ابھی سلگی ابھی دہکی نہیں ہوں
جنوں میں اس قدر ڈوبی نہیں ہوں

بنا کر روشنی سے اک گھروندا
فلک پر کیوں اسے رکھتی نہیں ہوں

تو میری کوکھ سے جنما ہے لیکن
تری پسلی سے میں جنمی نہیں ہوں

میں بکھری ہوں زمیں سے آسماں تک
تری آنکھوں تلک سمٹی نہیں ہوں

کہیں یہ آگ دل کی بجھ نہ جائے
میں پانی اس لیے پیتی نہیں ہوں

تو چھپ کر دیکھتا رہتا ہے مجھ کو
مگر میں ہوں کہ دِکھتی بھی نہیں ہوں

سنہری دائروں میں ہوں می رقصم
خدا تک میں ابھی پہنچی نہیں ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے