9 فروری1947 ……..6نومبر2014)
جس شہر کی گلیوںمیں کچھ آشنا چہرے گھومتے پھرتے نہ ہوں تو وہ شہر اجنبیت کا صحرا ہوجاتا ہے ۔ انسان، اور وہ بھی آشنا انسان ہی شہر کو رہائش کے قابل بناتے ہیں۔ کمرہ خواہ ساکن ہو یا چلنے والا، کنکریٹ کا ہو یا لوہا اور پلاسٹک کا، کال بیل رکھتا ہو یا ہارن…….. ایک دوسرے انسان کے وجود کے بغیر صرف اور صرف قبر ہوتا ہے۔ وہ قبر خواہ ایدھی مردہ خانے کی یخ بستہ سردی والی ہو یا سبی و ڈھاڈر کے سورج کے ساتھ ایک نیزے کے فاصلے والی ، قبرتوقبر ہوتی ہے۔
پروفیسر عزیز مینگل کوئٹہ کو قبرستان کی بجائے شہر کی شکل دینے والے لوگوں میں سے ایک تھا۔ باوقار گھومتا تھا، ترتیب کے ساتھ، توازن کے ساتھ، وضعداری کے ساتھ۔ شہر صاف تھا تو وہ بھی بے پرواہ گھومتا تھا،مگر جب ٹریفک و شور کی کثافت بڑھتی گئی تو عزیز جان بھی ناک اور منہ پہ رومال، اور کانوں آنکھوں میں نظر نہ آنے والے فلٹرفٹ کےے گھومتا تھا ۔ آلودگی اُسے زہرلگتی تھی، آلودگی خواہ فضا کی ہو یا نیت وارادوں کی۔ عزیز مینگل صاف مطلع کی صاف آکسیجن کا متلاشی رہتا ہے۔ بغیر تالا رکھے ایک ویسپا سکوٹر جہاں چاہا موڑ دیا، جس دوست کے اڈے پہ چاہا پارک کردیا۔ شہر کی بڑھتی ہوئی مسافتوں نے تقاضا کیا تو ایک ننھی سی گاڑی لے لی۔ اور عمر نے مطالبہ کیا تو بیٹے جمیل کو ڈرائیونگ سیٹ پہ بٹھا کر خود ساتھ بیٹھ لےے۔
شہر کوئٹہ کوgrace، شائستگی اور عطا کرنے والے سینکڑوں لوگوں میں عزیز جان بھی شامل تھا۔وہ جسمانی طور پر ، طبیعت میں، اور نیت میں ایک neat انسان تھا۔ وہ رواداری کا مجسم نمونہ تھا، برداشت ، خوش مزاجی، استدلال ، متانت و سنجیدگی کی مثال تھا وہ …….. ملنسار عزیز جان ۔ وہ نہ پتلا تھا نہ موٹا، نہ بہت طویل نہ پستہ قد۔ گوری رنگت کا عزیز اپنی چمکتی آنکھوں اور پرکشش چہرہ کے ساتھ تبسم میں لپٹی نرم گفتار ی لےے ایک خوشگوار تاثر دیتا ملتا ۔ انجماد کو توڑتا ہوا عزیز، سکوت کو کفن کرتا عزیز، محفل دیوان مجلس کا عزیز، عزیز مینگل۔
عزیز مینگل کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ تعصب سے پاک تھا، نفرت سے دور تھا۔ وہ اوہام پرستی کے سخت خلاف تھا۔ تعویذ، گنڈا، دم ، اورچلّہ کے بہت خلاف تھا۔ وہ کڑھتا رہتا تھا کہ ساری ریاست ( اور اُس کے ادارے یعنی عدالیہ، انتظامیہ پارلیمنٹ ، میڈیا) ہمہ وقت ان ہتھکنڈوںمیں لگی ہے کہ کس کس طرح عام لوگوں کو جاہل رکھا جائے۔صرف ریاست نہیں بلکہ ہماری ریاست کے سارے بین الاقوامی اتحادی مثلاً امریکہ، یورپ ، آئی ایم ایف، سعودی عرب اور ایران اسی مقصد کے لےے پانی کی طرح پیسہ بہار ہے ہےں۔…….. اور یہ شجر ایک دو برس سے نہیں بلکہ سو سال سے پانی اور کھاد پارہا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہر سُو جہالت کا دور دورہ ہے ۔ عام آدمی ہو یا سائنس کاپی ایچ ڈی ہو، ذرا سا کھودےے تو اندر سے تواہمات کی بھری اوجھری ملے گا۔ عام سپاہی سے لے کر جرنیل تک ، عام وکیل سے لے کر چیف جسٹس تک اور رپورٹر سے لے کر ایڈیٹر تک کسی نہ کسی پیر کے دےے ہوئے منتر سے خود کو بیماریوں، اور آفات سے بچائے رکھتا ہے۔ اس ملک کا ہر شخص کالی بلی کے راہ کاٹنے سے ڈرتا ہے، بلاﺅں کو دور بھگانے دنبے کاٹتا ہے اور ایک پیر پکڑتا (مرشد بناتا) ہے۔ہماری سرکاری و نیم سرکاری اکیڈمیوں میں لباس و خوراک و رہائش کو زورزبردستی سے مذہبی بنا نے پر کتابوں پہ کتابیں چھپتی رہی ہیں۔ سائنس کانفرنسوں میںجنت کے حوروں کے ہیموگلوبن لیول کا حساب لگایا جاتا رہا ہے۔یاخرگوشوں پہ تجربات کرکے کلونجی اور زیتون کو امرت دھارا بننے پر مقالے در مقالے پڑھے جارہے ہےں۔ اور چار کالی بکریوں کا صدقہ دے کر ایوانِ صدر میں داخل ہواجا رہا ہے۔عزیز کتنے بڑے سیلابی دریا کے خلاف سینہ سپر رہا تھا۔عزیز مینگل روشن فکر شخص تھا۔ وہ ملاّ، پیر اور سردار کی کرامت وغیرہ کو نہیں مانتا تھا۔ اسباب و علل کے نظرےے پہ چلتے ہوئے وہ حادثہ ، وقوعہ اور کرامت وغیرہ کو مسترد کرتے ہوئے ہر واقعے کا فطری قوانین کے پس منظر میں مطالعہ کرتا تھا۔
اس دانشور نے اپنی مادری قومی زبان براہوئی میں ادب کے تقریباً ہر میدان میں گھڑسواری کی ۔ براہوئی زبان میں اُس کا بہت بڑا کام تھا۔ براہوئی زبان پہ بہت دوستوں نے کام کیا ۔ جن میں عزیز مینگل اور گل بنگلزئی سرِ فہرست ہیں۔ اُس نے خیام کی رباعیات کو براہوئی میں منظوم کر ڈالا،ہمنگو ے کے ناول
The old man and the sea کو براہوئی میں ترجمہ کیا۔ براہوئی کے سارے اصناف میں شاعری کی حتی کہ ہائیکو اور ماہےے میں بھی۔اس نے براہوئی میں افسانے لکھے، اُس کے قدیم الفاظ کو محفوظ بنایا۔
عزیز مینگل بے شمار کتابوں کا مصنف تھا۔ اس کی شاعری کی دو درجن کتابیں ہیں:شیشپہ، چیزہ، تلوسہ، شیروشکر، شیپانک، شوال، شمشلاک ، برفیچ، جمجلائی، شلی، تلمل، چفنکہ، زبکہ، تیرونک، بیلی ، شوشکو۔
کتابیں بچوں کے لےے: (1) ماما مرجان۔(2) جلو نا جن ۔(3) دغو جان( بچوں کے لےے نظمیں) شیر و شکر ( تحقیق) ذکری مذہب ( ترجمہ) ۔ مگر وہ لسانی موضوعات کا سپیشلسٹ تھا۔بلوچستان بھر میں کوئی اور ایسا شخص نہ ہوگا جسے دو سے زیادہ زبانوں کی لسانیاتی ساخت و پرداخت کا علم ہو۔ اس شخص نے ” نُہ زبانی“ لغت لکھا تھا (اردو براہوئی بلوچی پشتو فارسی، عربی، پنجابی، سندھی ، سرائیکی )جسے اردو سائنس بورڈ نے چھاپا۔ اُس شعبے میںاُس کی محنت لاثانی ہے۔پھر اُس نے براہوئی کے ہندی اور سنسکرت سے رشتے پر ایک تحقیقی کتاب لکھی۔
وہ یہ کتابیں زیادہ تر خود اپنی ہی جیب سے شائع کرتا تھا۔ مارکٹنگ کیا ہوگی، خود ہی بانٹتا تھا۔ مفت بانٹتا تھا۔
اُس شخص کی ایک اور قابلیت ٹی وی کمپیئر کی تھی۔ وہ براہوئی ڈرامہ لکھتا تھا، اداکاری کرتا تھا اور پروگرام کی میزبانی بھی کرتا تھا۔
عزیز مینگل قبائلیت کے سخت خلاف تھا،سرداریت اور اُس کی اتھارٹی کے خلاف تھا۔ وہ قبائلی نظام کے جامد رسوم و رواج کے خلاف تھا۔وہ بلوچ عوام کو سائنس اور ٹکنالوجی میں بہت آگے دیکھنا چاہتا تھا ۔ ادب، موسیقی اور فنون ِ لطیفہ سے آشنا رکھنا چاہتاتھا۔ عزیز طبقاتی سماج کا خاتمہ چاہتا تھا۔ امن انصاف اور برابری کے لےے کام کرتا تھا۔
عزیز جان ہمہ وقت نئے کام کے لےے جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔سکوت و انجماد کا دشمن عزیزمہم جوئی کے بھی سخت خلاف تھا۔ وہ معروضی صورتحال کی مطابقت اور تقاضوں کے مطابق چلتے رہنے کے سائنسی فارمولے پر یقین رکھتا تھا۔
وہ بہت مرنجان مرنج شخض تھا۔ خوبصورت بلوچی، پشتو اور اردو بولتا تھا۔بولنے کا اُس کا انداز بہت دھیما، رواں، اور جاری ساری والا تھا۔بظاہر کم گو تھا جسے بلوچی میں ” گراں توار“ کہتے ہیں۔ مگر جب ایک بار بولنے لگتا تو بولتا ہی چلا جاتا۔ ڈاکٹر خدائیداد کی طرح۔عزیز جان محفل مجلس و دیوان کا آدمی تھا۔ استادوں والا انداز ۔ علمی برتری نہ جتانے والا۔
وہ پیشے کے اعتبار سے بھی استاد تھا۔ درس و تدریس سے وابستہ تھا۔ ماہر تعلیم تھا۔ کمرشل کالج کوئٹہ میں بطور پرنسپل ریٹائرہوگیا۔مگر اسی عزیز نے لوہاروں کے ہاں بھی محنت کی تھی، موٹر گیراجوں میں بھی مشقت کی تھی۔ وہ کلرک بھی رہا تھا۔
اتنا خوش اخلاق، اتنا خوش گفتار کہ کسی کا نام روکھے سوکھے انداز میں نہیں لیتا تھا۔ وہ ہر ایک کے نام کے آخر میں لفظ” جان“ کا اضافہ کرتا تھا۔ ہمیں توشیریں لہجہ اپنانے کے بھرپور مواقع حالات نے دے رکھے۔ یہ عادت ماما عبداللہ جان نے پہلے ہی لگادی تھی۔عزیز جان اِس مکتب کی مدرسی میں نیا اضافہ تھا۔
پروفیسر سکندر کاسی نے بتایا کہ عزیز جان بہت اچھا جوڈو کراٹے کھیلتا تھا۔ اسی نے یہ بھی بتایا کہ عزیز مینگل سنوکر بھی بہت اچھا کھیلتا تھا۔
عزیز مینگل سے بہت برسوں سے نیاز مندی رہی۔ مگر ابھی ڈیڑھ دو سال سے وہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے بہت قریب آگیا تھا۔ اور ہوتے ہوتے ایک لحاظ سے اُس کے رہنماﺅں میں سے ایک ہوگیا تھا۔ اُسے اِس اکیڈمی کے احباب میں کافی اچھائیاں نظر آئیں۔ وہ اُس کی ہر میٹنگ میں لازمی طور پر شامل رہتا۔
سنگت وہ رسالہ کے مواد میں بہت دلچسپی لیتا۔اُس کے اداریوں کی بالخصوص تعریف کرتا۔ سنگت بک شاپ کو کامیاب بنانے کے لےے ہر ماہ تین چار ہزار روپے کی کتابیں خریدتاتھا۔ اُسے اپنے پسند کی اچھی سرگرمی مل گئی تھی۔ وہ سنگت پوہ زانت کی ادبی محفلوں میں نہ صرف موجود ہوتا بلکہ تفصیل سے دلچسپی سے حصہ لیتا۔ ایک نیا حلقہِ احباب دریافت کرنے پر وہ بہت خوش تھا۔ زندگی کے آخر ی برسوں میں اُسے اپنی آئیڈیل جگہ مل چکی تھی۔ وہ شاہ لطیف کے اس فقرے پر پورا اتر رہا تھا:
تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ ریت نے جسم کو ڈھانپ لیا تھا ، جو کچھ معمولی سی زندگی رہ گئی وہ محبوب کو دیکھنے کے لےے ہے۔
اور یہاں ہمارے کیمپ میں بھی اُسے پا کر بے انتہا خوشی ہوئی تھی۔ایک سینئر جہاں دیدہ،پرکھا آزمایا ہوا، کمٹڈ ……..ا یسا ساتھی خدا ہر ایک کو دے!
عزیز جان رسالہ سنگت کے ایڈیٹوریل بورڈ کا ممبر بن گیا ۔ اور بورڈ کی میٹنگوں کی سمجھو صدارت اور راہنمائی اُسی نے سنبھال رکھی تھی۔
ہم گذشتہ سترہ سال سے ” سنگت “ نکال رہے ہےں، اُس سے قبل دس برس ”نوکیں دور“ نکالتے رہے۔ مگرانکساری میں ہم نے کبھی اِن رسالوں کے سالنامے شائع نہیں کےے۔ اس بار عزیز مینگل نے بہت اصرار کے ساتھ سالنامہ شائع کرنے پہ ہمیں قائل کردیا۔اور خوداس سالنامے کی تیاری کمیٹی کا چیئرمین بن گیا۔ اس نے اچھی خاصی تگ و دو شروع کی۔ ایک دو میٹنگوں کی صدارت کی۔
ایک ایسی ہی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ اگلا پورا سال اُسی کی خوبصورت پینٹنگز کو رسالے کا سرورق بنایا جاتا رہے گا۔ چنانچہ اُس نے اپنے بیٹے جمیل جان کے ذریعے اپنی بے شمار پینٹنگز کی تصاویر بھجوادیں۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ وہ کمر درد کی کی شکایت کرنے لگا۔ ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد۔ کرسی پر بیٹھنا بھی تکلیف دِہ ہوگیا تھا۔ اُس کا وزن تیزی سے گرنے لگا تھا۔ وہ کراچی گیا علاج کے لےے ۔ وہاں ہم فون پہ اس کی خیریت معلوم کرتے رہے۔ اس نے بتایا ( سچ نہ بتائی) کہ ریڑھ کے مہروں میں سے ایک ٹوٹا ہوا ہے ۔ وہاں ڈاکٹروں نے ریڈیوتھریپی کی اور درد مارنے کی بھاری دوائیاں دیں۔
عزیز جان واپس آیا۔ مگر اُس کی صحت بہت بگڑتی گئی۔
ہم نے اُس سے درخواست کی کہ اب وہ ” بلوچستان سنڈے پارٹی“ کی اتوار والی نشستوں میں نہ آیا کرے۔اُس نے یہ بات مان لی ۔ مگر وہ دوسری محفلوں میں مکمل طور پر نہ جاکر بھی، سنگت اکیڈمی یا سنگت رسالہ کی ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگوں میں زبردستی آتا رہا۔ اُس کا بیٹا بڑی عذاب سے اُسے موٹر سے اتارتا۔ میٹنگ کے دوران وہ کرسی پہ اکڑ کر بیٹھتا تھا۔ درد کی شدت سے بات تک نہ نکلتی تھی مگر وہ اپنے نحیف آواز میں بولتا ہی رہتا تھا بولتا ہی رہتا تھا۔
نومبر کی دو تاریخ کو اتوار کو سنڈے پارٹی کے سارے دوست اُس کے گھر گئے عیادت کے لےے۔عزیز مینگل کا گھر، ایک گھر کی بجائے ایک آرٹ گیلری تھا۔مگر، آج ہم غم کی آماجگاہ پہنچ گئے تھے۔ ہنستا ہنساتا عزیز مینگل، آج وہ دلکش و دلفریب عزیز نہ تھا۔ وہ تو ایک پلنگ پہ پڑے سمجھو لاش لگ رہا تھا۔ حرکت نہ کرسکتا تھا۔ بس پھٹی آنکھوں سے ایک ایک کو پہچاننے کی کوشش کرتا، پہچان کر دیر تک ہاتھ پکڑے رہتا اورحال حوال پوچھتا رہا۔اپنی تکلیف گویا بھول چکا تھا۔ اس نے بیٹے سے ہمیں اِس عظیم اور بھرے ہوئے آرٹ گیلری گھمانے کا کہا۔اور کیا پینٹنگز ہیں۔ فرانسیسی سفارتخانے نے ایک ڈھائی لاکھ روپے میںمانگا تھا جو عزیز جان نے نہیں دیا۔ پھر تیس چالیس پینٹنگز اس نے اپنے اشعار پہ بنائے تھے۔ پینٹنگ کو الٹا کرو تو اُس کی براہوئی رباعی لکھی ہے …….. اس کے پورے گھر کے سارے کمروں کی چھتوں پہ ٹائلز لگی ہوئی ہیں۔ اور اُن ٹائیلوں پر گل کاری بھی عزیز کی اپنی ہے۔ اور ہم اُس کے ہاتھوںکا بوسہ لےے واپس لوٹے۔
ٹھیک چار دن بعد 6نومبر کو اُس کے اپنے موبائل سے اُس کے انتقال کا ایس ایم ایس آیا۔ اُس موبائل سے جہاں سے ہر روز وہ ایک اقوال ِ زریں کے ساتھ مجھے گڈ مارننگ کا میسج کیا کرتا تھا۔ چھ سات گھنٹہ قبل میں نے اُسے جلد صحت مندی کی خواہش کا میسج بھیجا تھا۔ جس کا جواب 6نومبر کی صبح یہ آیا” پروفیسر عبدالعزیز مینگل انتقال کرگئے ہیں“۔وہ ٹیکسٹ میں نے سارے احباب کو بھیجا۔جیند خان کا ایس ایم ایس تھا:” بہت رنج کے ساتھ ہم سارے عزیز سنگتوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہمارا عظیم سنگت اور سکالر پروفیسر عزیز مینگل ، ہمیں اداسی اور دکھ میں چھوڑ کراپنی دائمی زندگی کے لےے روانہ ہوا۔ اس کی تدفین سیٹلائٹ ٹاﺅن قبرستان میں گیارہ بجے ہوگی“۔
وہ دوبیٹیاں اور جمیل شہزاد نامی بیٹا اُن کی اولاد ،اور ہمارے بھتیجے بھتیجوں کے بطور چھوڑ گیا۔
عزیز جان کی کئی پیٹنگیں نا مکمل رہ گئیں۔ اُس کی کئی نظمیں ادھوری رہ گئیں۔اُس کی بہت ساری خواہشات، ارادے اور پراجیکٹ نیم مکمل رہ گئے۔ اُسی کے اصرار پر سنگت سالنامہ کی تیاری ہورہی تھی اور وہ اُسے بھی آدھے میں چھوڑ گیا۔
قبرستان میں اُس کا بیٹا جب اشکبار آنکھوں سے مجھ سے بغل گیر ہوا تو کہنے لگا ”بابا آپ لوگوں کو اپنا“،” شہد جیسے میٹھے سنگت “ کہہ کر یاد کرتا تھا۔
ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ سالنامہ کا یہ ایڈیٹوریل میں بھی لکھونگا، طربیہ انداز کا۔ مگر اب حیران ہوں کہ بیس پچیس برس بعد سالنامہ نکالنے کا پراعتماد فیصلہ کرچکنے کے بعد اِس کا طرز کیا رکھوں۔ خوشی اور اطمینان اس لےے کہ ایک غیر یقینی سرزمین کی تما م تر غیر یقینیوں کے باوجود انسانی فلاح کا مشن بغیر بڑی باتیں دعوے کرنے کے ہم احباب ربع صدی تک چلا پائے، ۔ اور ہماری اِس مسرت کے حدوحساب کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو شرفِ مردم کی خاطر ندی کی مخالفت میں پچیس تیس برس تیر پاتے ہیں۔
مگر یہی کٹھن اور جان گسل راہ وفا کے جام بھی تو پلاتی ہے ۔ ایک یارِ وفادار کا بچھڑ جانا طرب و شادمیانی میں بجتے ڈھول پر غلاف چڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
ہم اداریہ اپنے اُس پیارے ساتھی کی arbitury کے بطور لکھنے پہ مجبور ہیں۔ آنکھیں نم ہیں…….. اس لیے بھی کہ ہم سنگت کے صفحے کے ایڈیٹوریل بورڈ پرنقش اُس کا نام کاٹ رہے ہےں۔”گویا اپنی جلد پر سے اُس کا نام کھرچ کر نکال رہے ہوں“۔