”میری ہنسی کھو گئی ہے؟ ۔۔۔۔میں ا±سے تلاش کر رہا ہوں !“
میں نے پو چھنے والے کو حیرت سے دیکھا، وہ میرے لیے اجنبی تھا۔ کوئی بے تکلف دوست ایسی بات کہتا تو میں کسی لطیفے کی تمہید سمجھ لیتا مگراس آدمی سے تو میرا اتناہی رشتہ تھا کہ وہ بھی میری طرح ایک مسافر تھا اور لوکل ٹرین میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ غیر ملکوں میں غیر لوگوں سے ملتے وقت بہت ہوشیار رہنا چاہیے ، خاص طور سے ان لوگوں سے جو اجنبی ہوں اور بے تکلف ہونے کی کوشش کر رہے ہوں۔ میں نے اسے غور سے دیکھا، آشنائی کی کوئی جھلک دور دور تک نہیں تھی۔ میں جو بلی لائن پر کِل برن سے اسٹریڈ فورڈ تک روزانہ سفر کرتا ہوں مگر اس کا چہرہ میری نگاہوں سے کبھی نہیں ٹکرایاتھا۔ وہ نہ جانے کس وقت میرے پاس آکر بیٹھ گیا تھا، شاید اُس وقت جب میں اپنے کراس ورڈ میں کھویا ہوا تھا، مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لینی چاہیے تھی مگر وہ جملہ ان جملوں میںسے نہیں تھا جو ہم دن رات سنتے اور بولتے ہیں۔ وہ جملہ بھی ا±سی کی طرح اجنبی تھا۔
”میری ہنسی کھوگئی ہے۔۔۔۔!“
ہنسی کیسے کھو سکتی ہے؟ سوال اتنا انوکھا تھا کہ میں نے غورسے اجنبی کو دیکھا۔ وہ ساٹھ پینسٹھ برس کا کمزور سا بوڑھا تھا ، چہرے پر بے ترتیب داڑھی تھی مگر بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے ۔ آنکھیں ایک ذہین آدمی کا پتہ دے رہی تھیں مگر ان میں تھکن بہت تھی ، جیسے کئی راتوں سے سویا نہ ہو۔ کپڑے بھی اچھے تھے اور جوتے چمک رہے تھے۔ اس کے جائزے کا عمل چند سیکنڈ میں ختم ہوگیا مگر میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ میرا ہم سفر خبطی نہیں معلوم ہوتا ، نشے میں بھی نہیں ہے تو پھر اس بے تکی بات کا کیا مطلب ہے اور وہ بھی ایک ایسے آدمی سے جسے وہ جانتا تک نہیں۔ میں اسے کوئی سخت سا جواب دینے والا تھا جو گالی نہ ہوتا مگر جس کا اثر گالی جیسا ہوتا ،ٹھیک اسی وقت میرے اندر کے جرنلسٹ نے کہا :
”ٹھہر و،ٹھہر و۔ کیا کر رہے ہو؟ اس آدمی کے پاس کوئی کہانی بھی ہوسکتی ہے کوئی ایسی کہانی جو میرے نیوز پیپر میں شائع ہونے کے بعد ہنگامہ بر پا کردے !“ اس لیے میں نے سر بلایا اور ایک ایسی مسکراہٹ کو ہونٹوں پر پھیلا دیا جو عام طور پر ترس کھانے ، دکھاوے کی ہم دردی کرنے یا بات ٹالتے وقت استعمال ہوتی ہے اور پوچھا ۔
”کہاں کھوئی ہے آپ کی ہنسی ؟“
”معلوم نہیں !“ اس نے جواب دیا۔
”کتنے دن ہوئے اس حادثے کو؟“
بوڑھا کچھ دیر سوچتا رہا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، جہاں اکتوبر سے ظلم وستم کے شکار ہزاروں نے ننگے پیڑچپ چاپ کھڑے تھے۔ اس نے پلٹ کر میری آنکھوں میں دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے بولا
”مجھے Exactly معلوم نہیں لیکن اس کا احساس ا±س دن ہوا جب میں نے ہنسنا چاہا اور مسکرا بھی نہیں سکا۔ !“
یہ پاگل ہے۔ یقینی طور پر پاگل ہے۔ نارمل آدمی اس طرح کی باتیں نہیں کرتے۔ مجھے اپنی سیٹ بدل دینی چاہیے۔ ذہنی مریضوں کا کیا بھروسہ نجانے کب کیا کر بیٹھیں۔ میں اٹھنے ہی والا تھا کہ اس کی آواز نے روک لیا۔
”کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں ؟“
آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟ میں نے پوچھا
”میرا خیال ہے میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں کیونکہ ایک پاگل ہی اپنی کھوئی ہوئی ہنسی کو پارکوں ، ہوٹلوں اور ٹرینوں میں ڈھونڈ سکتا ہے، آپ ہی بتائیے ہنسی کوئی انگوٹھی تو نہیں ہے جو انگلی سے پھسل کر کہیں گر جائے !”
میں پریشان ہو گیا۔ کون ہے یہ شخص ۔کوئی آدمی ایک ہی وقت میں سمجھ داری اور نا سمجھی کی باتیں کیسے کر سکتا ہے ،لیکن مجھے اس سے ہم دردی بھی ہو رہی تھی شاید اس لیے کہ وہ ایشیائی تھا اور میرا ہم رنگ تھا۔ پنجاب کے گیہوں جیسا رنگ جس میں سرخی ، سفیدی اور زردی کا خوبصورت امتزاج ہوتا ہے ، ہندوستان اور پاکستان کے سوا کہیں اور دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی باتوں میں ، اس کی شخصیت میں ، اس کی دھندلی آنکھوں میں کوئی ایسی چیز ضرور تھی جو کہہ رہی تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔
”کبھی کبھی تو مجھے لگتاہے کہ یہ حادثہ اچانک نہیں ہوا “ اس نے میری طرف جھک کر کہا ”اس کے آثار بہت پہلے سے دکھائی دے رہے تھے مگر میں دیکھ نہیں پایا!“
”آپ کس حادثے کے آثار نہیں دیکھ سکے ؟“ میں نے پوچھا
دو کچھ الجھ کر بولا
”ارے آپ ابھی تک نہیں سمجھے ۔۔۔اگر میں چوکنا رہتا تو میری ہنسی کبھی گم نہ ہوتی ۔۔۔کبھی نہیں !“
اس اجنبی کی باتیں بھلے ہی بے سر پیر کی ہوں مگر دلچسپ تھیں۔ میں نے اپنا فون سائیلنٹ پرڈالا اور پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”جب تک تفصیل معلوم نہ ہو، بات سمجھ میں نہیں آئے گی ! “میں نے ا±کسانے والے انداز سے کہا
”تفصیل ،تفصیل ۔۔۔“اس نے دہرایا ”بے شک تفصیل تو معلوم ہونی چاہیے مگر سب کچھ جان لینے کے بعد کیا آپ میری ہلپ کر یں گے؟“
”ضرور۔ !“میں نے زور سے سر ہلایا۔
”مجھے بھی ایسا ہی لگا تھا۔ آپ کو دیکھتے ہی احساس ہوا تھا کہ آپ ایک ایسے آدمی کی مدد ضرور کر یں گے جو اکیلا رہ گیا ہے !“
وہ اور کچھ کہنے والا تھا مگر آنے والے سٹیشن کا اعلان ہونے لگا۔ وہ چپ ہو گیا اور ان لوگوں کو دیکھنے لگا جو جلدی سے اتر جانے کے لیے دروازے کے پاس جا کر کھڑے ہور ہے تھے۔ جب ٹرین دوبارہ چلنے لگی تو میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ باہر دیکھ رہا تھا اوراس طرح لاتعلق لگ رہا تھا جیسے اس کو میری موجودگی کا احساس تک نہ ہو۔ شاید اس کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے مجھ سے باتیں کرتا رہا ہے۔
”آپ کچھ بتانے والے تھے۔! ” میں نے کہا تو وہ چونک پڑا۔
”میں نے آپ کو بتا یا تو میری ہنسی کھوگئی ہے !“
”جی وہ تو میں سمجھ گیامگر آپ بتانے والے تھے کہ یہ واقعہ کب اور کیسے ہوا؟“
میری بات سن کر اس نے سر ہلایا، پھر دیر تک اپنے ناخنوں کو دیکھتا رہا جو کسی مہنگے پارلر میں تراشے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اچانک اس نے سر اٹھایا ، دھندلی آنکھوں میں چمک آئی اور وہ اس طرح بولا جیسے کوئی لطیفہ سنارہا ہو۔
”نہیں معلوم مجھے اتنی ہنسی کیوں آتی تھی۔ ہر بات پر ہنس دیا کرتا تھا۔ سویرے اُٹھتا تو آئینے میں اپنی صورت دیکھ دیکھ کر ہنسا کر تا تھا۔ نیند کے اثر سے ادھ کھلی آنکھیں ،بکھرے ہوئے بال ، ٹوٹھ پیسٹ کے جھاگ سے بھرا ہوا منہ، مجھے آئینے میں ایک کارٹون دکھائی دیتا تھا اور میں اتنی زور زور سے ہنستا کہ آنکھوں سے پانی نکل آتا۔ میری ماں دیر تک واش روم میں بند رہنے پر ڈانٹ لگا تیں تو اور زیادہ ہنسی آنے لگتی !”
میں کلاس میں سب کو ہنساتا تھا مگران سے زیادہ خود ہنستاتھا۔ ہوم ورک کے کلاس میں جب ٹیچر چلی جاتی تھی تو کسی کوکام نہیں کرنے دیتا تھا۔ ایک دن مجھے اس جرم میں کلاس کے باہر کھڑا کر دیا گیا مگر میں نے دروازے میں کھڑے ہو کر ایسی شکلیں بنائیں کہ میرے ساتھی ہوم ورک کرنے کے بجائے ، ہنس ہنس کے دوہرے ہو گئے۔ مجھے پرنسپل کے سامنے پیش کیا گیا تو میں نے کہا:
”سر میں کیا کروں ، مجھے ہر وقت، ہر بات پر ہنسی آجاتی ہے۔!“
پرنسپل نے مجھے غصے سے دیکھا تو میں ہنسنے لگا۔ پرنسپل بھی ہنس پڑا اور اس نے بڑے پیار سے کہا :
”ہنسی بڑی پیاری چیز ہے۔ یہ ہر اک کونہیں ملتی ،تم ہنسا بھی کرو مگر اس طرح کہ کسی کا نقصان نہ ہو۔ اب تم اپنے کلاس میں جاسکتے ہو۔! ”
وہ عورت جو آج میری بیوئی ہے کالج میں میرے ساتھ تھی۔ اسے میری ہنسی بہت اچھی لگی تھی، وہ اپنا کلاس چھوڑ کر میرے پاس کینٹین میں آن بیٹھی اور لطیفے سنا کرتی ، اس کا کہنا تھا جو آدمی خود اتنا خوش رہتا ہو وہ دوسروں کو کتنا خوش رکھے گا ، اس لیے اس نے مجھ سے شادی کر لی۔ ہمارا گھر قہقہوں سے گونجتا رہتا تھا مگربیوی کے سر میں درد رہنے لگا جو آہستہ آہستہ Dementia میں بدل گیا۔ اس کی بیماری اتنی بڑھ گئی ہے کہ میں کوئی چٹکلا سناتا ہوں تو وہ حیرت سے دیکھتی ہے اور اپنے کتے کو یاد کر کے رونے لگتی ہے جو بچپن میں اس کی گود سے کود کر بھاگا تھا اور کسی کا رسے کچل کر مر گیا تھا …
اور میرا ایک بیٹا بھی ہے، پہلے وہ نارمل لڑکوں جیسا تھا۔ ہنستا تھا ،گا تا تھا، فلرٹ کرتا تھا مگر شادی کے بعد بالکل بدل گیا۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا اُسے۔ وہ ہر وقت کچھ سوچتا رہتا ہے اور انگلیوں پرحساب لگاتا رہتا ہے ۔ وہ Consultant Finance ہے۔ میرا خیال ہے وہ اپنی بیوی کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہے، اس کی
بیوی ایک بڑے گھر کی بیٹی ہے ، اس لیے اسے ہمارے گھر کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی ۔
”کتنا چھوٹا سا گھر ہے ، کوئی پانچ بیڈروم میں کیسے گزر کر سکتا ہے ۔ تین ہی گاڑیاں ہیں۔ بابا کو بس سے سکول بھیجنا پڑتا ہے ، یہ کوئی لائف ہے ۔ I Hate It“
دہ ہر چیز سے نفرت کرتی ہے۔ شاید خود سے بھی ۔ وہ کبھی نہیں ہنستی بلکہ مسکراتی بھی نہیں۔ اس کے ماتھے پر لکیریں اس طرح جم گئی ہیں کہ ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے ۔
ایک دن میں نے اپنے چھ سال کے پوتے کو ہاتھی اور چیوٹی کی وہ کہانی سنائی جسے سن کر میں بچوں کو ہنسایاکرتاتھا۔ ایک بار کیا ہوا کہ ایک ہاتھی نے ایک چیونٹی کو کچل و یا بس پھر کیا تھا چیونٹیوں کو غصہ آ گیا اور انھوں نے ہاتھی پرحملہ کر دیا اور اسے اتنا کا ٹاکہ وہ جنگل چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ زور سے ہنسے گا اور تالیاں بجائے گا لیکن اس نے مجھے غور سے دیکھا اور بہت سنجیدگی سے بولا
”د ادا، بڑی سے بڑی چیونٹی ایک سینٹی میٹر سے زیادہ لمبی نہیں ہوتی اور اس کے Fangs ایک ملی میٹر سے زیادہ بڑے نہیں ہوتے جبکہ ہاتھی کی کھال ڈھائی سے تین سینٹی میٹر موٹی ہوتی ہے، چیونٹی تو ہاتھی کو کاٹ ہی نہیں سکتی !“۔
میں اس بچے کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ جب میری دادی نے یہ کہانی سنائی تھی تو میں ہنستے ہنستے چار پائی سے نیچے گر گیا تھا۔ شاید وہ کوئی اور زمانہ تھا ،شاید اس زمانے میں ہاتھی کی کھال اتنی موٹی نہیں ہوتی تھی یا شاید اس زمانے کے بچے اتنے ہو شیار نہیں ہوتے تھے۔
میرے گھر میں پانچ افراد ہیں جن میں سے چار کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا۔ سب کی اپنی اپنی دنیا ہے۔ بیوی اپنی یادوں کے گھنے جنگل میں بھٹکتی رہتی ہے، بیٹا لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ڈالر، پاو¿نڈ اور یورو کا حساب کرتا رہتا ہے۔ بہو ہر چیز میں عیب نکالتی رہتی ہے اور وہ بچہ جو شاید بچہ نہیں ہے اپنے فون میں نہ جانے کیا کیا دیکھتا رہتا ہے اور میں سوچتا رہتا ہوں یہ کون لوگ ہیں جن کے پاس ایک مسکراہٹ کا ٹائم بھی نہیں ہے۔ چار دن پہلے ایک UP STAND کامیڈی شو دیکھنے گیاتھا مگر ہال میں لطیفوں پر ہنسنے والے اور تالیاں بجانے والے نہیں تھے، وہاں پولیس بھری ہوئی تھی ،کسی نے کامیڈین کو گولی مار دی تھی ۔مجھے یقین ہے گولی مارنے والا کوئی ایسا آدمی ہوگا جسے ہنسی پسند نہیں ہوگی۔ آپ نے بھی دیکھاہوگا جب کسی ریستوراں میں کسی میز سے کوئی قہقہہ گونجتا ہے تو باقی لوگ کتنی حیرت سے دیکھتے ہیں، جیسے کوئی ان ہونی ہوگئی ہو۔ پرسوں تو حد ہوگئی جب آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر ہنسنے کی کوشش کی تو چہرہ ایسا بن گیا جیسے وہ کسی اور کا ہو ، کسی ایسے آدمی کا جسے میں نہیں جانتا ۔ میں نے آئینے کے اس مذاق پر ہنسنے کی کوشش کی مگر گلے سے وہ آواز ہی نہیںنکلی جو صرف انسانوں کے پاس ہوتی ہے ۔ ہنسی کی آواز۔ ۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ میری ہنسی کھو چکی ہے ۔۔۔
اس نے آہستہ ہوتی ہوئی ٹرین سے باہر دیکھا اور چونک پڑا۔
”ارے لندن برج آگیا!“ وہ اٹھا، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور بولا” تھینک یو!“ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا ، میں نے شیشے میں سے جھانک کردیکھا مگر وہ بھیڑ میں غائب ہوچکا تھا ۔ میں دیر تک اس بے ترتیب ہجوم کو دیکھتا رہا، جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو دفتروں سے آرہے تھے اور جن کو اپنے گھر جانے کی جلدی تھی ۔ ہر طرف لوگ جمع ہو رہے تھے اور بکھر رہے تھے ۔ بالکل اسی طرح جیسے میں نے کچھ دن پہلے ایک پارک میں دیکھا تھا، پت جھڑ میں گرے ہوئے پتوں کو تیز ہواجمع کرنے اور بکھیرنے کا کھیل کھیل رہی تھی۔
میں نے اپنی برابر والی خالی سیٹ کو دیکھا جہاں وہ اجنبی بیٹھا ہوا تھا اور سر ہلا کر کہا :
” بے چارہ۔۔۔“
اچانک میرے اندر سے کسی نے پوچھا
”تمہیں اُس اجنبی سے اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے ، وہ اکیلا تو نہیں ، لاکھوں ایسے ہیں جن کی ہنسی زبردستی چھین لی گئی ہے ۔ فلسطین کے کھنڈروں میں ہزاروں لاشیں بے گوروکفن ہیں، یوکرین میں سردی سے کانپتے ہوئے بچے بھوک میں اپنی زخمی انگلیاں چوس رہے ہیں، یمن کی سرحدوں پہ کھلے آسمان کے نیچے تپتی ہوئی ریت پر بیٹھے ، ہزاروں پناہ گزین ۔۔۔برما کے رونگیا ، افغانستان کی عورتیں اور نائجیریا کے قحط زدہ بھوکے کبھی نہیں ہنستے۔ ہنس ہی نہیں سکتے ۔ تم اپنی غلط فہمی کو دور کردو میرے اجنبی دوست، تمہاری ہنسی کھوئی نہیں ہے ، اُسے چوری کر لیا گیا ہے !“۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے