دنیا میں ہر قوم کوا پنی مادری زبان میں بولنے ،پڑھنے اورلکھنے کا حق حاصل ہے اور اقوام متحدہ کے آئین میں بھی یہ بات تسلیم کیاگیا ہے کہ دنیا کے تمام اقوام کو اپنی مادری زبان میں لکھنے ،پڑھنے اور بولنے کا حق ہے، آج دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے ہم یہ سوچھنے پر مجبور ہیں کہ کیا پاکستان میں بسنے والے پنجابی، سندھی، پختوناور بلوچ کو بھی اپنے مادری زبانوں میں بات کرنے ، لکھنے اور پڑھنے کا حق حاصل ہے؟موئرخین لکھتے ہیں کہ بلوچ قوم اپنی، تاریخی، ثقافتی ، ادبی اور جغرافیائی لحاظ سے زمانہ قدیم سے برصغیر میں مشہور ہے نہ صرف برصغیر میں بلکہ بلوچ قوم کو تاریخ دان دنیا کی قدیم ترین اقوام میں سے ایک قوم تسلیم کرتے ہیں اسی طرح بلوچی زبان کے بارے میں بھی معروف قلمکاروں نے لکھا ہے ۔کچھ موئرخین کا کہنا ہے کہ بلوچی زبان قدیم فارسی زبان (جس کا نام اوستا) تھا سے بھی قدیم تر ہے، ملکی مصنفین کے علاوہ غیر ملکی مصنفین نے بھی بلوچی زبان کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے بہت سارے کتابیں لکھی ہیں جن میں انگریز مصنفین بھی شامل ہیں جنہوں نے بلوچی زبان کی ہزاروں سال پرانی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے۔ تقسیم برصغیرپاک وہند کے بعد بلوچ مختلف ممالک میں تقسیم ہوئے جس میں پاکستان،افغانستان، ایران، ترکمانستان اور دوسرے ممالک شامل ہیں میں بلوچوں کی بڑی آبادی رہتی ہے ۔ پاکستان میں پہلی بار شہید نواب اکبر خان بگٹی کے دورِ حکومت میں بلوچی زبان کو بلوچستان کی اسکولوں میں لازمی قرار دیا گیا مگر اسکے باوجود بلوچی زبان کووہ مقام حاصل نہ ہوا جس کا وہ حقدار تھا اوراہل بلوچستان قوم پرست حکومتوں سے توقع رکھتے تھے، اسی طرح ڈاکٹر مالک حکومت نے بلوچی زبان کو لازمی زبان کا درجہ دینے کا وعدہ تو کیا مگر اس پر عملدرامد نہ کرا سکے اور اس طرح بلوچی زبان حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ترقی نہ پاسکے اور تاحال یہ تشنگی ہر بلوچ کے لبوں پر عیاں ہے۔لیکن1950کی دہائی میں سید ظہورشاہ ہاشمی جیسے عظیم شخصیت نے جو پودا بلوچی زبان و ادب کے لئیے بویا تھاوہ ایک خوشبو دار پھول بن کر گل خان نصیر، آزات جمالدینی،مراد ساحر، محمد حسین عنقاء،عبدالمجیدگوادری،شہید صباء دشتیاری ،بشیر بیدار،ا ڈاکٹر شاہ محمد مری بیگ محمد بیگل، اے آرداد، ظفر علی ظفر، واحد بزدار، شے رگام، ڈاکٹرفضل خالق اور بے شمار ادیب و دانشوروں میں سما گیاجنہوں نے بلوچی زبان کو ایک نئی تحریک دی۔ مگر بدبختی اس بات کی ہے کے حکومت بلوچستا ن اور وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچی زبان کو درپیش چیلنجز کے لئیے کوئی اصولی رہنمائی نہیں کی جو کہ کسی بھی حکومت کا قومی و اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔بلوچستان میں اس وقت بہت سارے ادارے ہیں جو مالی کمزوری کی وجہ سے نایاب کتب کو پبلش نہیں کرپاتے اس کے علاوہ بلوچستان کے اسکولوں میں بلوچی زبان کو نہیں پڑھایا جارہا ہے جو کہ ایک قوم کی بنیادی حق ہے کہ اسے اپنی مادری زبان کو بطورلازمی سبجکٹ پڑھایا جائے اقوام متحدہ کی چارٹر کے مطابق ریاست کا فرض ہے کہ ہر قوم کی زبان و ثقافت کو زندہ رکھے دنیا میں بہت ساری زبانیں سرکاری سرپرستی حاصل نا ہونے کی وجہ سے میوزیم کا زینہ بن چکے ہیں۔ بلوچی زبان ہزاروں سال قدیم ہے، صو بائی ووفاقی حکومت کو چاہیئے کہ بلوچی زبان کو بلوچستان کے سارے اسکولوں میں لازمی مضمون قرار دے تاکہ دنیا میں بلوچ قوم کی شناخت محفوظ رہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے