ایک اتنا اچھا اور خوشگوار عمل ہوا کہ ہم نے اپنی ہی روایت توڑ ڈالی ۔ ہم تیس برس سے ہر آٹھ مارچ کو پہلے اپنے ماہنامہ نوکیں دور، اور پھرماہنامہ سنگت کو عورت ایڈیشن کے بطور چھاپتے رہے ہیں۔ گوادر کا بک فیئر ایک ایسا اہم واقعہ تھا کہ ہم نے ’’عورت ایڈیشن‘‘ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا۔ اب ہم مارچ کے بجائے اپریل کو ’’عورت ایڈیشن ‘‘نکالیں گے۔ اس لیے کہ اہمیت کے لحاظ سے’’گوادر بک فیئر‘‘باقاعدہ ایک الگ اور فوری ایڈیشن کا حقدار ہے۔
اس خطے میں تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ یہاں کتے اور ریچھ کی لڑائی کے بجائے کتابوں کا میلہ سج رہا ہو، سیاہ کاری اور ونی کے جرگے کے بجائے عقل و فہم کی کوئی بیٹھک سج رہی ہو۔ خونخوار روباہی آنکھوں والوں کے باڈی گارڈوں کے بجائے قلم تھامنے والوں کا خیر بانٹنے والا اجتماع منعقد ہو رہا ہو۔
مگر، یہاں تو اِس سے بھی بڑھ کر بات تھی ۔ وہ یہ کہ اس چار روزہ بک فیئر کا تھیم ’’ مستقبل کابلوچستان ‘ ‘ تھا۔ بہت اچھا لگتا ہے جب بلوچستان کے دانشور اپنے مستقبل کو سیمیناروں مباحثوں کانفرنسوں کا مو ضوع بناتے ہیں۔اس بار کتابوں کے اس میلے کو میر عبداللہ جان جمالدینی کے نام منسوب کیا گیا تھا۔اور اس کا ایک پورا دن میرعبداللہ جان جمالدینی کے لیے مختص کیا گیا تھا۔۔۔۔
خوش اور مطمئن دل کے ساتھ اپنی کوئی روایت توڑنا بہت خوشگوار ہوتا ہے۔
صوبہ بھر، اور بیرونِ بلوچستان سے ادیب، شاعر، دانشور اور علم دوست اس کتاب میلے میں مدعو تھے۔کوئٹہ سے گوادر جانے والے وفد کا سربراہ ’’ کتاب تلاش اور کتاب یار ‘‘ شخص جیئند خان تھا۔ مانگی ہوئی گاڑی کی اگلی سیٹ پر پروفیسر بیرم غوری تھا جسے لمبے سفر میں متلی ہوجانے کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اوپر سے اُس کی درد کرتی ایک داڑھ نے اُسے عذاب میں ڈال دیا تھا، یہاں تک کہ اُس نے مالک کے قہقہوں تک کا بوجھ برداشت کرنے سے بھی انکار کردیا۔ داڑھ نے اپنا یہ اصولی فیصلہ پورے سفر میں برقرار رکھا۔
وحید زہیر ہمارا دوسرا مردِ بیمار تھا۔ماضی میں اس کی ریڑھ کی ہڈی کا سروائیکل کا علاقہ کبھی اپنی جگہ سے مچل گیا ہوگا۔ مگر ریڑھ کو اُس کا ملال ابھی تک تھا۔ چنانچہ اب سفر کا دوران جھٹکوں میں وحید جان کے کان عجب آواز میں بجتے ہیں۔
دانت اور کان بجنے والے ہمارے اِن دو ساتھیوں کو چھوڑ کر گپ شپ، قصوں ،پہیلیوں اور لطیفہ بازی کے لیے پروفیسر جاوید اختر اور شاہ محمد، جیئندخان کا ساتھ دینے کو بچے۔ سفر طویل ہو، دوست اچھے ہوں اور مو ضوعات کی بہتات ہو تو سفر وسیلہِ ظفر ہو ہی جاتا ہے۔ ہم سب چونکہ عمر میں سٹھیا جانے والی لکیر کے اِس یا اُس پاس ہیں، اس لیے بہت ہی پرائیویٹ باتوں میں ’’ تھا‘‘ کا صیغہ ہمارا پردہ رکھ رہا تھا۔ ہم ایک دوسرے پہ بے شمار ا فرضی کہانیاں اورفتوے لادرہے تھے۔ویسے بھی عام زندگی میں بے مایہ اور بے معنی باتیں بھی لمبے سفر میں نہ صرف طویل ہو جاتی ہیں بلکہ بہت سی جگہ تو معنی ’’ خیز ‘‘ بھی ہوجاتی ہیں۔
ہم نے راستے میں پڑنے والے ہر ایم پی اے، ایم این اے اور سینٹر و وزیر کی دل کھول کر غیبت کی ۔ پتہ نہیں ہماری تنقیدوں کا نشانہ صرف سیاستدان ہی کیوں ہوتے ہیں۔ اور سیاستدانوں میں بھی غیرسردار سیاستدان کیوں ہمارا موضوع سخن رہتے ہیں۔ آسان شکار ہیں، اس لیے؟۔یا پھر سردار اور کرپشن اس قدر لازم و ملزوم ہیں کہ اس پر بحث کرنا بنتا ہی نہیں ہے؟۔ ہم نے غبن اور کرپشن کی اِس قدر زیادہ ہو چکی قسموں شکلوں پر بحث کی ۔ہم نے اصول اورنظریہ پہ کھڑی اقلیت کی توصیف کی۔ ہم نے سیاست کے پیچھے ریاست کو خوب خوب کوسا۔
ہم ایف سی کے چیک پوسٹوں کو اپنی تحریر کا کاما اورفل سٹاپ گردانتے رہے۔ ہم ریوڑوں کی گھنٹیوں کو سُروں میں ڈھالتے رہے۔ ہمارے آدھے ساتھی سگریٹ کی طلب میں بے قرار ہوتے رہے اور بقیہ اُس کے دھوئیں سے دور بھاگتے رہے۔ ہم اپنے ڈرائیور کو سوجانے سے بچانے کی خاطر اُسی سے باتیں کرواتے رہے، اُسے تلخ کالی سلیمانی چائے پلاتے رہے۔
ہم نے انتہائی بے وزن اور بے تُکی بیت بازی کی۔ ہم نے بلوچ مائتھالوجی کے قصے دوہرائے۔ ہم نے خوانینِ قلات کے معجونوں کی تاثیروں پر تبصرے کیے، ہم نے راہ گزرتے گیڈروں خرگوشوں پر آوازے کسے۔ ہم نے چرواہوں کے چوکیداری کتوں کے بجائے گلیوں کے آوارہ اور بھیک منگے کتوں کی بہتات کو کوسا۔ ہم نے دیواروں پہ لگے اشتہاروں اور نعروں کی رنگینی کے چٹخارے تُھوکے۔ ہم نے دکانوں میں بچوں کے لیے مارکیٹ کی پیکٹوں میں فراہم کردہ مہلک خوردنی چیزوں پر پھٹکار کی۔ہم نے پھٹکاروں کی موجود بے شمار قسمیں گنیں۔ہم نے اپنے ضرب الامثال دوھرائے ، ہم نے فوک شاعری گنگنائی۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اپنے عوام کا مستقبل ٹٹولا۔
ہم غیر ذمہ داری میں ذمہ داری کرتے رہے، ہم مزاح و مذاق میں سنجیدگی کشید کرتے رہے۔ ہم مفروضوں کی فلسفہ بازیاں کرتے رہے۔ ہم اجتماعی زیاں پہ روہانسی ہوئے، ہم فطرت کی عنایتوں پہ احسان مند ہوئے۔ ہم پہاڑوں ندی نالوں درختوں خشکابوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے کرتے اٹھکیلیو ں کی دھرتی کے دارالحکومت گوادر پہنچے۔
گوادر ، بحیرہِ بلوچ کا معتبر موقرنام۔ اپنے اِس معتبر و موقرنام کے بقا کی جہد میں رقصاں گوادر۔ گوادر کا نیلا سمندر ا پنی بیٹیوں کے لیے ایک نیلا آنچل ہے۔ یہ تاریخ و اسلاف کے نقش ہائے قدم کی موتیاں چننے والے محققوں مورخوں کا مہر گڑھ ہے۔محبت سے دیکھو تو یہ حسین ترین سیاحتی علاقہ ہے، چوری کی نیت سے دیکھو تو یہ گلے میں پھنسنے والا زندہ کیکڑا ہے۔ گوادر آکسیجن کا دروازہ ہے۔
جس روز کتب میلہ شروع ہوا، عین اسی روز اِس معاشرے کی رنگا رنگی ختم کرنے، اوراپنی مرضی کی ثقافت کو طاقت کے زور پہ نافذ کرنے والی ذہنیت نے لعل شہباز قلندر کے دربار میں موت بکھیر دی تھی ۔ گوادر نے اس عمل کو بہت حقارت سے دیکھا۔ اس طرح کہ، چار روزہ کتب میلے میں سریندا، دمبیرو اور طبلے پر دمادم مست قلندر کا دھن بجاتے رہنے کا فیصلہ ہوا۔ اور یہ دُھن عملاًبار باربجایا گیا، آخری دِن تک۔
گو کہ اس کتب میلے میں ادب کے سیشن تھے، مصوری کی نازک اندامیاں تھیں، لَے و موسیقی تھی ، قدرت کے بنائے مجسموں کے اِس دیس میں مجسمہ سازیاں تھیں، اور ’’ترقی‘‘ جیسے متنازعہ موضوعات کے مباحثے تھے۔ مگر سب سے دلبر بات یہ تھی کہ اس چار روزہ کتب میلہ کا نام میر عبداللہ جان جمالدینی کے نام سے منسوب تھا ۔اور افتتاحی اجلاس میں میزبان تنظیم (آر سی ڈی سی) کے نائب صدر ناصر رحیم سہرابی نے کہا کہ ’’ صوبے میں موجودہ تبدیلیوں کے پیشِ نظر ہمیں اپنے سیاسی اور سماجی معاملات بیان کرتے وقت ایک واضح آواز کی ضرورت ہے‘‘۔ اور ہم نے سوچا کہ جب تک وہ فہمیدہ آواز ایک منظم و مربوط تنظیم کا روپ نہیں دھارتی ہم عبداللہ جان ہی کے نام سے اُس آواز کو منسوب کرتے رہیں گے۔
ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے بھرے افتتاحی سیشن میں مصنف و صحافی محمد حنیف بولا، اے آر داد اور دوستین بولے ، فاطمہ حسن بولیں اور آر سی ڈی سی کا صدر خدا بخش ہاشم بولا۔
افتتاحی تقریروں کے بعد کتابوں کے سٹالوں والے شامیانے کے افتتاح کا فیتہ کٹا۔’’ ٹائم نہیں ملتا‘‘ کہہ کراپنے بڑے شہروں کی کتاب دکانوں تک نہ جاسکنے والوں کو اگر پاس ہی ہزاروں کتابوں سے بھرے تیرہ بک سٹال مل جائیں تو پھرتو سارے وارے‘ نیارے ہوہی جاتے ہیں۔ یہ عام سٹال نہ تھے،اور نہ ہی وہاں پر مڈل کلاسیہ ملی ٹینٹ بنیاد پرستی کی کتابیں تھیں۔ بلوچستان تو بہت شایانِ شان کتابیں پڑھتا ہے، انسان دوست روشن فکر خرد افروز اور ترقی پسند کتابیں۔ مارکس و افلاطون کی کتابیں، لینن و ہوچی من کی، سبطِ حسن و عبداللہ جان کی ، ساحر وقاضی مبارک کی، فیض و گورکی کی۔ بلوچ کانتری ادب نہیں پڑھتا۔ بلوچستان فلسفہ و تاریخ و ادب و معاشیات پڑھتاہے۔موجود کو مسترد کرنے والے اکھر پڑھتا ہے۔ مستقبل کو روشن بنا نے کے لیے معاون تحریریں پڑھتا ہے۔
ایک خوشگوار بات اس میلے کی یہ تھی کہ اس میں کچھ نئی کتابوں کی تقریب رونمائی بھی رکھی گئی تھی۔ مزیدار حیرت یہ تھی کہ ان نئی کتابوں میں ایک، طنزومزاح کی بھی تھی۔مزاح ہر زندہ سماج کے اسباب و علل کا اٹوٹ ساتھی ہوتا ہے ۔ مانا کہ ہم ایک بنیاد پرست معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ بھی کہ ہم کشت و خون کی غارتگری کاشکار ہیں ۔ مگر ایک سماج ہمہ وقت شکن آلود پیشانی کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے ۔ انسانی سماج خواہ جس بھی حالت میں ہو اُس میں محبت، بانسری، مُسکان اور مزاح لازمی ہوتے ہیں۔ ہلاکت کی حد تک ایک بیمار معاشرہ ہی اِن نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔ چنانچہ مزاح نگاری کی ’’ رشتگ‘‘ نامی کتاب کی رونمائی کے تیس منٹوں کے بعد ہی وہ سیشن شروع ہوگیا جواِس پورے میلے کا بائبل تھا۔
اِس دلبر سیشن کا عنوان تھا: ’’پوسٹ عبداللہ جان بلوچستان ‘‘ ۔یعنی بلوچستان کا منظر نامہ بعد از عبداللہ جان۔ اور سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان اور عبداللہ جان جڑواں ہیں۔ ایک کا تصور کرو تو دوسرے کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ایک کی خوبیاں گنو تودوسرے کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ ایک سے وابستگی رکھو تو دوسرا خودبخود بغلگیر ہو جاتا ہے۔ کیسی خوش بختی کہ ہم بلوچستان کی اولاد ہیں اور بہ یک وقت عبداللہ جان کے فالوئرز بھی ۔
اِس سیشن کا فارمیٹ یوں رکھا گیا کہ عبداللہ جان کی سرگرمیوں میں سے پانچ شعبے لیے گئے تھے : صحافت ، ادب ، تعلیم ، خواتین، اور سیاست ۔ہر شعبے کے لیے اُس کے ہم عصر اور ہم فکررفیقوں میں سے ایک کی کلیدی تقریر رکھی گئی تھی۔ اور اُس کلیدی تقریر کے بعدہال میں موجود حاضرین کو قلم کا غذ دے کر یہ لکھنے کو کہا گیا کہ وہ اگلے پانچ سال میں عبداللہ جان کی عینک سے اُس شعبے کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں ، اگلے پانچ سال تک اُس شعبے میں کیا کیا ہونا چاہیے ۔
’’عبداللہ جان اور صحافت ،اور اِس کامستقبل ‘‘ موضوع تھا۔ اور اس پر بلوچستان یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن کے پروفیسر ڈاکٹر بیرم غوری نے کلیدی مقالہ پڑھا۔ بیرم غوری دلیل، استدلال اور مکالمے کا بیٹا ہے۔ اس نے میکارتھی کے زمانے سے لے کر چومسکی کے عہد تک کے میڈیا کو بیان کیا، بلوچستان میں اس کی موجودہ صورت کو ڈائی سیکٹ کیا اور عبداللہ جان کی قوم کو اس شعبے میں اگلے پانچ سال کے امکانات، خدشات اور ترجیحات بتائے۔ جس کے بعد پندرہ منٹ تک ہال کے شرکا کی لکھی تجاویز اور مطالبات اکٹھے کیے گئے۔
سٹیج سیکریٹری بجار بلوچ کی منجھی ہوئی نا خدائی میں دوسرا عنوان ’’ ادب، عبداللہ جان اور اس کا بلوچستان میں مستقبل ‘‘ تھا جسے اسلام آباد کے محترم احمد سلیم کے مقالے نے سنبھالا۔ احمد سلیم، ماما کا پیروکار، ہمارا سینئر، اور سماجیات میں تحقیق و تحریر کے معتبر ترین ناموں میں سے ایک ہے۔ گل خان نصیر، شیخ ایاز، فیض احمد فیض، اور اجمل خٹک کے کٹورے سے پیا ہوا یہ دانشور بلوچی ادب کی خوبصورت چھان پھٹک بیان کرتا رہا۔ ادب کے شعبے میں ہمارے اس حکیم کی خدمات کے حوالے گنواتا رہا۔ اور آخر میں اُس نے بہت روشن راہ نوجوانوں کو تجویز کردی۔
اُس شعبے سے متعلق تجاویز اور مشوروں کو جمع کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی میں ماما کے رفیقِ کار پروفیسر سحر انصاری نے کلیدی مقالہ پڑھا’’تعلیم پر ماما کی خدمات اور اُس کا بلوچستان میں مستقبل ‘‘۔
اور جب اس موضوع پر تجاویز کا ایک ضخیم پلندہ اکٹھا ہوا تو ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بلوچستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد پہ ماما عبداللہ جان کے رول پرتفصیلی روشنی ڈالی اور اگلے پانچ برسوں کے لیے بلوچستان میں عورت تحریک کی راہیں متعین کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا۔ ہال میں موجود دانشوروں ادیبوں بالخصوص خواتین شرکا نے بڑھ چڑھ کے اگلے پانچ برس کے لیے بلوچستان میں عورت تحریک کے مطالبے، امکانات اورتجاویز لکھ دیں ۔
ماما عبداللہ جان نے کیسی سیاست کی تھی، آج بلوچستان میں کیا سیاست ہورہی ہے ،اور ماما کی عینک سے آئندہ پانچ برس تک سیاست کو کس طرح دیکھا جائے، یہ تھا اگلا موضوع ۔ اِس پر کلیدی مقالہ سننے کے بعد پندرہ منٹ تک ہال اس موضوع پر بھرپور انداز میں اپنی تفکر کے پراسیس کو کاغذ پر منتقل کرتا رہا۔
یوں اِن پانچ شعبوں سے متعلق اگلے پانچ سال کے لیے سفارشات اکٹھی کی گئیں۔ایک سات رکنی کمیٹی نے اگلے چار دنوں تک اُن سفارشوں کو ترتیب دینا تھا۔
اِس بھرپور اور شراکتی سیشن کے بعد ایک اور اہم سیشن ہوا:بلوچستان میں فلمسازی ۔ اس شعبہ سے متعلق بقیہ بلوچستان کی پسماندگی اور بے خبری حیران کن ہے۔ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ آئی ٹی سسٹم میں، ایک باہم نہ جڑی ہوئی وسیع رقبے پر پھیلی قوم کو باہم یکجا کرنے کے وسائل میں سے فلم ایک اہم وسیلہ ہے۔
بلوچی کی فلمیںیوٹیوب پر موجود ہیں۔یو ٹیوب کی خوفناکی سے خوفزدگی بالکل جائز ہے مگر سرمایہ داری نظام ایسا ہی کرتا ہے۔ وہ پوتر فن کو عریانیت کی گندی نالی سے نجس کرنے والا نظام ہے۔ خوبصورت فن، اور پھٹیچر عریانیت کا یہ سارا خلط ملط یو ٹیوب پر یکجا پڑاہے۔ بلوچی کی پاک صاف فلمیں بھی وہیں پر ملیں گی۔یہ سیشن بلوچی شارٹ فلمز کا تھا۔ ہال نے مکمل مستغرق ہوکر بلوچی کی دس شارٹ فلمیں دیکھیں۔ فلاسفیکل، ابلاغ سے بھرپور، اور فن و فنکاری میں ڈوبی ہوئی فلمیں۔ یہیں موجودہ دور کے خوبصورت اداکاری کرنے والے بلوچ فنکار سرفراز سے شناسائی ہوئی۔ ایک روشن مستقبل ہے بلوچ ثقافت میں اس شعبے کا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتب میلے میں تقریباً ہر روزسٹیج سے بار باراکادمی ادبیات کے مرکزی چیرمین کی عدم دلچسپی اور عدم تعاون کی خاص طور پر مذمت ہوتی رہی۔
اگلے روز کی ابتدا ’’ معاشرے پر ادب کی اثر پذیری‘‘ کے سیشن سے ہوئی۔ ظاہر ہے اس سیشن میں ہال کے اندر موجود دانشوروں کے بہترین میں سے بہترین نے بولنا تھا۔ چنانچہ اس سیشن میں بلوچی کا بہت ہی اچھا ( مگر بہت سگریٹیں پینے والا) دانشور پروفیسر اے آر داد تھا، مائیک استعمال کرنے کی اشد ضرورت کے وقت بھی اُس سے بے نیاز پروفیسر جاوید اختر تھا،پورے بک فیئر کی مہمان میزبان ڈاکٹر فاطمہ حسن تھی اور کامریڈ عبدالسلام کے وطن اوکاڑہ سے بہت بہادر ادیب محمد حنیف تھا۔
یہ اُن سکالرزکے بیچ مکالمے جیسا سیشن تھا جس نے وحید زہیر کی زندہ دل ماڈریشن میں فہم و فہراست کی دنیا میں حاضرین کے علم کو بے پناہ و سعت اور گہرائی عطا کی دلیل کی دھیمی بادشاہی میں یہ سیشن بہتا رہا۔ کونسی روح تھی ہال میں جس نے اس شیرین آب سے آگہی کا حلق تر نہ کیا۔ قسمت بٹ رہی تھی اور طالب حسب جھولی سمیٹ رہا تھا۔
’’ ساحلِ مکران کی زندگی ‘‘ کے جاذب عنوان پہ تقریریں نہ تھیں بلکہ تصویری نمائش تھی۔ ایسی نمائش تو صوبے کے سارے اضلاع میں منعقد ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ بلوچ اپنے ساحل کے بارے میں لا علمی کی حد تک بے خبر ہے۔
دن کااگلا نصف حصہ صرف عورتوں کے لیے مختص تھا۔ جس میں تھیٹر تھا، کلچرل شوز اور ٹیبلوز تھے۔ مائکان لیاری سے اپنا تھیٹر گروپ ساتھ لائی تھی۔ اس بچی اور اس کے خاندان کو ہم نے کچھ ماہ قبل اتاہ غم میں وزٹ کیا تھا،جب اُس کا والد کامریڈ واحد لاپتہ تھا۔ آج اس کا باپ بازیاب تھا تو اس کی تخلیقیت لوٹ آئی تھی، اور وہ پورے بلوچستان سے آئے دانشوروں ادیبوں میں زندگی بانٹ رہی تھی۔
شام کو ساحل پربلوچستان اور باہر سے آئے ادیبوں دانشوروں کو ساحل کے مجسمہ ساز فنکار بلارہے تھے۔ انہوں نے ریت سے نہایت خوبصورت فن کاری کی تھی۔ ساحل سے پرے خشکی سے آئے ہوئے دانشوروں کے لیے تو یہ بالکل ہی ایک نیا شعبہ تھا۔ مقصدیت دیکھیے کہ اس نمائش میں قلم و کتاب کی بچوں تک رسائی کے ارمان تھے، سمندری حیات کے تحفظ کی خواہشیں تھیں۔۔۔ زندگی کے لیے ہے بلوچ ادب اور فن !!۔ ہزاروں لوگوں نے اس ’’ نئے ‘‘ شعبے یعنی ’’ سینڈ آرٹس شو‘‘ کو انتہائی دلچسپی ، حیرت اور توصیف سے دیکھا۔
لیاری کا سیاسی و ادبی ورکر اور ایک بھلاآدمی وحید نور اپنی شاعری کی کتاب ’’ سکوت بول اٹھا‘‘ کی رونمائی کی تقریب میں سراپا عجز بنا سٹیج پہ بیٹھا تھا اور اس کی کتاب پہ ڈاکٹر فاطمہ حسن بول رہی تھی۔ اچھی شاعری، خود پہ بولنے والے سے خود بخودبلو اتی چلی جاتی ہے۔ لطف آگیا۔
اگلا سیشن’’ جدید افسانے کا منظر نامہ‘‘ کاتھا۔ عام فہمی کی بہ نسبت تکنیکیت زیادہ تھی اس عنوان میں۔ اس لیے اسی شعبے کے گھڑسوار ہی اتر سکتے تھے میدان میں۔گفتگو کرنے والوں میں ادب کی دنیا کا آل راؤنڈ رآصف فرخی تھا کراچی سے ، لاہور کی افسانہ نگار ، شاعرہ اور اچھے دل و دماغ کی مالکن فرحت پروین تھی،بلوچستان سے ادیب و اکیڈمیش پروفیسر غنی پرواز تھا۔ امیروغنی مائتھالوجی، فوک داستانوں اور ’’ ہرپہاڑ ایک قصہ ‘‘ والی سرزمین تھی اور آج کے افسانہ نگار تھے۔ دَین امیر تھا، لین کی طلب شدید تھی، خوب لین دین ہوئی۔
اس کے بعد ’’ بحرِ ہند میں بلوچ ڈائیسپورا‘‘ کے عنوان پہ طویل اور پارٹی سپیٹری سیشن ہوا۔
پھرتو مشاعرے کی شام تھی۔ مشاعرہ جو بلوچستان میں زیادہ قدیم تاریخ نہیں رکھتا۔ عوام کے لیے تو یہ بالکل ہی نیا مظہر تھا۔ اور یہ عوامی سطح پر اتنا زیادہ مقبول بھی نہیں۔ مگر مکران؟ ۔ وہ تو عاشق ہے مشاعروں کا۔ بہانے ڈھونڈتا ہے مشاعرے کروانے کے۔ چنانچہ سج دھج کے آئے تھے لوگ۔ کچھ تو مشاعرے کا مزہ لینے خصوصی طور پر تلخاب کا اشنان کر آئے تھے۔ خوبصورت ترین تخلیق کی پذیرائی کبھی کبھی تو تاریخی تخلیقی جملوں سے ہو جاتی ہے۔
مگر مکران مجموعی طورپر بلوچ سنجیدگی اور گراں مہذبی میں جمع ہو چکا تھا۔ چنانچہ انہماک سے خیرمقدم شدہ براہوی ، بلوچی اور اردو کا خوبصورت مشاعرہ سجا۔ اور کیا شاعری تھی صاحب !!۔جو دوست سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ’’ محض‘‘ پڑھتا بہت ہے، تو وہ اپنی غلط فہمی دورکردیں۔ بلوچستان لکھتا بھی بہت اعلیٰ ہے۔ اس قدر پر لطف و پر مغزو پر معنی و پرسوز و پُرساز شاعری کہ ملک اور بیرونِ ملک کے جانے پہچانے دانشور اور شاعر تنویر انجم ، افضال احمد سید، فاطمہ حسن، ڈاکٹر نگہت، عابد رضوی، شوکت زیدی اور فرحت پروین حیرت زدہ رہ گئے۔ اور حاضرین اِس بڑی تعداد میں کہ کھلے آسمان کے نیچے کاپنڈال کھڑا ہونے کی جگہ بھی نہ دیتا تھا۔
اگلا دن مائیکان کے ’’ راک دی بینڈ گروپ‘‘ کے پیش کردہ تھیٹر سے شروع ہوا۔ اُس کے بعد خدابخش ہاشم، دوستیں جمالدینی ، احمد اقبال، آصف فرخی اور حفیظ جمالی نے ’’ بلوچستان، انسانی وسائل کی ترقی کے تقاضے ‘‘ کا مذاکرہ سجا۔ ترقی تو انسان کے انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ ترقی، انسانی شعور اور ہاتھوں کے کمال کا عنوان ہے ۔ جو شخص ترقی کو پسند نہیں کرتا وہ گویا انسانیت کو نہیں مانتا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے جرائم پیشہ اور پست دل و دماغ کے لوگ طاقت کے بل پر’’ترقی ‘‘کے نام پر ہی ہم پہ جھپٹتے رہے ہیں۔ پرتگالی یہی نعرہ لگاتے آئے اور علم و ہنر کے مراکز ساحلی شہروں کو نذرِ آتش کرچلے ۔ انگریز بھی ترقی دینے ماوند جیسے شہری مراکز کو جلا کر، اورہماری آزادی پسندی کوقلات کے شاہی محل میں قتل کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
اب ہم اِس چارروزہ کتب میلہ کے نچوڑ، ماحصل اور نتیجے پر آتے ہیں۔ گوادر تیرا شکریہ کہ تو نے سارے بلوچستان سے دانشوروں کو اکٹھا کیا۔ بٹھایا، بحث مباحثہ کروایا اور اُن سے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے ایک مسودہ تیار کروایا۔مسودہ سازی توانسان کی ایک افضل ترین سرگرمی ہے۔
’’گوادر ڈیکلریشن ‘‘کے نام سے شرکا کی آرا اور تجاویز کو مرتب کر کے آخری روز ہال میں پڑھا گیا اور اُن کی منظوری لی گئی۔ اِس ڈیکلیریشن میں تعلیم کے لیے 19نکاتی جامع تجاویز منظورکی گئیں۔24نکات پر مشتمل ایک ادبی روڈ میپ بھی گوادر ڈیکلیریشن کا حصہ بنا۔ ایک سترہ نکاتی راہ میڈیا اور ابلاغ عامہ کے لیے بھی متعین کی گئی۔ (ظاہر ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس کو بہتر بنایا جاسکے گا۔ مگر عوامی سطح پر اس شعبے میں ڈاکو منٹیشن کی یہ اولین کوشش تھی جو یہاں کے نمائندہ دانشووروں صحافیوں اورادیبوں نے مرتب کی)۔ ایک بیس نکاتی ایجنڈہ عورتوں کے سیاسی سماجی معاشی سفر کا بھی منظور کیا گیا ۔(بلوچستان شاید وہ واحد صوبہ ہے جہاں مرد اور عورت نمائندہ دانشوروں نے ایک کتب میلے میں عورتوں کے بارے میں کھلے عام بحث مباحثہ کیا اور اُن کے حقوق کے حصول کے لیے بیس سنگ ہائے میل ثبت کیے)۔اور سیاست تو ایک لحاظ سے زندگی کے سارے شعبوں کا احاطہ کرتی ہے ۔ پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر مرتب کردہ گوادر ڈیکلریشن سیاست پہ23اہم نکات پر مشتمل ہے۔
یوں ایک ڈاکومنٹ وضع ہوا جسے نہ صرف گوادر بلکہ پورے بلوچستان کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے نمائندہ ادیبوں دانشوروں اور شاعروں نے منظور کیا۔ بلوچستان سے باہر سے بھی چیدہ چیدہ شاعر وادیب اس اعلان نامہ کو مرتب اور منظور کرنے میں شامل تھے۔یہ ڈیکلریشن ایک لحاظ سے اِس چار روزہ کتب میلے کا حاصل تھا۔بلاشبہ مشرقی ، وسطی اور مغربی بلوچ دانشوروں کی متفقہ مرتب و منظورشدہ یہ دستاویز بلوچستان کے مستقبل کی سمت بنے گی۔
اسی لیے ہم ’’ عورت ایڈیشن‘‘ کو اگلے ماہ کے لیے ملتوی کرتے ہوئے ’’ گوادر بک فیئر ایڈیشن ‘‘ شائع کررہے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے