کتاب : میر یوسف عزیز مگسی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
مبصر : عابدہ رحمان

2011 میں جھل مگسی میں جب میں کسی Organization کے ساتھ کام کر رہی تھی، تب مجھے جھل کے بارے میں صرف اتنا معلوم تھا کہ یہ مگسیوں کا علاقہ ہے اور یہ کہ سابق گورنر ذوالفقار علی مگسی کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ جب وہاں کے ایک گاؤں کے سکول میں ٹریننگ دینے گئی تو ہمیں بتایا گیاکہ اس سکول کی بلڈنگ سے ذرا ہٹ کریعنی صحن میں سکول کی پہلی بنیاد یوسف عزیز مگسی صاحب نے ڈلوائی تھی جو کہ بعد میں ۱۹۳۵ کے زلزلے میں منہدم ہوگیا تھا اور پھر اسی نام سے دوبارہ سکول کی تعمیر ہوئی۔ تب میں یوسف عزیز مگسی صاحب کو نہیں جانتی تھی ۔ اتنے سال بعد آج جب کہ میں ان کے رفقا کے بارے میں بھی کتاب پڑھ چکی ہوں ، تب میری سوچ کی نہج بھی بدل چکی ہے اور جب میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتاب ’’ میر یوسف عزیز مگسی‘‘ بھی پڑھ چکی تو مجھے ان سے ایک عجیب انسیت، محبت اوراحترام کا احساس ہورہا ہے۔
وہ خوب صورت علاقہ جہاں خودرو پودوں کی خوشبو چار سو پھیلی ہوتی ہے، جہاں بارش کے بعد دور سے کہیں ایک خاص پرندے کی آواز آتی ہے، جہاں فضاؤں میں آسمان میں ہجرت کرنے والے پرندوں کی ڈاریں گزرتی ہیں، وہ جھل مگسی اس متحرک، پارے کی طرح ہمہ وقت بے چین، قوم کے لیے پریشان ایک خوب صورت انسان میر یوسف عزیز مگسی کا مسکن تھا۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب اکثر یہ جملہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کام میں پی ایچ ڈی ہے ۔ یہاں میں ان کا ہی کہا ہوا جملہ استعمال کروں گی کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب بھی شخصیات پر لکھنے میں اور بہت اچھا لکھنے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں ۔ کسی بھی شخصیت پر لکھنے کے لیے کافی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس شخصیت کے کارناموں سے انصاف ہو سکے اور ان کی زندگی کا احاطہ ہو سکے۔ ان کی کتاب ،، میر یوسف عزیز مگسی،، بھی ان کا ایک ایسا ہی شاہکار ہے کہ اس میں انھوں نے مگسی صاحب کی زندگی کے ہر گوشے کو چھیڑا ہے۔ان کی جائے پیدائش، تعلیم،ان کی سوچ کا ارتقا، قوم سے محبت،انسانیت کے پیمبر، اخبارات سے وابستگی، جیل کی کال کوٹھڑیاں، ان کا ادب پر کام ، ان کی شاعری ؛کیا ہے جو ان سے لکھنے سے رہ گیاہے ۔ انھوں نے ان پر بات کی اور خوب کی جو ان کی محنت کا آئینہ دار ہے اور مگسی صاحب کا حق۔
کتاب کی ابتدا کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ شعور و آگہی دینے والی یہ شخصیت1908 میں جھل میں پیدا ہوئی۔ نواب قیصر نے میر یوسف عزیز مگسی سمیت اپنے تینوں بیٹوں کو عربی، فارسی، اردو اورانگریزی کے لیے الگ الگ اساتذہ مقرر کیے ۔بلوچستان کی تاریخ میں وہ ایک بلند ترین شخص کے طور پر پہچانے جائیں گے کہ انھوں نے شعور و آگہی کا عظیم ہتھیار دیا ۔جی ہاں شعور وآگہی ہی تو سب سے بڑا ہتھیار ہے ،جب ہی تو دشمن ہمیشہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں قوم باشعور نہ ہو جائے، وہ اپنے مسائل کی بنیادی وجوہات نہ جان جائے اور ان کے حل کے لیے جدوجہد نہ شروع کر دے۔ جب ہی تو اخبارات ضبط ہوتے رہے ہیں،ان کی اشاعت روک دی جاتی ہے ۔ اور یہی تو وجہ ہے ماضی سے اب تک کہ ہر باشعورانسان کو جیل کی نذر کیا گیا،اسے وطن بدر کر دیا گیا۔ لیکن وقت ثابت کرتا چلا آرہا ہے کہ روشن خیالی، اچھی سوچ کو اگر کوئی روک سکا ہے تو بتا دے۔
’’بلوچوں کی امامت منتظر ہے‘‘ کے خوبصورت ذیلی عنوان کے تحت ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شمس شاہ جو ایک نہایت ظالم انسان تھا، اس کے اسی قہر اور ظلم کی وجہ سے1922ء میں نواب قیصر کو نوابی سے معزول کر دیا گیااور نواب صاحب اپنے بیٹے میر یوسف کے ساتھ ملتان جلا وطن ہو گئے۔ اُس چالاک ، چال باز اور ظالم شمس شاہ کوچوں کہ انگریزوں کی سپورٹ حاصل تھی، اس لیے اس نے تحریر و تقریر پر سختی سے پابندی لگائی تھی اور یوں ریاستِ قلات میں ظلم و نا انصافی اور جبر کا دور دورہ تھا۔ یہ وہی دور تھا کہ جب سامراج دشمن تحریک بھی چل رہی تھی اور ساتھ ہی خلافت تحریک بھی تو دوسری طرف سوویت یونین کا سوشلسٹ انقلاب بھی اپنے نقش خوب چھوڑ رہا تھا۔ یہی وہ تحریریں تھیں جنھوں نے مگسی صاحب کو ایک نظریہ دیا ۔ اسی نظریے کو لے کر وہ چلے اور اخبار، قلم اور کاغذ کے ذریعے جنگ شروع کر دی۔ بلوچ،ترجمانِ بلوچ، اتحادِ بلوچاں، بلوچستانِ جدید اور لاہور سے آزاد ہی وہ اخبارات ہیں جنھوں بلوچوں کی ، بلوچ لیڈروں اور بلوچستان کی ترجمانی کی۔
یوسف عزیز مگسی صاحب نے دراصل اپنا دل غریبوں، مزدوروں کے ساتھ لگا لیا، انسان کے ساتھ لگا لیا اور سرداری کو ایش ٹرے میں ایک چٹکی سے جھاڑی ہوئی سگریٹ کی راکھ سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ اسی سوچ نے’ تکمیلِ انسانیت‘ کو تخلیق کیا۔ اور اسی نظریے سے ان کے سینے سے ’فریادِ بلوچستان‘ کی ہوک اٹھی جس میں انھوں نے بلوچستان کی پسماندگی، غلامی، محرومی کا نقشہ کھینچا اور بلوچستان میں معاشی اور سیاسی آزادی کی اپیل کی لہٰذا قوم کے لیے بولنے، قوم کو آگہی دینے کی پاداش میں ظاہر ہے کہ وہ سزا کے مستحق تھے۔ سو انھیں ایک سال کے لیے نظر بندی کی سزا ہوئی۔ مزے کی بات دیکھئے کہ جیل میں ہی اپنے ساتھیوں سے خفیہ رابطوں کے ذریعے انھوں نے ’ انجمنِ اتحادِ بلوچاں‘ قائم کی۔
شمس شاہ کے دورِ سیاہ کے خلاف یوسف عزیز مگسی اور میر عبدالعزیز کرد نے 64 صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ1931ء میں تحریر کیا جو بلوچستان کی تاریخ میں جمہوریت کے لیے اولین دستاویز کی صورت اختیار کر گیا۔ کسانوں پر مظالم، حقوقِ ملازمت میں رعایا کشی، نظامِ عدالت میں ابتری، تعلیم کا فقدان اور خزانے کی بربادی کی داستان ہے ،’’ شمس گردی‘‘۔’ مگسی ایجی ٹیشن‘ بھی ان سے وابستہ ہے کہ100 معتبرین کا وفد شمس شاہ کی داستانِ ظلم ، وائسرائے ہند تک لے گیا اور اسے1933ء میں معطل کر دیا گیا۔
امید کے اس راہی نے آل انڈیابلوچ کانفرنس جیکب آباد اور حیدر آباد میں بھی شرکت کی ۔جن کے مقاصد میں بلوچوں کا اتحاد، لازمی تعلیم، حقوق کی حفاظت، مذہبی تعلیم اور آئینی اصلاحات شامل تھے۔ 1933ء میں مگسی صاحب کی دستار بندی ہوئی اور نواب بنتے ہی انھوں نے کیرتھر نہر، کوٹ یوسف علی خان کی بنیاد، ڈسپنسری اسکول، جامعہ یوسفیہ جیسی اصلاحات کیں اور پھر انھوں نے سرداری کو کچلنے کی بات کی۔
ڈاکٹر صاحب نے مگسی صاحب کی تحریروں کے مزیدارٹکڑے کتاب میں شامل کر کے اپنی تحریر کی چاشنی کو بڑھا دیا ،ذرا آپ بھی مزہ لیجیے؛’’ ہندوستان میں مذہب، اچھوت، ہندو، مسلم ، سکھ، عیسائی، شیعہ، سنی وغیرہ کبھی اس کے علاوہ بھی کوئی بات سننے پائی؟ اسیرِ رنگ و بو! غلامِ این و آں! تمہاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ریش مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کودنیا کا بدترین کھلونابنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کر ڈالا۔‘‘
یوسف عزیز صاحب اتنا خوب صورت لکھتے تھے کہ میں تو انھیں ایک بلوچ اردو دان کہوں گی؛ امین کھوسہ کو لکھے گئے ان کے خط کے ایک فقرے کا تو ذرا لطف لیں؛ ’’سچ لکھو کہ ہمیں یاد کرتے ہو؟ کسی کے سر کی قسم جو جھوٹ لکھا ۔‘‘ کس قدر اپنائیت اور محبت بھرا فقرہ ہے یہ۔
’’ میر یوسف عزیز مگسی‘‘ میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب جگہ جگہ ان کی شاعری کا تڑکہ لگاتے ہوئے کتاب کا مزہ دوبالا کرتے ہیں ۔
اخبار کی خبریں نہ سنا مجھ کو پیامی
معشوق کی جانب سے کوئی بات سنا خاص
پھر کہتے ہیں ؛
شعاعِ علم سے روشن کرو تم اپنے سینوں کو
تمھیں ہے ڈھونڈنا اک گمشدہ قومی خزینے کو
فارسی زبان پر مگسی صاحب کی دسترس کا اندازہ ان کے فارسی اشعار سے کیجیے۔
مستی ماند ز صہبا ست نہ ز جام است این جا
بے خبربادہ و پیمانہ کدام است این جا
سفرِ عشق نہ منزل نہ مقامے دارد
رفعتِ عرش در این راہ دوگام است اینجا
بلوچ کاز سے وابستہ، عوام دوست، روشن خیال، غریبوں مزدوروں کا ہم درد، انسان اور انسانیت کی بات کرنے والے اور سرداری نوابی کے بارے میں یہ کہنے والے کہ ’’ مجھے سردار نہ لکھا کریں،خدا نے اس نحوست سے نجات دلا دی ہے‘‘۔ یہ سچا اورسُچا انسان 30 اور 31 مئی1935ء کی درمیانی شب ہونے والے زلزلے میں وفات پا کر بلوچستان کو سوگوار کر گیا۔
اپنی 27 برس کی مختصر سی زندگی میں انھوں اتنے زیادہ اور اہم کام کیے کہ یوں لگتا ہے کہ انھوں اپنی زندگی کا ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ اللہ ہمیں بھی ان کی پیروی کرنے کی توفیق دے۔
ایک زبردست لکھنے والے کی زبردست شخصیت پرایک خوب صورت اور مکمل تحریر ۔۔۔ ضرور پڑھئے آپ بے لطف نہیں ہوں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے