مری طرف تری اُٹھتی نگاہ تھوڑی ہے
ترے گریز میں اب اشتباہ تھوڑی ہے
چراغ جلتے رہیں گے ہوا بغور یہ سن
ہنر پہ تجھ کو ابھی دستگاہ تھوڑی ہے
ہے ایک عشق سے آمیز راستے کا سفر
ذرا سی دُور بہ طرزِ نباہ تھوڑی ہے!
جزا سزا سے کہیں ماوراہے میرا عمل
یہ کارِ عشقِ مسلسل گناہ تھوڑی ہے
کوئی مکین نہیں کرسکے سکونت خاص
ہمارا دل ابھی ایسا تباہ تھوڑی ہے
ہوائیں اور شجر اور طائرانِ خیال
اک آسمان ہمارا گواہ تھوڑی ہے
اب اس کے بعد سفرپاراک تحیر ہے
بتارہا ہوں تمہیں انتباہ تھوڑی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے