ وغیرہ سے عشق محبت اور داستاں سرائی و شعر بازی۔ مگر ایک بات یہ لال وہ لال کسی اور کی عزت اور امانت معلوم ہوتی ہے۔ واہ رے واہ واہ کسی اور کمزور غریب کی عزت ناموس لال پر نظر پڑتے ہی اتنے دلیر اور شیر ہو گئے۔ اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر یہ اس کی اپنی جائیدادرفیقہ حیات حلال لال ہوتی تو غنی، شاہجہان اپنی ممتاز محل کے لئے ایک اور تاج محل تعمیر کرتے اور بلوچستان کو سیاحوںکے سیاحت کی آمدنی سوئی گیس کی آمدنی سے زیاد ہ ہوتی ۔ زہے ہماری قسمت : یارب یااللہ تو ان نا عاقبت اندیشوںسے اپنی خدائی کو محفوظ رکھ۔ آمین۔ کہو سب آمین۔
غنی غمگین صاحب !ہم جہان والے زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔یہی تو زندگی ہے کہ ہم نے زندگی کو دوا م دینے کے لئے بھگوان ایجاد کر لیا ہے۔ پرآتما ہمارا ایمان ہے آرز وہے خالق ہے۔ دوامِ حیات کے لئے حکما، صلحائ،وظائف ، نما ز ،روزہ ، چلہ کشی ،مجاہدہ ریاضت غربا پروری اور اللہ جانے کتنے سہارے لیے ۔ کتنے خضر آب بقا کلیم اللہ ، روح اللہ، لقمان ، ارسطو، رازی، ابن سینا وغیرہ وغیرہ کو جنم دیا کہ کوئی ہمیں کہیں نہ کہیں سے جان چھوٹے ۔ غنی صاحب آپ پھر بھی جلانے پر تیا ر ہوگئے ۔ بہشت کا تصور بھی موت سے فراراور زندگی سے بے پایاں پیار محبت کی ایک آخری اور شکست خوردہ آسرا اور تمناہے۔
غنی صاحب کو چاہےے کہ دنیا والوںسے معافی مانگے ،ایک بار نہیں بار ہ دفعہ ۔ وہ بھی سنگت کے ذریعے سے۔ ہماری طرف سے دنیا والوں کے لیے پیغام سلامتی ہو ۔غنی صاحب اس میں شامل رہیے اگر غنی صاحب عشق بازی میں ” سُچات سُچات“ کہتے ہیں تو ہم کرم نوازی سے نجات نجات نجات کہتے رہیں گے۔
ہم غنی صاحب پر دعویٰ دائر نہیں کر رہے ہیں صر ف اور صرف غریبانہ شکوہ اور عاجزانہ برادرانہ سوال ہے کہ ہم سے رابطہ رکھیے۔
قطع کیجیے نہ ہم سے تعلق
کچھ نہیں تو عداوت ہی سہی
آﺅ دنیا والو ایک بار پھرخداوندسے عر ض کریں کہ یااللہ یا رب ان نا عافیت اندیشوں کے شر سے اپنی خدائی کو محفوظ رکھ۔ آمین سب کہو آمین ۔ ورنہ صرف آپ کی مقدس ذات باقی ،نہ ہم نہ ہمارا جبین سائیاں۔
ماجرائے ما عجیب و داستانِ ما طویل
نصرتِ ارواحِ قدسی ہمرہِ ما جبرئیل
با خدا ما چشم داریم از کرمہائے جلیل
حسبنااللہ حسبنااللہ انت من یشفیٰ علیل
ایں ظہیری سر نہادہ بر درت ربِ جلیل
لیس لی غیر سواک انت لی نعم الوکیل“
مولانا سماج پر چوٹ بہت نازک مگر مہلک کرتے تھے:” اب خون سفید ہوگئے ۔ مائیں بچوں کودودھ کی بجا ئے چھاتیوں سے پانی پلا رہی ہیں۔ لوگ رشتوں کے تقدس کابوجھ اُٹھا کرمسجد جاتے ہیں وہاں سے دگنابار عصیان اٹھا کرواپس آتے ہیں اور کہتے ہیں نماز پڑھنے گئے “۔
مولانا ساٹھ کی دہائی کے اوائل سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک تقریباً نصف صدی کا طویل عرصہ میرے گاﺅں ماوند میںجامع مسجد کا خطیب رہا۔ وہ صرف ہمیں نماز ہی نہیں پڑھاتا تھا، بلکہ ایک نیم مدرسہ جیسا مکتب بھی مسجد میں قائم تھا ۔جمعہ اور عیدین کی تقریرتو خیرخطیب کے ذمہ ہوتی ہی ہے۔
لیکن مولانامیرے گاﺅں کا نہ تھا بلکہ وہ ہم سے دس بارہ میل دور جنوب میں تاخیری نامی علاقے کا کلوانی مری تھا ۔ سمّومائی کا ہم قبیلہ ۔وہ بنگو کا بیٹا تھا ، لہذا وہ کلوانی میں حَسن زئی ‘ حسن زئی میں گریا نٹریں اور گریا نٹریں میں بنگوزئی تھا ۔وہ جمعہ کو عید کے روز پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں عید تو بڑی عید ہوتی ہے جہاں گو شت خوری ہوتی ہے ۔چھوٹی( بے گو شت والی عید) توبس روزوں کے ختم ہونے کااعلان ہوتی ہے ۔ اور روزہ سے مری بلوچ کی کوئی خاص یاری نہیں ہوتی ۔ اس لیے سمجھےے کہ وہ بڑی عید کے دن پیدا ہوا۔جو جمعہ کادن بھی تھا۔ مگر اس کانام جمعہ خان یاعید و نہ ہوا بلکہ وہ مہر علی ہوا ۔ مہر ،بے مہر زندگی کی بلائیںلیتے لیتے قہر اور جور سے ٹکر لیتے لیتے کب کا وصال فرماگیا ۔
تیسری دنیا کی بھی تیسری دنیا ہمارا بلوچستان تھا۔ بارشیں ہوں تو ہم فاقوں کی مستی سے ذرا سا سرک کر سیرشکمی کی نعمت کا جشن مناتے ہیں۔دودھ، دہی، مکھن ،دیسی گھی۔…….. گوشت بھی ۔ اگر ابروباران نہیں تو ہم ہیروئن کے نشی کی طرح دھواں ( بادل) کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ جہاں چار بوندیں برسیں وہاں دو تنکے سبز گھاس کے اور پینے کا دس بارہ دن کا میٹھا پانی پیدا ہوا …….. ہم ریوڑ پر مشتمل اپنی دنیا وہاں آباد کرنے چلے جاتے ہیں۔ اسے ” ہم کاہ چر“ یا ،کا شر کہتے ہیں۔
اور اگر کبھی بہت عرصے تک علاقے میں کہیں بھی بارش نہیں ہے تو بھوک ہمیں کوڑے مارتی ہوئی مزدوری کے لیے سندھ لے جاتی ہے ۔ مولوی صاحب کا بچپن سندھ میں تو نہیں البتہ قریبی پڑوسی قبیلہ کھیتران کے حوالے ہوگیا۔ یہ ننھا یک دست بچہ اُن کے بیل گائے چرانے لگا ۔ اجرت؟ ۔محض دو وقت کی جوار باجرے کی روٹی ۔کوئی حاتم طائی ٹکرگیا تو ترس کھا کر اپنے بچوں کا پرانا لباس یا جوتے کا جوڑا اسے خیرات میں دے دیا، ورنہ بس نام رہے اللہ کا۔
زندگی رہٹ کے لوٹوں کی طرح رواں دواں……..نہ کبھی سٹیشن نہ سٹیشنری ۔ چلتی ٹرین ہے زندگی ۔اور ریسٹورنٹ کا ڈبہ بھی اس نے اپنے کاندھے پہ لادا ہوتا ہے اور سونے آرام کرنے کا برتھ بھی ۔ زندگی کی حرکت و رفتار انسانی موضوعی باتوں پہ کبھی غور نہیں کرتی۔ چنانچہ ، ایک دن اِس ننھے بچے نے خود کو وہاں کی بستی کی مسجد میں ملاّ کے سپرد پایا۔ملاکویہ مفلوج بچہ اُس کے باپ بنگو (Bingav)نے دیا تھا کہ اُس کو پڑھائے ، علم دے دے۔
یہ بچہ وہاں پڑھتا رہا ۔یوں چرواہے والی کربناک جسمانی مشقت سے ذراسا جان چھوٹی، روٹی ملنے کے وقفوں کی طوالت میںکمی آئی ، روٹی کے سوکھے پن میں کچھ نمی بھی در آئی اور موسم کی شدت میں مسجد آڑے آئی۔
مگر اچھا وقت تو ٹرانس کا نٹی نینٹل میزائل کی رفتار سے گزر جاتا ہے ۔ پتہ ہی نہ چلا کہ ایک روز خاندان اِس بچے کو لے کر پھر کوہستان ِ مری میں تاخیری لوٹا…….. مگر یہاں توحسب معمول روٹی وافر نہ تھی۔ نان نفقہ نا ممکن ہوگیا ۔ چنانچہ جنوب میں پندرہ بیس میل دور موضع سفید میں یہ معصوم پھر بکریوں کا چرواہا بنا۔
بچہ چرواہا ایک دن وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور قریب ہی ” یار خان مسجد “جا پہنچا۔ بس ٹک گیا وہاں۔ ناظرہ قرآن پڑھ ڈالا ۔ مکتبہ درخانی کی کچھ بلوچی دینی و اخلاقی کتابیں نثر و نظم میں پڑھیں۔ استاد اتنے متاثر ہوئے کہ بچے کو بلوچستان سے اٹھایا اور سندھ میں داخل کروادیا ۔ یہ سکھر تھا، مدرسہ تھا انوار العلوم ،اور استاد و گارڈین بنے مولانا شیر محمد جتوئی۔
آغاز فارسی سے ہوا ، رہبر فارسی بنی ، لطائف فارسی ۔ چھ ماہ کے اندر اندر تعلیم الاسلام پڑھ ڈالا۔ اور پھر تعلیماتِ سعدی کے سمندر میں کشتی ڈال دی۔ پنج کتاب تو ہم سب کا ” بسم اللہ“ رہا ۔ کریما ، نامِ حق ، پند نامہ عطار…….. یہی کریما اُس کی شناخت بن گئی۔ جتوئی صاحب نے کریما کے ساتھ بچے کی محبت ووارفتگی دیکھی تو کریما کریما کہہ کہہ کربالآخر اس کا نام ہی بدل دیا: عبدالکریم۔اب وہ مہر علی نہ تھا عبدالکریم تھا، زندگی بھر کے لیے عبدالکریم۔
…….. اور عبدالکریم سعدی کا ہوچکا تھا۔ گلستان ِ سعدی تو بعد میں بھی اس کی پسندیدہ ترین کتاب تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ مجھے گلستان پڑھا رہا تھا تو اسے اُس کی حکایتیں ، اُس میں اشعار اور اخلاقی باتیں زبانی یاد تھیں۔ اور وہ جا بے جا بہت چاﺅ سے گلستان سناتا تھا۔ گلستان کے بعد اس نے سعدی کی ” بوستان “ پڑھی۔
اور پھر وہ عربی کی وسیع و متنوع و رنگین سرحدوں میں داخل ہوا ۔اس نے ملتان کے قاسم العلوم سے دینی تعلیم مکمل کی ۔ عجب بات دیکھیے کہ قاسم العلوم فضل الرحمن والوں کا مدرسہ ہے مگر ہمارا مولانا ، جماعت اسلامی کے مودودی سے متاثر تھا۔ وہ مودودی کی موت کے دن ہر سال ایک دنبہ خیرات کرتا تھا۔
نصاب ختم کرکے اپنے آبائی بلوچستان میں اپنے آبائی مری قبیلے کے تاخیری واپس ہوا۔
اور جب ”شاھل شہر“ والوں کو پتہ چلا کہ ایک مولوی علم کی تکمیل کے بعد علاقے میں موجود ہے تو وہ اُسے وہاں اپنے گاﺅں لے جا کر پیش امام بنا لیتے ہیں۔ وہی جگہ جہاں بکریاں چرا کر اس نے اپنی زندگانی کا آغاز کیا تھا ۔ حاجی بنگو کا بیٹا اب ملاّ ، مولوی، مولئی صاحب، مولانا، اور استاد کہلایا جانے لگا۔
روز و شب کا گھڑیال چلتا رہا اور اس کا پنڈولم کئی تغیرات و تبدیلیوں پہ اثبات و نفی میں سرہلاتا رہا۔ اور پھر ایک دن ایک شخص اس مولوی کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ رات وہاں گزاری۔ مولوی صاحب کے طور طریقے دیکھے، اس سے گفتگو کرکے اس کی علمیت کا اندازہ کرلیا اور اگلی صبح اُسے یہ علاقہ چھوڑ کر ماوند جانے پر آمادہ کیا ۔ دلائل یہ تھے:” ماوند نسبتاً ایک بڑی بستی تھی، مولوی صاحب کے اپنے آبائی گھر سے قریب تر۔ جہاںآبادی زیادہ تھی اور لہٰذامقتدی نسبتاً زیادہ “۔ چنانچہ بنجارہ ماوند لاد چلا ۔
اس کی زندگی بدل دینے والا ، اور پھر اس کا زندگی بھر کادوست بننے والا یہ شخص حاجی محمد مراد تھا۔ ایسی دوستی کہ مولوی صاحب نے اس پر ’ سی پنی“ نامی کتاب لکھ ڈالی۔ ایسی لازوال دوستی کہ اسی حاجی محمد مراد کے بیٹے کو اُس کی شاگردی نصیب ہوئی۔ جی ہاں، میں اُسی کا شاگرد ہوں۔
وہ ہمارے گاﺅں کی مسجد میں اُس وقت آیا جب میں ناظرہ ِ قران ختم کرچکا تھا ۔ اور اس وقت کے مولوی نے میر ے دونوں ہاتھوں کی چھوٹی انگلیاں ایک رنگین رومال سے باہم باندھ کر مجھے گھر بھجوادیاتھا۔ یہ گویا علامت تھی کہ بچے نے قرآن ناظرہ ختم کیا ہے ۔ گھر والوں نے یہ رومال کھولنا تھا اور اِس میں خوشی کے بطور مٹھائی اور کچھ نقدی ڈال کر استاد کو اسی بچے کے ہاتھ بھجوادینی تھی۔
اس طرح میں قرآن شریف پڑھ چکا تھا جب ظہیری ہمارے گاﺅں آیا۔مجھے پنج کتاب ، گلستانِ سعدی ،بوستان اور یوسف زلیخاازجامی اس نے پڑھائے ۔ پھرایک عربی کتاب شروط الصلوہ پڑھائی ۔ قدوری ختم کی اور صرف ونحوتک آگیا تھا کہ سکول کی پرائمری جماعت پاس ہوگئی ۔سرکار کا فیصلہ تھا کہ ہمارا گاﺅں پرائمری سکول سے آگے کی تعلیم کامتحمل نہ تھا۔ مجھے میرا والد آگے پڑھاناچاہتا تھا ،چنانچہ ماوند سے مڈل پڑھنے نکلاتو مدرسے والی تعلیم چھوٹ گئی کہ مجھے کہیں اور ”مولانا“ نہ مل سکا۔(مولانا کبھی افرط میں نہیں ہوتے )۔
مولانا ایسے شفیق انسان تھے کہ زیادہ مارپیٹ نہیں کرتے تھے۔ وہ مرغابنانے ، ڈنڈ ابرسانے،ڈانٹنے سے حتی الوسع پر ہیز کرتے ۔ باقی تدریس کا وہی روایتی طریقہ جودنیا بھر کے دینی مدارس میں رائج ہے سبق دینا، یادکروانا ، دہرائی کرانا۔مولانا تدریس کے دوسیشن روزانہ چلاتے تھے: صبح کا سیشن اور ظہر کا سیشن ۔جوبچے سکول نہ جاتے وہ دونوں سیشن اٹنڈ کرتے اورہم سکولی بچوں کو سکول سے چھٹی کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر ظہر کی نماز کے بعد مسجد جاناہوتاتھا اور تقریباً عصر تک مسجد کے صحن میں بچھی لمبی چٹائی پہ بیٹھ کر بہ آواز بلند اپنا سبق یاد کرنا ہوتا۔ کوئی ہوم ورک نہیں ، کوئی کاپیاں مکمل کرنی نہیں۔وہیں پڑھا، اور وہیں کتاب مسجد کی دیوار میں کھدے ہوئے خانوں میں سے ایک میں رکھ دیا۔اورخالی ہاتھ طفلی حالت میں مست و رقصاں گھر چلے آئے۔
ہماری پوری دنیا میں ، بالخصوص ہمارے اڑوس پڑوس میں سکول اور مساجد دونوں میں ابجد‘یوں شروع ہوتا ہے : الف، بے ، تے، ثے، …….. د، ذ، رے، زے، طوئے ، ظوئے…. فے، کاف، و، یےے، مگر مولانا ظہیر ی کے ہاں یہ یوں تھے ، با، تا،ثا…….. را، زا، …….. فا، …….. یا ۔ دلچسپ تبدیلی تھی جو ہم بہت عرصہ تک جاری رکھ سکے مگر بعدمیں یہ اقلیتی صوتی مکتبہ اکثریتی روایتی طرز میں گم ہوگیا ۔ اب ہم اپنے بچوں سے وہی الف ، بے ، تے ثے میں باتیں کرتے ہیں۔
مولانا کے شاگرد دوطرح کے ہوتے تھے ۔ ایک وہ جن کاگھر دوردرازتھا۔ وہ بورڈ نگ (مسجد سے ملحقہ بنے تین چار کچے کمرے جوحجرہ کہلاتے ہیں) میں رہتے تھے ۔ انہیں کھانا گاﺅں سے گھر گھر جاکر اکٹھے کرنا پڑتا تھا جسے بلوچی میں ” حقدارانی نغن “ کہتے ہیں۔ یعنی دینے والے صبح شام اپنے مرے ہوئے پیاروں کے کھانے کے بطورانہیں دیتے تھے ۔بستر ، کپڑے زیادہ ترمیرے والد(اور کبھی کبھار کوئی اور مخیر شخص )کے ذمے ہوا کرتے تھے ۔مسجد کی دیکھ بحال کابڑا حصہ بھی انہی طالبوں کاکام ہوتا تھا۔ گاﺅں کی عورتیں انہیں جلانے کی لکڑی ،پینے کامیٹھاپانی مہیاکرتی تھیں ۔یہ بچے سال میں دوتین بارنسبتاً طویل چھٹیوںپراپنے گھر جاتے تھے ۔مولانا کے دوسرے شاگردہم ماوند گاﺅں والے ہوتے تھے، آج کی زبان میں ”day scholars“ ۔سکول سے تھکے ہارے آئے ہوئے اِن بچو ں کو صبح اور شام دونوں سیشن پڑھنے ہوتے۔صبح سکول اور شام مسیت ۔
جیسے کہ ہوتا ہے استادوں کے طالب علم بڑے ہوکر اپنی اپنی راہیں اختیار کرتے جاتے ہیں۔ مولانا کے شاگرد بھی زندگانی کے گھنے جنگل میں علم کی اپنی ٹارچ کی روشنی میں اپنی سوچ سمجھ اور حالات کے تنوع میں آگے بڑھتے رہے ۔ اُن میں کچھ لوگ دینی سیڑھیاں چڑھتے گئے جہاں زمانے کی ہوا کی عین مطابقت میں روٹی روزی کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ ہم جیسے اُن کے کچھ شاگرد دنیاوی معروض میں اپنی رومانویت کو لگا م ڈالنے میں ہلکان رہے ۔ چند روزہ زندگی کو جھیلنے کے طور طریقے مختلف تو ہوتے ہی ہیں ناں……..ورنہ دوزخ جیسی یکسانیت چھا جائے!
اُن کا ایک شاگرد چالیس پچاس میل دور سے آیا ہوا تھا۔ اس کا نام” سونا “تھا۔ مہمدانڑیں قبیلے کا یہ لڑکا میرا گہرا دوست تھا۔ وہ بعد میں اپنے علاقے چلا گیا اور وہاں قتل ہوا۔ اسی طرح قریب کے پہاڑ سے للوانڑیں قبیلے کا شیر جان تھا۔ ہم سے سینیئرز میں سے دو ڈھائی میل کے فاصلے سے نور محمد سالارانڑیں اور پانزل (فاضل ) سالارانڑیں تھے۔ یہ سینئر لڑکے مولانا کا ہاتھ اس طرح بٹاتے تھے کہ چھوٹے بچوں کو وہ سبق دیتے تھے ۔
مولانا نماز بہت خوبصورت قرا¿ت کے ساتھ پڑھاتا تھا۔ اس کی آواز بہت میٹھی، مترنم اور پاک ہوتی تھی ۔عالموں جیسی قرا¿ت، مریوں جیسی قرا¿ت۔ وہ پہلی رکعت میں نسبتاً لمبی سورت پڑھتے تھے مگر دوسری رکعت میں ذرا سی مختصر۔ نماز کے اختتام پر وہ ایک دفعہ نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے تین دفعہ دعامنگواتا تھا۔ پہلی دعا ابھی ختم نہ ہوتی تھی اور دونوں ہاتھ ابھی چہرے پر ہی ہوتے تھے کہ دوسری دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے ہوتے تھے۔ مگر یہ دعائیں بہت لمبی نہیں ہوتی تھیں۔ نہ ان میں کوئی رقت وغیرہ ہوتی تھی۔بس عجز عاجزی سے عربی والی دعا۔ وہ اس میں بلوچی شامل نہیں کرتا تھا ، ہاں البتہ ، اگر تین دعاﺅںکے بعد کوئی درخواست کرتا کہ ” سپلیمنٹ یا گریبی کے بطور ایک اضافی یعنی خیر، یابارش کی دعا “ کردیں تو پھر وہ دعاذرا سی طویل بھی ہوتی تھی اور اس میںوہ خیروبارش و صحت کے لیے بلوچی الفاظ بھی شامل کرتے تھے۔ اُس میں بھی کوئی مصنوعیت یا حلق سے آوازوں والی ملاّ گیری نہ ہوتی بلکہ ایک ٹھہراﺅ بھری درخواست اور requestہوتی تھی۔
عشاءکی نماز بالخصوص بہت طویل ہوتی تھی۔ پورے سترہ رکعت جس کے بعد وہ کسی خوش الحان جماعتی (مقتدی ) سے ”تبار“ والی سورت سنواتا اور اس کے بعد چار پانچ ذکر ہوتے جو سارے نمازی بلند آواز سے پڑھتے ۔ جب ایک ذکر ختم ہونے کو ہوتا تو مولوی صاحب اپنی تسبیح نیچے چٹائی پر تین بار مارتا ، آواز سے نئی بہر کا ذکر شروع ہوتا جس کی لَے بالکل مختلف ہوتی۔
جمعہ اور عیدوں کی تقریریں اور خطبے بھی اُسی کے ذمے ہوتے ۔ کیا خوبصورت تقریر ہوا کرتی تھی اس کی !۔ وہ موضوع کی مطابقت والی چھ سات کہانیوں حکایتوں کا انتخاب کرتا ۔ ایک قصہ سنانا شروع کرتا ۔ درمیان میں فلسفہ بھرے فقرے ڈالتا جاتا، بلوچی اردو فارسی اور عربی ،شاعری اور ضرب الامثال پروتا جاتا ۔ وہی قصہ سناتے سناتے جب درمیان میں پہنچ جاتا تواچانک اسے نا مکمل چھوڑ کر دوسری کہانی سنانی شروع کرتا، پھر تیسری ،چوتھی…….. ساری نا مکمل کہانیوں میں سے آخری کو پہلے مکمل کرتا ، پھر اُس سے پہلے والی ، اُس سے پہلی والی۔ ہر کہانی سبق آموز، ہر قصہ روشن فکری سکھاتا ہوا۔اور اس طرح آخر میں سب سے پہلی سنا ئے جانے والی کہانی مکمل ہوجاتی اور پھر خطبہ اور پھر دعا۔ مولانا کبھی ذاکروں والی تقاریر نہیں کرتا تھا۔ نہ لوگوں کورلانے کی کوشش کرتا۔ نہ ہی کوئی سیاسی تقریریں کرتا تھا۔ عام سی دینی و اخلاقی باتیں ۔ عام فہم بلوچی میں۔ صحابہ، اور بزرگوں ولیوں، نیکوں کے قصے اور اُن کے اچھے اقوال۔
ایک بار ایک چھوٹے قد کے سرخ و سفید شخص نے اُس سے شکایت کی کہ آپ کے وعظ کا مزہ نہیں آتا۔ ان میں خدا سے ڈرانے کی اور وقت بھری باتیں نہیں ہوتیں کہ سن کر عشقِ خدا میں انسان زارو قطار رو دے ۔ مولانا نے دھیمی آواز میں کہا: تم میں خوفِ خدا ہوتا توتم یوں سرخ اور موٹے تازے نہ ہوتے“۔
اور وہ تواہمات بالکل نہیں پھیلاتا تھا۔ وہ انسان کو سوائے خدا کے باقی جن بھوت سے خوفزدہ نہیں ہونے دیتا تھا۔ جب بہت پرانے درختوں کو کاٹنے سے لوگ اس بات پہ ڈرتے تھے کہ اُس درخت پر جن ہیں تو وہ مالک سے اجازت لیتا کہ وہ اُسے اپنے مدرسے کے بچوں کے جلانے کی لکڑی کی خاطر کاٹے گا۔ تب وہ ایک تعویذ لکھتا، اسے درخت کی سب سے اونچی چوٹی پہ باندھ لیتا۔ لوگوں کو بتاتا کہ تین چار دن ٹھہر جاﺅ کہ تعویز دیکھ کر جن وہاں سے نقل مکانی کرسکیں ۔ پھر نہایت اطمینان کے ساتھ خود پہلی کلہاڑی چلاتا اور اس کے بعد اپنے طالبوں سے پورا درخت کٹوا لیتا، اور مزے سے ساری سردیوںکے لےے اپنے طالبوں کی گرمی کا انتظام کردیتا۔
مسجد کے پیش امام کے لےے کچھ اور لوازمات بھی ہوتے ہیں جنہیں بہر حال سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہمارے لوگ ملاّ کی پوسٹ کے لیے کسی ایسے شخص کو اپوائنٹمنٹ دیتے ہی نہیں ہیں جو تعویزیں نہ دیتا ہو، دم نہ کرتا ہو، اچھے خوابوں کی تعبیریں نہ کرتا ہو اور برے خوابوں کا تریاق نہ ڈھونڈتاہو۔ جی ہاں ملاّ پہلے پہل یہ سارے کام عوام ہی کے اصرار پر کرتاہے ۔ بعد میں بے شک وہ انہی ہتھیاروں کو اُسی عوام کے خلاف استعمال کرتا ہو۔
ہمارا مولانا بھی تعویزیں دیتا تھا ، دم چُھو بھی کرتا تھا۔ اور سانپ کے کاٹے کے لئے تو تیر بہدف دم کرتا تھا۔
اسی طرح پیش امام کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ دینی مسائل کا حل پیش کرتا رہے ۔ وضو کے طریقے ، نماز، سجدہ سہو جیسے سادہ عوامی معاملات۔ہمارامولانا یہ سارے امور سرا انجام دیتا تھا ۔ مگراُس میں کوئی سخت گیری نہ تھی ۔ وہ چھوٹی باتوں سے الجھنے کے بجائے لوگوں کو بڑے سماجی فریم کے اندر چھوٹی موٹی آزادی دینے کا حامی تھا۔میں نے اس کے منہ سے کسی عام مقتدی کے اعمال کے بارے میں کوئی غیبت وبرائی اور تنقیدنہیں سنی ۔
عشق و محبت کو بھی وہ عجیب انداز میں لیتا تھا ، عام روایتی ملاﺅں سے یکسر مختلف انداز میں :

”عشق دیدارسے ہوتا ہے۔ مجبوںنے لیلیٰ کو ، پنوں نے سسی کو ، توکلی مست نے سموکو۔ واہ رے دیدارتیر ے کرشمے اورر عنائیاں
”اَن دیکھے عشق کے دعوے جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ۔میں فریب کاری کو بدترین گناہ سمجھتاہوں“۔
مولانا بہت اچھا شاعرتھا ۔ بلوچی میں اور فارسی میں ۔ اردو میں بھی مگر اس زبان میں مذکر مونث کا معاملہ بلوچ کے لیے تکلیف دِہ ہوتا ہے ۔ لیکن وہ اِن باریکیوں کا زیادہ خیال نہیں رکھتا تھا۔ پرواہ بھی نہیں کرتا تھا ۔ایسی بڑی عشقیہ نہیں توخالص دینی بھی نہیں۔
نومبر1933نوکیں دور میں ان کا طویل شعری ٹکرا یوں ہے :
یہاں جس کو دیکھو وہ سب سے بڑا ہے
مگر خوابِ غفلت میں سویا پڑا ہے
ابھی وقت اٹھنے کا کچھ آگیا ہے
وہ خوابوں کا لمحہ کہیں رہ گیا ہے
ابھی کام کا وقت کیوں سو گئے ہو
جا گو جگاﺅ کدھر کھو گئے ہو
عجب ہم میں آکے پڑا ہے بکھیڑا
کوئی خان صاحب ہے کوئی وڈیرہ
کوئی پیرِ جن ہے کوئی مولوی ہے
کوئی دیو بندی کوئی بریلوی ہے
گروہوں میں انسان اب بٹ گیا ہے
رہِ یک نوائی سے وہ ہٹ گیا ہے
بڑے پیارے القاب ہیں نام ان کے
کسی کام کے اب نہیں کام ان کے
کوئی آسماں پر کوئی ہے زمیں پہ
ہیں زور بازو اس روحِ حزیں پہ
یہ تھوڑے نہیں اور بکھرے ہوئے ہیں
رہِ راست سے دور بچھڑے ہوئے ہیں
نہیں ان میں احساس سود و زیاں کا
اب رہبر نہیں کوئی اس کارواں کا
ہے چاکِ گریباں جدا من رسیدہ
چمن ان کا ہے اب بہاراں ندیدہ
یہ انساں ہیں آپس میں دست و گریباں
کیوں دور ہے ان سے نظر نگہباں
خدا سے بھروسہ سبھی کا گیا ہے
نئے ناخدا ہیں طریقہ نیا ہے
ملا کر انہیں ایک کر دے جہاں میں
خدا یا اثر دے تو میرے فغاں میں
ظہیری کے دل میں یہی رنج وغم ہے
کہ آدم کی وقعت اب مٹی سے کم ہے

جواب خط
مولانا عبدالکریم ظہیری

میر جعفر خان تئی خط مناں رستہ
مئیں دلا خوشی ژا لیکواں گوئستہ
ٹوک ترا گیریں کہ تہ مناں گوئشتہ
آں مُرگ شتو بڑزیں حیورے نشتہ
جی مراذوند تئی سورھیں بختا
کہ سمل دست گپتو بڑتہ مستا
موژاغا رندیں براوریں راہا
روَ پرے درنگ و کلشنڑ و شیاں
شارا دامن ژا سیفراں دھیریں
بڑزیں چو آزمانی جڑی پلاں
پاکیں چو یاسین سورتہ ورقاں
صافیں چو نوذی گُوئڑتغیں ترمپاں
یا صافیں چو گوذاں دشتغیں شیراں
رسترانی آ پکغں میور !!
میوراں بڑزیں ھیوریں درنگاں
آف نیل کرے یا چیلڑی چاثاں
کانڑکی وھشیں ٹوبویں جوسر
دربھلو کوہِ ئے ساڑتیں سرگواثاں!
سانوڑی کوکر کایاں گوئل آ
بانڈواں سموئے نہ می سیتاں
کہ براوریں کل گوں ہر نُہ ایں داراں
میہاں گوں شش بندیں کڑسکاں
بنداں ساذانی ژہ ریذغیں گیڈاں
نَیں سذاں نیاما نیں گرنچ یلو بی آں
بانکہ بستاں گوں ہڑدنیں دستاں
بانزی آں دے گواث نہ کزیں نی
نیں نفاذ میں سی کہ سوگہیں آف شین
سمل ئے راجا بازناں سہر چم
دف زواں یکیں مست ئَ کولی یاں
برو گزی کوڑی بے سر و دمبیں
دل ھشار بیت او نیں کنہ کستہ
توکلی بازیں مست ہواں یکہ
وَہ خدا ہردم آفتاں رکا
ہر کس ثی جیذ و جوسراں جکا
ماکثہ سوالے پریشتغاں آمین
پاذگوں پوڑی یاں اڑائیں تی
جاں لڑزیث ونئیں ہر دھیں (10) ھیذباں
عرش کرشاں برو سرجمی نندی
تاڑ و تیلاںکاں نیں دھڑکواں گندی
ھِیلا گوں بڑزیں درگہ آ بندمی
با قبول دربارا حضور ئے غا
ہندیں ناں دست بندیں سوالانی
ٹوک ظہیری ئے قول ہمے حقا
مڑ ہواں جوانیں کں سنگتہ تکا
کوڑا دے پنچ روشاں رغامانی
لوٹغوں ہئیرا بیگھ و بانگھانی
تہ کثہ ٹوکے ما جثہ گالے
آخرا استیں گونتہ مئیں سوالے
مئیں ٹوک ترا وھشیں دفتراں لکھی
تہ وثی وسا ژا گاری آ رکی
بیڑی رومالاں صندوخاں ڈھکی
داں موسماں دراژیں مدتاںجکی
ناھیں تیلی اے ڈسی برو بلاں دکی
نَیں تئی ٹوکے نیں منی گالے ۔۔۔۔
نَیں دلی رنج اے نیں کہ جنجال اے
پندرہ بیس میل دور اُس کا دوست مولوی عبد الغفار پیش امام تھا۔ جگہ کانام ہے پاہیں والی۔ وہ بھی شاعر تھا۔ چنانچہ یہ دونوں شاعر ایک دوسرے کو سلام پیغام شاعری میں بھیجتے رہتے تھے ۔آنکھ سے ٹپکیں تو آنسو، زبان سے ٹپکیںتو شاعری…….. اور دونوں کا ٹپکانا ضروری ہوتا ہے۔ وگرنہ مسرت اپنی دمک کھودے گی ‘اور غم کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔بارشیں ،چراگا ہیں کس حال میں ہیں ، زندگی کیسے گزررہی ہے ،زندگی کے مسائل کیاہیں۔ دوستی ،یادیں،چار روزہ زندگی خواب دیکھنے والے اگر صرف شہروں میں ہوتے تو فطرت تو دم گھٹ کر مر جاتی ۔ کہ شہر میں خواب دیکھنے والے محتاج ہوتے ہیں گھڑی کے، اخبار ٹی وی کے ، نکٹائی اور سگنل کے ۔ پالتو قسم کے خواب بین۔یہ دونوں تو پہاڑ کے ڈریمرز تھے۔ مری اِستان کے کریملن ،ماوند کے ڈریمرز۔
الغرض اچھے خاصے متنوع موضوعات والی شاعری ہوتی تھی۔ایسی بلوچی شاعری جوفارسی کی آمیزش سے مکمل آلودہ تو نہ تھی مگر سُچی خالص بلوچی میں بھی نہ تھی۔ دوعالموں کی شاعری جوخالصتاًاُن دونوں کے لیے تھی۔ اُس میں خارجی خیالات والفاظ تو آنے تھے ۔ پھر، یہ شاعری بلوچی کلاسیکی والی طویل شاعری نہ تھی ، بلکہ نسبتاً 20،30مصرعوں والی شاعری ہوتی تھی۔
مولانا نے فارسی شاعری بہت دیر میں ”جواہرِ کریما ئے ظہیری“ سے شروع کی ۔ اور وہ بھی شیخ سعدی کی تضمین سے ۔یعنی ایک مصرع سعدی کادوسرا مولاناعبدالکریم کا۔ یہ کتابی صورت میں چھپ گئی ۔”سی پنی“ کے نام سے ایک اور مجموعہ بھی ہے ۔ جومیرے والد حاجی محمدمراد سے متعلق ہے۔ ابھی تک ہم جسے چھاپ نہیں سکے ہیں۔
اس کا دایاں ہاتھ تو پولیو زدہ تھا، بائیں ہاتھ سے سب کام کرتا تھا۔ بائیں ہاتھ سے اُس نے شدید بیماری میں یہ کتاب لکھی تھی ۔ اس لےے کئی الفاظ ، اور کبھی کبھی پورے کے پورے مصرعے ہم سے پڑھے نہ جاسکے ۔کچھ فارسی دانوں سے مدد لی جو کہ ہمارے احباب میں فارسی کے بڑے بے رعب قسم کے ماہرہیں ۔ انہوںنے کچھ کوشش کی ۔کچھ الفاظ کووہ پڑھ پائے کچھ کوقیاس کے ساتھ ڈی کو ڈکر لیا۔مگر بہت سارے الفاظ ناقابل فہم تھے۔ ارادہ تھا کہ خود مولانا کے پاس بھیج کراس کی درستگی کروائی جائے ۔ …….. مگرعبدالکریم پر وف کےے بغیر انتقال کرگئے۔ اب ہم یہ پر وف کس سے کروائیں ۔تحریر کاپر وف ! تعلیمات کاپروف، نظریات کا پروف۔
جیسے کہ ذکر ہوا، مولوی صاحب کادایاںہاتھ بچپن میں مفلوج ہوگیا تھا۔ وہ سارا کام بائیں ہاتھ سے کرتے تھے ۔وہ بہت خوبصورتی سے جلد سازی اسی بائیں ہاتھ سے کرتے تھے ۔ (اس نے جلد سازی کے اچھے اوزار اکٹھے کررکھے تھے۔ شاید سکھر سے لایا تھا )۔اُس زمانے کی جدید ترین ٹکنالوجی کے آلات۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ایک آدھ طالب کی مدد سے حدیث اور دوسری کتابوں کی بہت خوبصورت جلد لگا کراُن کی عمر یں درجنوں سالوںتک بڑھا تا تھا ۔ کچی عمارتوں کے گردوغبار، دیمکوں ، اوربکریوں سے کتابوں کو بچانابہت مشکل کام ہوتا ہے۔ (اور آج سے سو برس قبل ایک پسماندہ علاقے کے پسماندہ گاﺅں میں ایک آدمی کے پاس کتابیں جلد کرنے کی مشینری ہوا کرتی تھی)۔
مولاناکوفارسی اساتذہ شعرا کی کتابیں اکٹھی کرنے ، جلد کرنے اور رکھنے کابہت شوق تھا۔ حافظ ، سعدی ، مولوی ،جامی الغرض بہت اچھا ذوق تھا ان کا۔ وہ مست توکلی کا اتنا بڑا پرستار تھا کہ چاہتا تھا کہ ”مست کی شاعری والی کتاب کو مقدس کتاب کی طرح تین پوشوں میں لپیٹ کررکھے “۔
مولاناہمارے گاﺅںمیں صرف نحو، منطق تک پڑھاتا تھا۔اس کے کئی طالب علم مولوی بن کر ریٹائربھی ہوچکے ہیں ( مولوی اور ریٹائر!!)۔
پھر، رفتہ رفتہ مولانا کو اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف ہونے لگی۔ وہ ملتان علاج کے لیے چلا گیا۔ ریڑھ کی ہڈی میں کوئی رسولی بتلا کر ڈاکٹروں نے اس کاآپریشن کیا…….. آپریشن ناکام ، اور مولانا کا نچلا دھڑا مفلوج ہوگیا۔پندرہ بیس برس تک وہ سسک سسک کر بستر کا ہوکر رہ گیا۔اور” بہت بہت معذور مجبور ہوں۔ لیٹے لیٹے لکھتاہوں“ ۔
وہ بیماری میں سہولتوں کی تلاش میں دلیل و شاذی ہان کے گاﺅں ماوند سے نسبتاً بڑے قصبہ ، کوہلو منتقل ہوا جس کی وادی کے مغربی سرے پر مست تﺅکلی کا مزار ہے۔:” دیارمست توکلی فی الحال میراقبلہ کعبہ ہے ۔ ماوند کی کچھ ظالم یادیں آتی ہیں تو نماز بھی تو ڑدیتا ہوں۔ وےسے بھی میں مجبوری کی وجہ سے فی الحال نمازی نہیں ذکری ہوں ۔ یعنی نماز نہیں پڑھ سکتا ذکر کرتا ہوں۔خدا کویاد کرتا رہتا ہوں ۔ مذہباًذکر ی نہیں ہوں لوگ پتھر مارےںگے “۔
مولانا کی دلجوئی کے لیے پڑھنے کا مواد ہی کارآمد ہوسکتا تھا۔سوہم بھیجتے تھے۔ اور وہ بھی پڑھ کر دلچسپ تبصرے کرتا تھا:
”جولائی 2004کا سنگت مل گیا تھی۔ دس پند رہ دن تک پڑھتا ر ہوں گا پھر پھینک دوں گا“۔(مجھ ایڈیٹر کے لیے کتنے بڑے اطمینان کی بات تھی کہ میرا استاد ، ایک مفلوج شخص کا دس پندرہ دن کا ٹائم میرا رسالہ پاس کرتا رہے !)
ماہنامہ سنگت کے ساتھ اُس کی خصوصی دوستی تھی:”سنگت سنگت بھی ہے رہنما بھی ۔سنگت ایک نشتر ہے ، ڈاکٹر !اسے تیز بنایئے ۔ ظالم متکبر خودپرست دلوں کوچیرتے رہےے یہاں تک کہ ان میں گندہ فاسد پلید جراثیم زدہ اور باﺅلاخون ختم ہوجائے اور وہ درندگی سے انسانیت پر آجائیں ۔ جب تک یہ زہر یلے اژدھے ختم نہ ہوں جنگ جاری رہے ،فتح شکست ساتھ ساتھ“۔
حوصلہ افزائی کرنے والا یہ بزرگ ایک بار ( سنگت اپریل2004) ہمارا دل یوں بڑھاتا ہے:” قدرت کے عطا کردہ انسانیت اور آدمیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ اوصاف آپ حضرات کے شایان ہیں۔ صدآفریں بریں ہمت مرداں ۔ سچائی، ہمدردی، بیباکی قربانی کا یہ منور مشعل لےے چلےے ۔ آج دن بھی اندھیر ہیں۔ پانی زہریلے ،محلات کی بڑھتی ہوئی اونچائیاں ،نشیب و غلاظت۔۔۔موجود ہ انسانیت سے درندگی شرمندہ و حیران۔ نہ مسجد ،مندر، نہ واعظ فقیہہ ،نہ قدرت کے نظرِ کرم، نہ ایشور کی کرپا۔
سنگت کے چراغ رہ نمائی زندہ باد……..“۔
سنگت کے ساتھ اُن کی وابستگی دیکھیے ۔ اُن کی شاعرانہ عظمت دیکھیے۔ ان کی منظر نگاری دیکھیے ۔ ماسٹر پیس:
ڈاکٹر شاہ محمد مری
خوش باثئے ۔ مئے ملاقات طارق محمود سیرا بیثہ۔ پذا مانئیثہ ۔ خطانی لکھغا مں سست دِہ استاں۔ کمڑو بیمار دِہ استاں ۔ سنگت رسالہ تی آنی دستا مناں پجثہ ۔ جوائیں رسالہ اے ۔ میر عبداللہ جان جمالدینی آ بڈو باراں سلاماں دے ۔ سنگت ئے کل سنگتاں سلاماں دئے
نیک دعا: مولوی عبدالکریم ظہیری۔
ماہنامہ سنگت
سنگت دیر کثہ نیا غئیں ناں
دل پریشانیں مار سمانیناں
چے دلا کپتئی دیر کنغیں ناں
پلوا مئے غاپیڑ نیا غیں ناں
یا دل شتی تی پلے رو غیں ناں
یا بغابیثہ ھیلناں سئے ناں
مئیں دے اقرار یں سنگتا نیلاں
دل منی اے ڈولا گشغیں ناں
داشتہ زورے یا، بے وفا نیں ناں
دل گنو بیثہ پہ سنگت مَئین آ
سنگت ئَ ٹلی مڑھواں کیں ناں
دیم چوڈی او ئی بلغیں ناں
کا غذیں رکاں پل اناریں ناں
کشک ایں دنتاں ناں یہ ہُماریں ناں
شیفغیں پونز اسہر شمالیں ناں
جمبو یںجی غاگھوٹ سماریں ناں
بمبویں جاواں بو ذوانیں ناں
جھمکاں انگور کٹاریں ناں
پاذ ئَ جتی یاں گراں بہائیں ناں
ریشمی جراں دوش ہماریں ناں
دوتکغاں درزی یاں ھشاریں ناں
سنگت ئَ ڈیلا پل بہاریں ناں
دادِناں رب ئے بے شماریں ناں
ٹاھثئی سنگت بے میاریں ناں
پہ سنگت ئَ دلِ مئیں بے قراریناں
جی سنگت ئَ ٹوکاں وھش تواریں ناں
جی ترا سنگت مٹ ترانیں ناں
وہا وژامئیں چماں دیر گاریں ناں
بیاتہ لڈانا تئی اگہاکنئیں ناں
دژمن ایں وہاوشف تھاریں ناں
پجی آ نندوں دل اواریں ناں
بیاتہ لماناں مارانتظاریں ناں
زندغی وختاں بے وفائیں ناں
روش کذیں ٹبی چے سمائیں ناں
استناں ھکو ،آں وث خدائیں ناں
عیب وہر نقصاناں جدائیں ناں
معاف کن مارا کار خطائیں ناں
آخر اھیل ئَ ہند ھواں ہیں ناں
دگ ایں بولان آ بر اوریں لین آں
سیوی و تلّی دگ ارنڈیں ناں
منڈاھی گرمیں جکغی نیں ناں
تئی بار غیں ڈیلا گرم تافیں ناں
ہوں مذاں رکاں بے مثالیں ناں
دگ ایں پہ برگ ئَ فاضل شاہین ناں
راھیں گور بند انیلی وڈیں ناں
دَرکہ باغاراگٹ اصُل نیں ناں
ننگریں ماوند دروکا دیمیں ناں
کانج دفا شہر ئے گوئنڈیں شہریں ناں
مسجدیں نوریں شہر ئے نیامیں ناں
مں کپتی آں ایذا ہند ہمیذئیں ناں
ٹوک ظہیری ئے شئیر گاریں ناں
تہ وث دلا پوہئے مئیں چے حالیں ناں
بس کثﺅں مرشی اکھر بازیں ناں
لاتمائی ئے وخت گوازیناں
عیسو ئَ سن ایں لیکو اشیں ناں
دوازدہ تاریخیں مئی ماہیں ناں
یکیں نی پُشتا دوہزاریں ناں
اور جس وقت میر عبداللہ جان جمالدینی نے انہیںگلستانِ سعدی بطور تحفہ بھجوایا تو اُس کی وصولیابی پر مولانا نے یوں لکھا:
ڈاکٹر شاہ محمد آن فرد زَمان
چوں خورشید تابان و خویش عیان
بہ عبداللہ جاں مرا نمود
کہ مہرش بجان و دلم بر فرود
کہ اے ڈاکٹر مرد صاحب کمال
کہ از تو رمدرنج حزن و ملال
ڈاکٹر شاہ محمد بمن گفت این
یک نیک مرد است مرد فطین
عبداللہ جان ورا نام نامی بود
کہ در علم چون جام جامی بود
شناسائے دھراست صاحب فنون
دلش مہر دارد بحدِ جنون
بمہرِ عزیزاں چوں جاں در بدن
بکردار گفتار درِ عِدن
کتابے فرستان بر نو گران
کتابے کہ نامش بود گلستان
ان گلستان سعدی برمن رسید
گلستان محمود سعدی حمید
کتابِ گراں مایہ با ما رسید
چنین بخت دولت کس کم بدید
دو رخسار آن را ببو سیدہ ام
ببو سیدہ ام ہم ببو سیدہ ام
عبداللہ جان را من کنم آفریں
فرستاد برمن کتابے چنین
خدا دوست دارد ترا اے صنم
کجا من توانم کہ شکرت کنم
کجا عزتِ تو کجا سخنِ من
ترا شانِ بالا زگفتار من
کتاب چون شہداست من مگس وار
شب و روز بر روئے او بے قرار
بشب در بغل روز بر چشم من
بباغِ دلم ہمچوں سرو و سمن
دریں ورطہ کشتی فروبردہ ام
ہمہ غرق گشتم عجب زندہ ام
گناہم بعشقش ہمہ عفو شد
خطا ہم بمہرش ہمہ محوشد
توئی عبداللہ جان منم خاکسار
بنامِ نکوئی مرا یاد دار
ندانم کجا شب شود زندگی
کہ گورست در پیش در ماندگی
ایں دنیا نماند نماند کسے
زمن این نشانی بس است بسے
”میری ان باتوں کو سنگت کے میدان وسیع سبزہ زار میں بودیں تاکہ سنگت کے سنگتوں کومیری زندگی کا یقین ہوجائے کہ چینڈ ور (ایک پرندہ ) کے سرپر بھی تاج ہے ۔
”میں کوئی فرشتہ نہیں کہ آدم کے لےے زمین بوس ہوں۔ میرے جسم کاایک بال بھی انسانیت سے آشنا ہو تو دونوں جہاں میرے“۔
میں بھی کونسا انہیں چین سے پڑا رہنے دیتا ۔ ایک بار انہیں لکھا:
”اپنے علم کے بہتے دریا سے ایک آدھ قطرہ یہاں بھی ، سنگت کے لئے بھی ، سنگت کے قارئین کے لئے بھی ۔ متواتر، لگاتار ، مسلسل ، ہر ماہ ۔ آپ کی بیماری ، پریشانی بھی مدِ نظر ہے ۔ مگر اس سب کے باوجود ہم علم کے لالچی ، طالب اور طلبگار لوگ اپنا راشن آپ سے مانگتے ہیں ۔ ہر ماہ ہمارے تین چار صفحے نہ سہی دو چار سطریں ہی بھر دیجئے۔ہمیں گمراہی سے بچا لیجئے یا استاد المکرم ……..ایڈیٹر“
18سال تک مولانا مفلوج ساعتیں جھیلتا رہا۔ ایک بے سہولتوں والے کچے مکان میں ۔ دنیاداری چھوٹ گئی، باہر کی فضائیں گئیں۔ وہ محتاجی میں18 برس تک بستر میں پڑا رہا۔ حتیٰ کہ پہلو بدلانے کے لئے بھی دوسروں کے رحم و کرم پر رہا۔ وہی چار پائی اس کی کارموٹر تھی، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم اور واش روم رہی۔اُس زمانے میںپہیے والی کرسیاں موجود نہ تھیں، یا ہمارے علاقے میں نہ تھیں ۔ بس بستر!!
اس ناقابلِ بیاںتکلیف دِہ زندگانی میں شوگر کا مرض بھی آن شامل ہوا۔ لمحہ لمحہ جی کر، لمحہ لمحہ مر کر اس عالم انسان کو نشتر ہسپتال ملتان نے زندگی سے رہائی دی۔ اور ہمارا استاد اِس دنیا سے پردہ کر گیا۔
اب میں امید اور مان کے ساتھ کتنے اور احباب سے یوں گویا ہوسکوں گا؟
”میرے استاد، میرے ”مولانا“!
ہم اتوار پارٹی والی اپنی ربع صدی کی عبادت کے دوام میںماما عبداللہ جان کی بیٹھک میں موجود تھے۔ ماما کی یادداشت ، نگہداشت ، بصارت، سماعت اور گفتگو اب بہت کم تسلسل رکھتی ہے ۔ …….. مولانا اِس عبداللہ جان کے بِن دیکھے قدر دان تھے، عام قدر دان نہیں پیری مریدی والی قدر دانی۔ مولانانے اُن کے لئے ایک بار یہ والے القابات لکھ بھیجے تھے:
” شیخ ِ بزرگ ، ضعیف العمر ، مجبور بیمار، لرزہ بہ اندام، بزرگِ نیم جان…….. مولانا ایک مرشد کی طرح عبداللہ جان کو یاد کرتے تھے :
”شیخ بزرگوار عبداللہ جان جمالدینی کے مبارک سفید داڑھی پر بوسہ او ر ہاتھ پیروں پر“۔
اُس اتوار اچانک ماما نے پوچھا ”مولانا عبدالکریم ظہیری کا کیاحال ہے ؟۔ اور میں نے بہت ناخواستگی میں سچ بتادیا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔…….. اور بس اچانک ایک ہاتھ اٹھا ( دوسراہاتھ تو ماما کے بجائے فالج کا حکم مانتا ہے ) اور پھر چالیس ہاتھ اٹھے۔ عام ہاتھ نہیں بلکہ عالموں ، شاعروں،ادیبوں ، صحافیوں، آرٹسٹوں کے ہاتھ!! ۔ہم سب مختلف عمروں، زبانوں، عقیدوں کے لوگ اُس شخص کے لئے دعا فاتحہ پڑھ رہے تھے جسے سوائے میرے کسی نے نہیں دیکھا تھا …….. خود ماما نے بھی نہیں۔
اب ہمیں اس کے اس دعویٰ اور یقین کی تصدیق کرنی ہے :
” میں چراغ ِ سحری ہوں، میرے بجھنے سے روشنی ہوگی“۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے