حیرت بھر کر آنکھوں میں رہ جاتے ہیں
سپنے خالی جیبوں میں رہ جاتے ہیں

تعبیروں کے روز جنازے اٹھتے ہیں
آنکھوں والے خوابوں میں رہ جاتے ہیں

ڈھل جاتے ہیں پھر اک بار کٹھالی میں
جذبے کھوٹے سکّوں میں رہ جاتے ہیں

بازاروں میں اور ہی قصّے چلتے ہیں
شاعر غزلوں نظموں میں رہ جاتے ہیں

موڑ، کہانی اور کوئی مڑ جاتی ہے
ہم اپنے اندازوں میں رہ جاتے ہیں

منزل سے کوئی اور وصال مناتا ہے
ہم راہوں کی بانہوں میں رہ جاتے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے