ہمارے ہاں عدالت میں جج آپس میں لڑ رہے ہیں، پارلیمنٹ کے اندر سیاسی پارٹیاں آپس میں دست و گریباں ہیں، فوج کے اندر ایک بڑی بغاوت ابھی ابھی کچل دی گئی تھی۔ پھر عدالت اور الیکشن کمیشن کی لڑائی ہے ، عدالت اور پارلیمنٹ کی لڑائی ہے اور عدالت اور فوج کی لڑائی ہے ، سرخیاں، شہ سرخیاں ، مرگ وزیست کا یُدھ لگا ہوا ہے ۔ ریڈیو ٹی وی اخبارات سوشل میڈیا ایک طرف ہیں یا دوسری طرف ایک ہڑا دھڑی ہے ایک سراسیمگی ہے ۔ بزن بزن ہے ۔ آج ایک کا پلڑا بھاری ہے توکل دوسرے کا۔
حیران کن صورت حال ہے ۔جب ڈھونڈو کہ جھگڑا کس بات پہ ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا ۔ عوام کی بھلائی تو ایجنڈے پہ ہے ہی نہیں ۔ جاگیریں ضبط کر کے فیوڈل ازم کا خاتمہ بھی ایجنڈے پہ نہیں ہے ۔ملّا کی فرقہ پرستی کو روک لگانے پہ کسی کا بھی ارادہ نہیں ۔غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کی بات بھی نہیں ہے ۔فریقین کو محکوم قوموں کی نجات پہ بھی نہ سوچنے پر کوئی اختلاف نہیں ، عورتوں کو انسانی وقار بخشنے کی بات بھی نہیںہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی سے انکار کا معاملہ بھی نہیں ہے ۔۔ بھئی بڑے بڑے معاملات تو یہی ہیں ۔ اگر ان پہ لڑائی نہیں ہے تو پھر کس بات پہ لڑائی ہے ۔ اگر ان عوامی بہبود کی باتوں کی نفی کرتے رہنے پہ ان کا آپسی جھگڑا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کا جھگڑا نہیں ہے ۔
جج 65سال میں ریٹائر ہو یا 70سال میں، جج کی مدتِ ملازمت 5سال ہو یا دس سال، چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی پہ ہو یا کوئی کمیٹی کرے ، عدالت میں ججوں کی تعداد 17ہو یا 27،عوام الناس پہ اس کا اثر کیا پڑے گا ۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ بورژوا حکومت عدلیہ کو غلام بنا رہی ہے اور نہ بورژوا اپوزیشن عدلیہ کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے ۔ سب کا اپنا اپنا مفاد ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا بھی ، شور مچانے والے وکلا کا بھی ۔ یہ سب بار زاورعدلیہ کی سیاست کا حصہ ہیں۔ جب بھی اُن کی استحصالی زبان سے آمریت ، جمہوریت ، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی ، پارلیمان کا وقار جیسی باتیں سنائی دیں، سمجھو یہ سب نعرے بازی ہے۔
اس جھگڑے میں بار بار آئین کی بات کی جاتی ہے ۔ یہ آئین کیا ہے؟۔ آئین ریاست کو چلانے کے ڈاکیومنٹ کو کہتے ہیں ۔ ریاست کی کئی قسمیں ہیں دنیا میں ۔ مثلاً بادشاہت ، مارشل لا، تھیوکریسی ، انارکسزم ، سوشلزم ، یا پھر بورژوا جمہوریت ۔ ان میں سے جو بھی قسم ہوگی اس کے چلانے کے امور پہ اس ریاست کا ایک تحریری ڈاکومنٹ ہوگا۔ اُس کو آئین کہتے ہیں۔
خود ریاست معاشی طور پر حاوی طبقے کی سیاسی تنظیم ہے ۔ یہ ایک طاقت ہے جس میں پولیس ، فوج، عدالتیں، جیلیں اور میڈیا سب آتے ہیں۔ یہ سب برسرِ اقتدار طبقے کے ہاتھ کے ہتھیار ہیں۔آئین ایک بنیادی ڈاکیومنٹ ہوتا ہے جو ایک حکومت کے اصولوں، ڈھانچوں ، اور پاورز کی نقشہ کشی کرتا ہو۔ یہ ایک سپریم قانون ہوتا ہے ۔ اس میں فرد کی آزادیوں اور حفاظتوں کی گارنٹی ہوتی ہے ،حکومتی اتھارٹی کی عدلیہ ، مقننہ، اور ایگزیکٹو کے بیچ تقسیم کا تذکرہ ہوتا ہے ، ان اداروں کے بیچ اختیارات میں چیک اور بیلنس کی بات ہوتی ہے ۔ اگر وہ ریاست ایک بورژوا جمہوری ریاست ہو تو اس میں جمہوریت کی بات ہوگی ،وفاقیت کی گارنٹی ہوگی، اور چرچ اور ریاست کی علیحدگی کی دفعات ہوں گی۔
پاکستان کا آئین یعنی ملک چلانے کا یہ معاہدہ 55برس قبل قومی اسمبلی اور سینٹ نے لکھا تھا اور منظور کیا تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ فرد کی آزادی کیا ہے اور کہاں تک ہے ۔ الیکشن کب اور کیسے ہوں گے ، صوبوں کے کیا حقوق و اختیارات ہوں گے ۔ عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ ، پریس ، انتظامیہ ( سول اور ملٹری بیوروکریسی ) اور عدلیہ کے اختیارات کیا ہوں گے اور ریاست کے ان چاروں اداروں کے باہمی تعلقات اور دائرہ کار کیا ہوں گے۔
1973کے اس آئین میں بعد میں بے شمار ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ مگر بنیادی بات یہ ہے کہ 1973کی اسمبلی میں بھی جاگیردار اور سردار اکثریت میں تھے اور 2024کی اسمبلی بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی نمائندہ ہے ۔
اس کا کیا مطلب ؟ ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں ؟ ۔
سارا میڈیا ، سارے دانشور، اور سارے لوگ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عوام کے ووٹوں سے وجود میں آتی ہے لہذا یہ عوام کی نمائندہ ہے ۔مگر ہم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں بلکہ یہ جاگیرداروں، بیوروکریٹوں ، اور ٹھیکیداروں کی نمائندہ ہے جو کہ بہ لحاظِ طبقہ عوام کے دشمن ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ پارلیمنٹ عوام کی دشمن ہے ۔ اس طرح ایک فیوڈل بالادستی والی پارلیمنٹ جو آئین بنائے گی تو وہ بھی جاگیرداریت کی حفاظت ہی کرے گا۔اصل میں تو آئین کو محنت کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ اسے عورتوں کے حقوق کا محافظ ہونا چاہیے۔ محکوم قوموں کے حقِ خود اختیاری کی ضمانت دینی چاہیے۔
مگر موجودہ لڑائی تو عوامی مسائل پہ ہو ہی نہیں رہی ۔ چونکہ ملک میں بنیادی سماجی تضادات یہ کوئی تحریک موجود نہیں ہے اس لیے حکمران طبقات کے مختلف دھڑے آپس میں سکور برابر کرنے کے لیے تلواریں سونت چکے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں حالیہ آئینی بحران حکمران طبقات کا داخلی بحران ہے ۔ عوام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔عوام مہنگائی ، بے روزگاری کے ہاتھوں مشکل میں ہیں۔
پارلیمنٹ کی بات تو ہم اوپر کہہ چکے ہیں ۔ اب ذرا عدالت کی بھی سنیے!
جو لوگ عدالت عدالت کہتے ہیں تو انہیں یاد دلایا جائے کہ وہ عدالت بھی کیا عدالت ہے جس نے ایک وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا یا تھا اور پھر نصف صدی بعد اعلان کیا کہ وہ فیصلہ غلط تھا ۔ عوام کو تو چھوڑیں گیلانی نامی وزیراعظم کو برطرف کر دیا تھا ۔ عمران کو ”صادق و امین“ ٹھہرایا تھا۔ نواز شریف کو تاحیات سیاست میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دیا تھا اور پھر اپنی مرضی کے عمران کو بادشاہ بنا کر نواز شریف کو عدالتی غلطی قرار دے کر دوبارہ بحال کردیا۔
اس لڑائی کا انجام ایسا ہوگا تو نہیں مگر عوام خوش ہوں گے کہ اُن کے دشمن طبقات آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہوجائیں۔ عوام کو معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی چودھراہٹ کے لیے ایک حد تک لڑیں گے ، وہاں سے آگے نہیں جائیں گے ۔
تو عوام کیا کرے؟ ۔ عوام دو کام کرے ۔
ایک تو اُن کی داخلی لڑائی کا حصہ نہ بنے اس لیے کہ اقتدار والوں کی احمقیاں بھی بہت بڑی ہوتی ہیں۔ کیا خبر کہ وہ مارشل لا لگانے کو ایسا کر رہے ہوں۔ اور مارشل لا تو تباہی ہے ۔ جمہوریت کا ایک ایک اقدام عوام نے بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اسے کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے ۔ چنانچہ ہمیں مارشل لا کے ہر امکان کو مسترد کرنے کی بات ابھی سے کرتے رہنا ہے۔
دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ اِن حکمران طبقات کے برخلاف عوام اپنی تحریک بنائیں اور انہی حکمرانوںکے خلاف ، اور انقلاب کے لیے تحریک کا آغاز کریں۔
چلو، آج ایسا ممکن نہیں ۔ تو کیا ابھی سے محنت کرتے ہوئے دو چار سال بعد بھی ہم ایسا ممکن نہیں بنائیں گے ؟ ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے