علی بخش (1988تا1969ء) کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عظیم شخصیات کی رفاقتوں کی بدولت تاریخ انسانی میں امر ہو جاتے ہیں ۔ علی بخش جس کا خمیر مشرقی پنجاب ، ضلع ہوشیار پور ، موضع اٹل گڑھ کے ایک غریب گھرانے سے 1888ء میں اٹھا اور وہ زندگی کے تھپیڑ کھاتا کھاتا علامہ اقبال کے در اقدس تک آن پہنچا ۔ علامہ اقبال کے پاس وہ مولوی حاکم علی کے وساطت سے پہنچا اور یہیں گھر یلو ملازمت اختیار کر لی ، اقبال کے یورپ جانے پر اقبال کے بڑے بھائی جوبلوچستان میں رہتے تھے کے ہاں چلے گئے مگر مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے واپس لاہور آگئے اور وہاں پہلے اسلامیہ کالج اور پھر مشن کالج میں ملازم رہے ۔ جب علامہ صاحب واپس وطن آگئے تو ایک بار پھر یہیں سے ملازمت کا آغاز کر دیا اور پھر اقبال کی وفات تک ان کی خدمت پر مامور رہے۔
علی بخش ، ان پڑھ ضرور تھا مگر گنوار نہ تھا۔وہ اقبال کا ملاز م کم اور عقیدت مند زیادہ تھا ۔ وفات اقبال کے بعد شدید صدمے میں نڈھال رہا اور اپنی وفات تک اسی کیفیت میں رہا ۔ لیکن اقبال سے متعلق اپنی یادداشتیں اپنے بھتیجے غلام محمد عرف محمد اقبال کو لکھواتا رہا ۔ اور ان یادداشتوں کا عنوان ’’مرقع اقبال‘‘ کے نام سے خود ہی تجویز کیا ۔مگر المیہ دیکھے کہ اقبال کی شخصیت اور تعارف کے حوالے سے یہ بنیادی ماخذ آج تک مداحین اقبال کے سامنے نہ آسکے۔ ایسے میں لیہ کے ایک درویش صفت مداح اقبال جناب ملک انور بودلہ کو ان یادداشتوں کی بھنک پڑگئی اور انھوں نے چودھری محمد اقبال (علی بخش کے بھتیجے)سے یہ یادداشتیں حاصل کر لیں مگر ڈاکٹر صابر کلوروی نے ملک انور بودلہ سے یہ یادداشتیں اس وعدہ پر لے لیں کہ وہ انھیں خود شائع کرائیں گے مگر یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا اور پھر ان یادداشتوں کی اشاعت کا سہرا بھی لیہ کے ماتھے پر آویزاں ہوا۔ اس کہانی کی تفصیل زیر نظر کتاب میں موجود ہے ، اس حوالے سے ملک انور بودلہ اور فضل لالیکا (یادداشتوں کے مرتب) کے بیانات دیکھیے:
’’ 2014ء کے شروع میں سرائیکی وسیب کے ممتاز محقق ڈاکٹر مزمل حسین کی کتاب’’ علامہ اقبال اور لیہ‘‘ منظر عام پر آئی۔ راقم کے مضمون میں حاجی علی بخش مرحوم کی یادداشتیں چودھری محمد اقبال سے حاصل کرنے کا ذکر تھا ۔’’ علامہ اقبال اور لیہ ‘‘ کسی نہ کسی ذریعہ سے سرائیکی وسیب کے محقق ، ادیب ، دانشور میاں فضل فرید لالیکا کے پاس پہنچی ۔ میاں صاحب نے جب میرے مضمون کا مطالعہ کیا تو ان کو حاجی علی بخش کی یادداشتیں ’’مرقع اقبال‘‘ شائع کرنے کا شوق ہو ا۔‘‘
سو ’’مرقع اقبال‘‘ فضل فرید لالیکا کے ہاتھوں منصفہ شہود پر آ گئی ہے۔
انور بودلہ کواس بات کا ہمیشہ افسوس رہا ہے کہ ڈاکٹر صابر کلوروی مرحوم نے وعدے کے باوجود ’’مرقع اقبال‘‘ کو شائع نہیں کرایا اور نہ ہی انھوں نے انہیں اصل مسودہ واپس کیا [ انور بودلہ ، مرقع اقبال ص6]
اگر ڈاکٹر صابر کلوروی زیر نظر کتاب کو شائع کراتے تو یقیناًوضاحتیں، حواشی اور تعلیقات بھی شامل کرتے لیکن اس کے باوجود فضل فرید لالیکا کا جذبہ اور تحقیقی کاوش قابل تحسین ہے ۔’’مرقع اقبال‘‘ کو اٹھارہ ابواب میں منقسم کیا گیا ہے ، جن کے عنوانات یہ ہیں : ۱۔ میرے گاؤں کی ابتدائی کہانی ۔ ۲۔میرا لاہور کا سفر۔۳۔ علامہ اقبال کی خدمت میں پہلی مرتبہ۔۴۔ علامہ اقبال کے یہاں میری ملازمت۔۵۔ علامہ صاحب کے ساتھ میرے تعلقات ۔۶۔ آقا اور ملازم کی حیثیت ۔۷۔ علامہ صاحب کی گھریلو زندگی ۔۸۔ علامہ صاحب کے ہاں مختلف لوگوں کی آمد۔۹۔ علامہ صاحب کے دوست۔۱۰۔ علامہ صاحب کی وکالت اور پروفیسری۔۱۱۔ علامہ صاحب کی شاعری اور عشق رسولؐ۔۱۲۔ علامہ صاحب کی نظر میں فقیروں اور بزرگوں کا احترام۔۱۳۔ علامہ صاحب کے وہ سفر جن میں ، میں ساتھ رہا ۔۱۴۔ علامہ صاحب کے طبیب اور بیماریاں ۔ ۱۵۔ علامہ صاحب کا انتقال میرے ہاتھوں میں ۔ ۱۶۔ علامہ صاحب میری نظر میں ۔۱۷۔ علامہ صاحب کے بعد میری جاوید منزل زندگی۔ ۱۸۔ علامہ صاحب کے بعد میری گاؤں کی زندگی ۔
ان اٹھارہ ابواب میں اقبال کی شخصیت اور کردار کو سمجھنے میں بنیادی معلومات حاصل ہو ئی ہیں۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ اقبال کی وفات کو گزرے 78،79برس بیت گئے ہیں مگر ابھی تک ان کے ملازم خاص علی بخش مرحوم کی یہ یادداشتیں منصفہ شہود پر کیوں نہیں آ سکیں ؟اور ان کا ظہور مراکز سے بہت دور بسے شہر ’’لیہ ‘‘ کے حوالے سے ہو ا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے