ہجر آسیب کہ اعصاب پہ چھایا ہوا ہے
یہ ترا عشق جسے سر پہ چڑھایا ہوا ہے

ایک وحشت ہے جو آنکھوں میں چھپائی ہوئی ہے
ایک آزار کہ سینے سے لگایا ہوا ہے

اب کوئی دوست کہے گاتو ہنسی آئے گی
اک تعلق نے مجھے اتنا رْلایا ہوا ہے

یہ جو آنکھوں میں نمی ہے ، مری لائی ہوئی ہے
میں نے صحرا کو یونہی جھیل بنایا ہوا ہے

ایک وعدہ جو نبھایا بھی نہیں جا سکتا
کس لیے پاؤں کی زنجیر بنایا ہوا ہے

یہ جو چہرے پہ مرے ہنستا ہوا چہرا ہے
میں نے اک دوست کے کہنے پہ لگایا ہوا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے