جب وجود پر ہست کی دائمی تنہائی کا گھیرا تنگ ہوتا ہے تو پیاسی روحوں کے لیے ایک ہی رستہ روشن ہوتا ہے ۔ عشق کا رستہ ، وجود کی نجات کا رستہ۔ جو وجود کو سوز اور کیف میں غرق رکھتا ہے اور ابدیت کے رازوں تک لے جاتا ہے۔
عشق ہی سفاکیت سے بھرے ، سماجی نا ہمواریوں کی بد رنگیوں اور استحصالی بد کاریوں کے جہان میں زندہ رہنے کا فن سکھاتا ہے۔ فہم اور فہراست اور انکار کی منزلیں آسان کرتا ہے۔ عشق کا ایک صحیفہ بلوچستان میں لکھا گیا ہے ’’ مستیں توکلی‘‘ ۔
یہ صحیفہ ایک ایسی شراب ہے جسے ایک عاشق نے اپنے مُرشد کے بے پایاں درد سے کشید کیا ہے۔ وہ درد جو ایک اَٹل ہجر کی عطا ہے ، وہ ہجر جو ایک ابدی پیاس کو جنم دیتاہے اور وہ پیاس جو تخلیق کی ماخذ ہے۔
ڈاکٹر کی مسافتوں کی خیر! اُس نے اِس تحقیقی کام کے ذریعے کما ل فن سے ہمیں عشق کا ہمسفر بنایا۔ مٹی کے تمام رنگ، بلوچیت کے روپ بلوچی زبان کی بزرگی کو جس حُسن سے پیش کیا وہ صد ہزار ستائش کے قابل ہے۔ آفرین ہے اُن استادوں کو جو عشق پڑھاتے ہیں۔
میری دانست میں یہ کتاب’’ مستیں توکلی‘‘ بلوچ قوم کی سفیر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جو بھی بلوچ ، بلوچ کے مزاج ، بلوچ کے رواج، غم، دوستی، دشمنی، غصہ، کہاوتیں، داستانیں، انسان کی آزادیوں اور آبادیوں کے خیر خواہوں، بلوچستان کے پہاڑوں درختوں، پھولوں، جڑی بوٹیوں، راستوں ، پگڈنڈیوں اور ول ولوں سے ملنا چاہے ، انہیں جاننا چاہے وہ اس کتاب کو پڑھے اور عشق کی بادشاہی کے سائے میں چلا آئے۔
پچھلے دو سال میں ، میری ڈاکٹر سے جتنی بار ملاقات ہوئی انہوں نے اسی کتاب کے حوالوں کا ذکر کیا۔ توکلی کی شاعری سنائی، قصے سنائے اور کتاب مقدس کا انتظار بڑھاتے گئے۔ جس طرح خود جھومتے ویسی ہی سرشاری ہم پہ بھی طاری ہوتی جاتی ۔ اور جب کتاب ملی تو جیسے ایک سفر کا پروانہ ملا۔
درجہ بہ درجہ سمو کے عشق میں ایک سادہ مگر جینین مری ایک بے بس عاشق ، گیت گانے والے دیوانے سے باغیwomen rights activist ،روایت شکن انقلابی، وفا کی معراج اور عشق کی آبروبن جاتا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو بھی یہ محسوس ہوگا کہ مست ہمارے ہاں محبت کو تمام قیود سے آزاد کروانے کی ابتدا ہے اور محبت پہ ہونے والے تمام مباحث کی انتہا ہے جہاںphysical اور meta physical loveکی تراکیب بے معنی ہوجاتی ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ علم ہوگا کہ دو سو سال قبل کے بلوچستان میں ایک عورت کو یہ آزادی مل رہی ہے کہ وہ چاہی جارہی ہے۔ اُس کا نام لے کر اُس کا پجاری شاعری کررہا ہے اور تاریخی طور پر دیکھا جائے تو سموّ مائی شمس تبریز اور نظام الدین کے ساتھ کھڑی ملتی ہے۔ عورت محرک بنتی ہے ۔ انقلابی شاعری کی محرک ، انسان دوستی، آزاد خیالی شعور اور روشنی کی دیوی۔ایک پہاڑی بلوچ عورت کی وسعتیں ایک شاعر کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں اور اُس سے بغاوت کرواتی ہیں۔ بلوچ سماج بھی دیگر تمام انسانی معاشروں کی طرح گُھٹن رکھتا ہے اور عشق اپنی طبیعت میں بحرِ بیکراں کا تمام جلال۔ اسی سفرکو ڈاکٹر صاحب جس قدر سائنسی پیرائے میں ڈھال سکتے تھے، ڈھالتے گئے۔ اور آج کے دور کے محبت کرنے والوں کو پڑھاتے گئے۔شاید ایسی ہی تخلیقات کی روح میں بلند بینیوں کے راز چُھپے ہوتے ہیں جو عام آدمی کو لازوال محبت کے دھارے تک لے جاتے ہیں۔
یہ سفر کرتے ہوئے مست کو ، مست کے سماج میں موجود لوگوں کی قبولیت کو دیکھ کر احساس ہوا کہ جب تبلیغی جماعتوں کے مدرسے ،سکول، کالج اور جامعات نہیں تھیں تو ایک صحرائی اور پہاڑی بلوچ کتنا قد آور تھا۔ چیلنجز اور تضادات تو ہر دور میں ہر سماج میں موجود ہیں لیکن جو spaceجو برداشت اور دانائی نظر آئی وہ حیرت انگیز ہے ۔ ڈاکٹر نے ایک ایک کرکے مست کی نظمیں پڑھائیں اور وہ سبق دیا جو اُس کی مست سے عشق کی اساس ہے۔
’’ ہماری نسل بھی وہ سماج قائم نہ کرسکی جہاں کی سموئیں اپنے عہد کی ساری نعمتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔ مگر اس فلاسفر کا دیکھا خواب ضرور تکمیل پائے گا۔ جب بادل، بادِ نسیم، شُتر بچے، گھوڑے ، اونٹنیاں، اشجار ، سایہ دار چٹانیں، جام، شاعر کے گیت اور فرشتے سب ایک ہی ساتھ ایک ہی سُر میں، ایک ہی لے میں آفاقیHarmony قائم کرلیں اور سب کے سب سمو کی خدمت کریں۔ عورت کی بھلائی کریں اور انسان کی دیکھ بھال کریں۔
توکلی مست اپنی محبوبہ کے حوالے سے عورت کی پوری زندگانی، اس زندگانی کے حالات اورشرائط کو یکدم بدل کر انسانی بنانا چاہتا ہے ۔ اس کی ساری بنیادی ضرورتیں پوری کرنے والا ایک نظام قائم کرنا چاہتا ہے‘‘۔
کسی خوبی سے’’ مستیں توکلی‘‘ میں مست کی شخصی اور روحانی بالیدگی کا احاطہ ہوا ہے ، ایک جسم سے بشر اور بشر سے بشریت تک کیelevation کا سفر، بڑائی تک کے تمام مراحل دیوانگی اور مہر کے بل بوتے پہ شاعرِ گل زمین نے کامیابی سے طے کیے۔ عشق سرخ رُو ہوا۔
روح درد کی بھٹی میں ملتے جلتے شاعری کے پھول کھلاتی رہی کبھی زہیری کے اداس نارنجی، کبھی انکار کے دہکتے سُرخ اور کبھی دُوری کے سُرمئی پھول۔ سوچتی ہوں کہ میرؔ ا اور منصور ؔ کے ہاں محبوب کا جسم نہیں۔ میرا ؔ اپنے کر شناسے اور منصورؔ اپنے مولا سے عشق میں ابدیت تک پہنچتے ہیں مگر وہ بعد ازدید کھو دینے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ بعد از وصل ہجر کی وحشت سے بے خبر ہیں۔ یہ درد جس طرح رُومی نے شمس کے بعد محسوس کیا ویسے ہی مست کو سمو کی دائمی جدائی نے جھلسایا اور سمو کی موت کا واقعہ رونگھٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ڈاکٹر مری نے جل جل کر راکھ ہوتے ہوئے عشق کی بے بسی اور عاشق کی آہ وزاری بیان کی۔
’’خنجر لا دو کہ اپنے دل کے پار اتاردوں
سمو کے پتھر کے بنے گھر کو اپنے خون سے رنگین کردُوں‘‘۔
بلوچستان مست کی مسجد بن گیا ، جہاں وہ سجدہ ریز ہے اور ذکر سمو کا ہے ، فیوڈل رواج کُفر ہیں اور نماز عشق کی ہے ۔ آج یہ مقدس عبادت گاہ خونم خون ہے۔ نوحہ کناں ہے، ماتمی ہے۔ ہر طرف کُفر ( فیوڈل رواج) کا راج ہے ۔ نمازِ عشق ادا کرنے والے پابند ہیں یا پھر اُن کی قبریں آباد ہیں۔
بقول خود ڈاکٹر کے:
’’ ماتم میں تو بلوچستان گُنگ ہوجاتا ہے ، موت اتھاہ خاموشی کی صورت اپنا نوحہ خود ہوتی ہے‘‘۔
کیا سمو کے ویران گھر کی طرح مست کی مسجد میں بھی پتھروں نے بولنا بند کردیا ہے؟ دل پھر مست کی زبان میں نعرہ کیوں نہ لگائے؟
خنجر لا دو کہ اپنے دل کے پار اُتار دوں
چلموا بیاریں کہ دلئے بُنڈا ایر کناں
اور بے معنویت کے دورے کیسے نہ پڑیں۔ لیکن اِسی صحیفے میں جواب بھی ملا۔ جب ڈاکٹر نے لکھا کہ:
’’ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہوتا اگر یسوع، لطیف، چے، کاڈویل اور مست محبت ہی سے بغاوت کرجاتے؟‘‘۔
’’زندگی میں کتنی بار اُن کے ہاتھ اُنہیں بے کار لگے ہونگے ،لب بے مصرف لگے ہونگے، اور ان کے دل ہلکان رہے ہونگے ۔کتنی بار اُنہیں اپنی سانسیں بے فائدہ لگی ہونگی ؟۔کتنی بار وہ گہرا روئے ہونگے ، اُداس شکستہ خالی ۔۔۔۔۔۔ نا بودی کے احساس میں ڈپریس ، خود کولا تعلق ، مسترد کردہ سوچتے ہونگے۔ اگر وہ اِن تمام کیفیات کے سرچشمے’’ محبت ‘‘ہی سے بغاوت کرتے تو؟
’’مگر پھر خیال آتا ہے کہ اوہ نہیں، بزدلی، پسماندگی ، بھگوڑا گیری، گمنامی کے لیے ایک دنیا پڑی ہے۔ اُن کی اِن جانکاہ کیفیات میں کڑھائی ہونے ہی نے تو دنیا کو رہنے کی جگہ اور اعتبار کا مقام بنا دیا‘‘۔
یعنی عشق کی راہ شرف مندی کی راہ ہے اور عاشق لا تعلق نہیں ہوسکتے۔ انسانی بقا اور تبدیلی کا ذمہ انہی کا ہے۔ مست، سمو کے مہر میں انسانی حقوق اور بھلائی کا علمبردار بنا جیسے اُسے سمو کے عشق میں خود عورت ہونے کا تجربہ ہوا ہو۔
’’ استیں زالے آں ہچ ہورّا پیلہ نیاں‘‘۔
(عورت ہوں اس لیے اپنے کسی قول کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہنے دی گئی ہوں)
میں تو حیرت اور غرور سے دو چار ہوں کہ آفاقی روح کا کس قدر خوبصورت عکس مست کی شکل میں بلوچستان سے گزرا ہے۔ اور بڑے انسانی دھارے میں بلوچستا ن کی نمائندگی کب کی ہوچکی ہے ۔ اسی لیے بد ترین مظالم کے شکار انسانوں کے لیے ہونے والی جُہد میں ’’ مست کی مسیت‘‘ (مست کی عبادت گاہ) ’’ بلوچستان‘‘ کی طرف سے ہمیشہ حصہ ادا ہوتا رہے گا۔
تشکر ڈاکٹر صاحب!اِس سفر نے راستے مزید روشن کردیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے