میں اس جہد و جسارت میں
ازل سے برسرِ پیکار
کہ
تیرے مذموم عزائم سے
جرائم سے
ہٹا کر
سبھی پردے، سبھی پرتیں
مٹا کر
سبھی سودے، سبھی شرطیں
معزز ابنِ آد م کو
مؤقربنتِ حوا کو
تیری زور اکیوں ، چالاکیوں کے بھینٹ چڑھتے
رَوتے آنکھوں،
لال رخساروں
لرزتے ہونٹ
ہراساں چہروں والی آدمیت کو
میں امید او ر دلاسے
میں بس انصاف دینا چاہتا تھا
یہی اوصاف دینا چاہتا تھا
کہ میرا چاگرد ایسا ہو
یہاں دو گز زمیں، روٹی کے دو لقمے
یہاں مذہب، قبائل پر
گریں لاشیں، نہ کھل کے گولیاں برسیں
بلکہ
رواداری ، مساوات اور میٹھی بولیاں برسیں
مگرافسوس صدافسوس
تیری مہربانی سے
میں اب انصاف لینا چاہتا ہوں
میں اب انصاف لینا چاہتا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے