جس طرح ایک استحصالی طرز حکومت میں برسراقتدار طبقہ اپنے عوام کا استحصال کرتا ہے اور ان کے جائز حقوق کو نظرانداز کرتا ہے تو اس کے خلاف لوگوں میں بغاوت اور مزاحمت کے جذبات ابھرتے ہیں، بالکل اسی طرح جب روایتی قبائلی اور جاگیرداری سماج میں مرد اپنے آپ کو عورت سے برتر سمجھ کر ان کے حقوق دباتے ہیں تو وہ اپنی مظلومیت کے اظہار کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے اور اپنی فریاد کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے مختلف منظوم فوک اصناف کا سہارا لے لیتی ہے، جس میں ایک مشہور صنف انگئی ہے جو کہ صرف پشتو فوک شاعری کا ایک اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے، انگئی کو چیغیان کا نام بھی دیا گیا ہے، جو پشتو کے لفظ ‘چیغہ’ سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی چیخ ہے، انگئی اور چیغیان دونوں نام اس صنف کی ماہیت ظاہر کرتی ہے کہ یہ لوک شاعری عورت کی انگئی یعنی فریاد اور چیغیان یعنی چیخوں پر مبنی ہے۔ انگئی کے ایک معنی گونج یا بازگشت کے بھی ہیں اور شاید یہ صنف سخن اس لئے بھی اس نام سے مسمی کیا گیا ہے کہ یہ ایک طرح سے عورت کے رونے اور فریاد کرنے کی بازگشت ہے۔
فوک ادب کسی معاشرے کا جتنا عکاس ہوتا ہے کتابی یا تحریری ادب اتنا نہیں ہوتا کیونکہ فوک ادب کو تخلیق کرنے میں جو وجوہات کارفرما ہوتے ہیں ان میں سماجی نابرابری، صنفی امتیاز، گھریلو ناچاقیاں اور ازدواجی رسوم و رواج شامل ہیں جن کا شکار زیادہ تر عورت ہوتی ہے اور عورت اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا فوک شاعری کے ذریعے برملا اظہار کرنے کی جسارت کرتی ہے۔ ان فوک اصناف میں ٹپہ اور غاڑہ بھی قابل ذکر ہیں لیکن انگئی میں جس مزاحمتی انداز سے نسوانی مظلومیت کا اظہار کیا گیا ہے، شاید ہی کوئی لوک شاعری اس کا مقابلہ کرسکے یا فوک ادب میں اس کی کوئی مثال مل سکے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس انداز سے انگئی میں ہماری سماجی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اس میں پدرانہ یا مردانہ برتری کی عکاسی کی گئی ہے وہ بڑا دلچسپ اور دلخراش ہے۔
ہمارے جیسے روایتی سماج میں عورت کو مظلوم سمجھ کر باتوں کی حد تک اس کی ظاہری عزت و تکریم تو کی جاتی ہے لیکن انہیں زندگی کے اہم معاملات میں دخیل نہیں کیا جاتا نہ ہی اس کی رائے یا فیصلے کو اہمیت دی جاتی ہے، انہی محرومیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جب وہ انگئی میں اپنی فریاد کرتی ہے تو اپنے بعض سماجی رسومات، ازدواجی قباحتوں اور اپنے والدین، بھائیوں اور رشتہ داروں پر اس انداز سے کڑی تنقید کرتی ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ جس معاشرے میں عورت کا اونچی آواز میں بولنا اور اپنے گھر کے اندر قہقہ لگانا ہی برا سمجھا جاتا ہو بلکہ ممنوعہ قرار دیا گیا ہو اور اس کی خاموشی، ظلم و ناروا کو برداشت کرنا اور ہر قسم کی مشقت پر اْف تک نہ کرنا فرمانبرداری گردانا جاتا ہو، تو وہاں اس کو حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے اور قباحتوں پر تنقید کرنا تو دور کی بات، لیکن یہ شاعری کی طاقتور زبان ہی ہے جس نے ہماری مظلوم عورت کو بھی اپنے بھرپور اظہار کا جر?ت دے دیا ہے اور انگئی اس طرح کی عورت دشمن اور زن بیزار (Misogynistic) رسموں پر تنقید اور نکتہ چینی سے بھری پڑی ہے۔
اگرچہ فوکلور 1846 میں انگریز لکھاری ویلیم تومز (1803۔ 1885) کی وضع کی ہوئی مرکب اصطلاح ہے جو کہ Folk (لوگ) اور Lore (دانش) سے بنی ہوئی ہے لیکن جس طرح قوموں کی ثقافتیں اور زندگی کے عادات و اطوار پرانی ہوتی ہیں اسی طرح ان کا لوک ورثہ یا عوامی دانش بھی قدیم ہوتا ہے، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو انگء کا صنف بھی مواد کے لحاظ سے جاگیرداری سماج کی عکاسی کرتا ہے کہ جن میں عورت بھی زمین اور جائداد کی طرح مرد کی ملکیت تصور کی جاتی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے سماج میں عورت کو آج اکیسویں صدی میں ترقی یافتہ دنیا کی آزادی نہ صحیح لیکن غلامی کی زنجیروں سے چھٹکارا ملا ہے یا اب بھی اس کے ساتھ کنیز یا نوکرانی کی طرح سلوک کیا جاتا ہے
ویسے تو انگئی پشتو فوک ادب کا ایک منفرد صنفِ سخن ہے اور یہ اْس پوری سرزمین پہ تخلیق ہونا چاہیے تھا جہاں پشتو بولنے والے رہتے ہیں لیکن یہ ٹپے کی بنسبت۔ جو لوک شاعری کا ایک مشہور بین الافغانی صنف ہے۔ کم پہچانا اور کہا جاتا ہے اور اس کا تخلیقی خطہ کوہِ سلیمان کا دامن ہے، خصوصاً ڑوب اور لورالائی اس لاجواب اور خوبصورت صنفِ سخن کے اصل سرچشمے رہے ہیں اور اسے چار مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، اگر لورالائی میں اسے چیغیان کا نام دیا گیا ہے، تو کوئٹہ کے آس پاس علاقوں میں اسے انگئی کہا جاتا ہے، اگر ژوب میں اسے متلونہ کے نام سے مسما کیا گیا ہے تو دکی و ہرنائی میں اسے اووء کہتے ہیں۔ ہیئت کے اعتبار سے انگئی سارے تقریباً ایک ہی بحر میں کہی گئی ہیں اور مثنوی کے انداز میں مقفی ہیں لیکن طوالت کے لحاظ سے ان کی ایک خاص حد متعین نہیں کی گئی ہے اور ایک خاتون جتنے مصرعوں میں اپنی جذبات کا اظہار کرسکتی ہو وہ ایک ہی انگئی کہلاتی ہے۔
انگئی میں زیادہ تر ایک عورت اپنی مرضی کے خلاف ایک بیگانہ مرد سے شادی پر، اپنی عمر سے دو یا تین گنا زیادہ بڑی عمر کے مرد سے شادی پر، کم عمری کی شادی پر، وٹہ سٹہ اور ونی میں دینے پر فریاد اور احتجاج کرتی چلی آئی ہے، ‘بدل’ یا وٹہ سٹہ کی شادیوں میں بھائی کے رشتے میں بہن کا دینا آج بھی ایک حد تک عام رواج ہے لیکن کیا اْس لڑکی کی ازدواجی زندگی دوزخ میں نہیں گزرے گی جو باپ کی دوسری شادی کے لئے ایک معمر شخص کو رشتے میں دے دی جاتی ہے، اس غیرانسانی مردانہ گرد رسم پہ کہی گئی دل رلانے والی انگء میں سے ایک یہ ہے:
دسپینی خونی ترمخ ماخی
بار بار ور کڑے یم پرسری
پہ ما ییی را وڑہ شہ ناوکی
کشے یی نولہ پرشہ نیالی
اوس ماور باسی سختہ گڑی
نہ می بالشت ستہ نہ می نیالی
پیغور بہ راکی پردی ٹولی
یائے سہ دروکو بابا مورکی
جواب بہ سہ کڑم زہ خوارکی
ایک دلہن سخن طراز ہے کہ "ایک سجائے گئے کمرے کے دروازے پر شال کے اوپر پھول لٹک رہے ہیں، میرے باپ نے مجھے وٹہ سٹہ میں دے دیا ہے اور میرے بدلے خود اپنے لئے ایک خوبرو دلہن لاکے اسے اچھے سے گدیلے پہ بٹھا دیا ہے، اب مجھے رخصت کرنے کی سخت گھڑی آپہنچی ہے، گھر کے سامان میں بھی نہ سرہانہ ہے نہ گدیلا، بیگانہ سسرال مجھے طعنہ دے گا کہ ماں باپ نے تجھے کیا دیا ہے تو میں بے چاری کیا جواب دوں گی”۔
پتہ نہیں ماقبل پہیہ زمانے میں لوگ کتنی اجیرن زندگی گزارتے رہے ہونگے لیکن آج سے کوئی چالیس پچاس سال پہلے بھی کسی عورت کی شادی کسی دوسرے گاؤں یا علاقے میں ہوجاتی تو مہینوں یا تو کبھی سالوں میں یہ نوبت آتی کہ وہ اپنے میکے میں جاتی اور اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے ملتی، خاص طور سے جب کسی عورت کی شادی دشمنی کے بدلے یا ونی میں ہوجاتی تو زندگی بھر میکے میں دوبارہ آنا اس کے لئے ناممکن ہوجاتا، اس کی عکاسی ذیل کی انگئی میں ملتی ہے:
ادکی لاڑم دوری بہ مڑہ سم
پیر مینہ نہ یم چی بہ شکارہ سم
نہ بہ دخور پہ دیدن مڑہ سم
نہ بہ دور ور نڑو ترسنگ ویدہ سم
باباوادہ کڑم پہ لو یہ غرو نہ
لہ پردیسہ کڑم فریادو نہ
غمومہ جوڑ کڑل پہ مخ رودونہ
اوشکو مہ جوڑ کڑل پہ مخ رودونہ
اوس یی سارمہ دغروسرونہ
دباد مرغان بہ وژ غومہ
دادی حال بہ زنی کومہ
بابا ظالم دی ہیرہ یی کڑمہ
بخشش بہ زہ اے نہ ورتہ کومہ
اپنی شادی کے دن دلہن اپنی ماں سے شکایت کرتی ہے کہ ” اماں! میں جارہی ہوں اور وہاں مر جاؤں گی، کیونکہ ستارہ تو ہوں نہیں کہ دِکھ سکوں، میں اب نہ تو اپنی بہن سے اچھی طرح مل پاؤں گی اور نہ ہی بھائیوں کے پہلو میں سو سکوں گی، کیونکہ باپ نے بڑے پہاڑوں کے اس پار میری شادی کروا دی اور میں پردیس میں فریاد کررہی ہوں، غموں نے میرا دل داغدار کردیا اور آنسوؤں نے میرے چہرے پہ دریا بنا دیے، اب میں پہاڑوں کی چوٹیوں کو تکتی ہوں اور ہوا کے پرندوں سے اپنی ماں کا احوال پوچھوں گی، بابا ظالم تو مجھے بھول گئے، میں اسے معاف نہیں کروں گی”۔
مادرسرانہ سماج کے بعد تاریخ کے تقریباً ہر دور میں عورت آسیب پذیر ہوتی نظر آرہی ہے لیکن مذہبی روایت میں مردانہ بالادستی نے عورت کو پردے، حیا، عزت، جنسی تفریق کے نام پر اور بھی غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے، وہی تسلسل ہے کہ آج بھی اگر ولور اور جہیز کے نام پر عورت غلام داری سماج کے کنیز کی طرح فروخت ہوتی ہے تو مذہبی پیشوا یا ملا اس کا نکاح باندنے کے عوض چند پیسے بٹورنے کی لالچ میں جواز فراہم کرتا ہے، عورت اس ظالمانہ رسم کی بیخ کنی میں اپنے آپ کو کمزور سمجھتی ہے لیکن ملاؤں سے مذہب کی روشنی میں ایسے رسم کو جواز فراہم کرنے پر سوال کرنے کی جسارت ضرور کرتی ہے:
دادسپین غرہ پہ سرکشے بریشنا
پشتنو وکی حال لہ ملا
پہ کم مذہب یم ورتہ روا
زہ ینے وریرہ یم دی مہ اکا
وہ کہتی ہے کہ "سامنے سپین غر کے اوپر آسمانی بجلی چمک رہی ہے گویا اتنا جہالت کا اندھیرا نہیں ہے، اے پشتونوں! ملا سے پوچھو کہ کس مذہب کے تحت میری شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ جواز رکھتی ہے کہ جیسے میں اس کی بھتیجی اور وہ میرا چچا ہے”
اسی سے ملتی جلتی ایک اور انگئی میں بھی ایک خاتون ملا کو چیلنج کرتی ہوئی پوچھتی ہے کہ ایک بیگانہ بوڑھے آدمی سے اس کی شادی کیا جواز رکھتی ہے:
ملادی خوارہ کڑی خپل کتابونہ
کہ یی رواکڑ ل زموژہڈونہ
وموژتہ گران دی پردی کورونہ
لیری ملکونہ زاڑہ مڑونہ
پشتو میں کہاوت ہے کہ "کسی کو پانی بہا کے لے جائے تو وہ جاگ کا بھی سہارا لیتا ہے”، رسم و رواج کی اندھی زنجیروں میں جھکڑی ہوئی عورت کو کوئی سہارا نہیں ملتا تو اپنے اوپر ظلم کے مردانہ جواز کو مذہبی کتابوں کی مدد سے ٹالنے کی کوشش کرتی ہے، کہتی ہے کہ "ملا کو چاہیے اپنی کتابیں کھول دے، کہ کیا واقعی ہماری ہڈیاں بیچنا جائز ہے، ورنہ ہمیں بیگانہ گھروں اور دوردراز علاقوں میں جانا اور بوڑھے شوہر گوارا نہیں "۔
کم عمری میں شادی کی روایت بھی صدیوں پرانی ہے اور ہمارا معاشرہ جو صدیوں تک علم و ترقی کے فیوض و برکات سے محروم رہا ہے کس طرح بردہ فروشی کے اس غیرانسانی رسم سے بچ پاتااور شاید کسی حد تک مذہب کے نام پر عرب کلچر بھی ہماری ثقافت پر اثرانداز ہوا ہے اور کہیں نہ کہیں آج بھی کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کرائی جاتی ہیں، وہ اس مردانہ آمریت کی بھی عکاسی کئے بغیر چپ نہیں رہتی اور کہتی ہے:
دسپینی خونی پرورہ روپی
ورونڑ وورکڑی یمہ کوشنی
وخوری خودبہ وہم بوغی
خولہ می لندہ دہ دمورپہ پی
کہ می کاروکیئی نادانی
دوی بہ یا یی ضد یی اخستی دی
کم سِن دلہن کتنے مظلومانہ انداز سے فریاد کرتی ہوئی کہتی ہے کہ "کمرے کے دروازے پر نوٹوں سےآراستہ ہار لٹکا ہوا ہیاور بھائیوں نے کم عمری میں میری منگنی کرا دی ہے، اے میری باجی! میں کیوں نہ چیخوں کیونکہ میرا منہ ابھی تک ماں کی دودھ سے گیلا ہے، اگر میں نے نادانی میں کوئی غلط کام کیا تو وہ کہیں گے کہ میں بضد آئی ہوں "۔
انگئی کی شاعری باقی فوک شاعری کی طرح اکثر فی البدیہہ ہے لیکن ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ کوئی لڑکی اپنی شادی سے پہلے خود یا اپنی سہیلیوں کی مدد سے انگء بنائے اور اپنی شادی کے دن اتنے مؤثر اور غمگین آواز میں رونے کے انداز میں کہے کہ ان کی سہیلیاں، رشتہ دار اور بہن بھائی آبدیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکیں خاص طور سے جب دلہن بن کر اسے گھر سے نکالا جاتا ہے اور وہ اپنی ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے والد، بھائیوں، چچا اور چچازادوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو وہ یہ منظر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے اور وہاں سے فرار ہونا اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
گو کہ بیسویں صدی کے آواخر میں ہمارے چند ماہرینِ عوامی ادب (Folklorists) نے بشمولِ انگء لوک ادب کا خاصا مواد اکھٹا کرکے اس پہ اپنی دانست کے مطابق تحقیق کی ہے جن میں پروفیسر سیال کاکڑ، پروفیسر صاحبزادہ حمیداللہ، سیدخیرمحمد عارف، ابوالخیر زلاند اور ڈاکٹر صادق ژڑک کے نام سرفہرست ہیں لیکن جہاں تک یہ کام میری نظر سے گزرا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی اس حوالے سے بہت ایسا مواد ہمارے خواتین کے سینوں میں محفوظ ہے جسے اکھٹا کرنے اور اس کو تاریخ و علمِ بشریات (Anthropology) کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے تب جا کے ہم خواتین کے بشمول اپنے قدیم انسان کے اساطیری خیالات اور تہذیبی اخلاق سمجھ سکتے ہیں اور اس کے ذریعے ہم نئی دنیا سے منسلک ہونے کے ناطے جوڑ سکتے ہیں۔
اب جبکہ ہمارے اعلی تعلیمی اداروں میں تحقیق کا سلسلہ چل پڑا ہے تو کسی حد تک یہ نوبت آپہنچی ہے کہ ہمارا رچ اور غنی فوکلور بھی علمی، ادبی اور بشریات کے حوالے سے تحقیق و تجزیے کے مرحلے سے گزر کر اپنا ایک مقام حاصل کرسکے، جہاں تک مجھے معلوم ہے تو بلوچستان یونیورسٹی سے ارزو زیارتوالہ پشتو میں اور بہادرخان ویمن یونیورسٹی سے صالحہ بازئی انگریزی میں بہ یک وقت انگئی پر ایم فل کررہی ہیں، امید ہے کہ ان کی تحقیق انگئی کے آئینے میں ہمارے سماج کے نادیدہ گوشوں کو بھی سامنے لا سکے گی۔

:ماخذات:

۔1)۔ (انگئی)، ابوالخیر زلاند، سال اشاعت 1994، ناشر: پشتو ادبی کاروان۔
۔2)۔ ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
(Translation of Angais)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے