مال حُسن تھا چشم حسود میں آیا
حدوں کو پار کیا تو حدود میں آیا
ہر اِک حصار سے باہر تھا زیست کا لمحہ
قضانے قید کیا تو قیودمیں آیا
جمالِ ماہِ منور کی آرزو لے کر
ستار ا شام کا شہرِ شہود میں آیا
زمانے بھر کی نگاہیں تھیں منتظر اُس کی
یونہی نہیں وہ عدم سے وجود میں آیا
مری نماز اِسی نقش سے ہوئی قائم
جبیں کا داغ جوذوق سجود میں آیا
کسی نظر کی کرامت ہوئی کرامت پر
میں اپنے نام کے صدقے نمود میں آیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے