بلوچستان کی سرزمین خوش قسمت ہے کہ اسے یوسف عزیز مگسی ایسا فرزند ارجمند نصیب ہوا اور یوسف عزیز مگسی بھی خوش بخت ترین تھا کہ اسے بھی اس گل زمین کے عوام کی خدمت کا موقع ملا۔ نواب قیصر مگسی کے گھرانے میں 1908ء میں جھل مگسی میں پیدا ہونے والے یوسف عزیز مگسی کو مستقبل میں بلوچستان کی نامور شخصیات کے جھرمٹ میں نمایاں مقام پانا تھا۔( اس نے عربی ، فارسی، اردو اور انگریزی کی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی ۔ 1923ء تا 1927ء اس نے اپنے والد کے ہمراہ ملتان میں جلاوطنی کی زندگی گزاری ۔ )
یوسف عزیز مگسی کا زمانہ بیسویں صدی کے طلوع کا دور تھا۔ وہ جنگ عظیم اول کا دور تھا ۔ وہ بالشویک انقلاب کا عہد تھا۔ وہ روس میں اور دنیابھرمیں لینن کا دور تھا۔ اسی زمانے میں بین الاقوامی وقومی افق پر بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ، بڑی بڑی شخصیات منظر عام پر آئیں۔ عالمی سرمایہ داری نے اکیسویں صدی کے آخری عشرے سے لے کر بیسویں صدی کی اولیں دہائی تک سامراجیت کا بھیانک روپ دھار لیا ۔ جو اپنے ساتھ کئی تضادات او رتصادم لے کر آئی۔ بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں کے مابین خطرناک قسم کی رقابتوں نے جنم لیا ۔ ان قوتوں کے درمیان نو آباد یاتی منڈیوں کی تقسیم کا جھگڑا روز افزوں بڑ ھتا گیا۔ جس نے بالآخر 1914ء میں جنگ عظیم اول کی شکل اختیار کرلی۔ اس جنگ نے یورپ کی سرزمین کو خون کے سمندر میں ڈبودیا۔ اس جنگ کے اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوئی ۔ایران ، افغانستان بلوچستان اور متحدہ ہندوستان بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔یہاں برطانیہ نے اس جنگ میں جھونکنے کے لیے غریب کسانوں اور مزدوروں کی فوج میں بھرتی کی مہم شروع کی ۔ بلوچستان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ انگریزی حکومت نے بلوچستان میں بھی مفلس بلوچوں کو جنگ عظیم کا ایندھن بنانے کے لیے فوج میں بھرتی کی مہم کا آغا ز کیا، جس کے خلاف بلوچوں میں ایک زبردست قسم کی مزاحمت نے سراٹھایا ۔ جس کا بھر پور اظہار رحم علی مری کی خوب صورت مزاحمتی شاعری میں ہوا۔ اس دور میں بلوچستان عالمی سرمایہ داری سے منسلک ہوا۔ جس کے نتیجے میں اس کے دیہی خود کفیل ادارے شکست وریخت کا شکار ہونے لگے ۔ برطانوی حکومت نے یہاں ریلوے ، ٹیلی گراف ، بینک، جدید مسیحی انگریزی تعلیمی ادارے ، دفاتر ، مسیحی ہسپتال وجو دمیں لائے ۔ ان اداروں کی تاسیس کے ساتھ ساتھ بلوچوں کی اجنبیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ لہذا بلوچوں میں برطانوی سامراج کے خلاف دو قسم کے مزاحمتی رحجات پیدا ہوئے ۔مسلح اور قلمی۔ چاغی کے علاقے میں گل بی بی نے اور مشرقی بلوچستان میں نواب خیر بخش مری اول مصری خان کھیتران نے برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جدو جہد کی اور دوسرا مزاحمتی رجحان تھا قلمی۔اس کا اظہار ملا مزار بدوزئی کی( چار زبانوں (بلوچی، براہوئی، سندھی اور اردو) میں )نظم ’’لاٹِ بگھی‘‘ میں ، رحم علی مری کی مزاحمتی شاعری اور مکتبہ درخانی کی قلمی جدو جہد میں ہوا۔
اسی دوران روس میں اکتوبر 1917ئمیں مزدوروں اور کسانوں نے لینن کی بالشویک پارٹی کی زیر قیادت اشتر اکی انقلاب برپا کردیا ۔ جس نے دنیا بھر میں عالمی محنت کش تحریک کو مہمیز دی ۔ نیز اس عظیم انقلاب نے اقوام مشرق کی جمہوری تحریکِ آزادی کو بھی نیا ولولہ دیا۔ بلوچستان میں اس انقلاب کے گہرے اور دورس اثرات مرتب ہوئے ۔ یہاں اس انقلاب کا بہت گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ 1920ء میں میر عبدالعزیز کرد نے ینگ بلوچ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی ، جو آگے ارتقاء پزیر ہو کرانجمن اتحادِ بلوچاں کی صورت اختیار کرگئی ۔ اس میں یوسف عزیز مگسی نے شامل ہوکر اپنا بھر پور ، موثر اور متحرک سیاسی کردار ادا کیا ۔ اس نے البلوچ ، ’’ترجمان بلوچ، اتحادبلوچاں ،’’ بلوچستان جدید ‘‘ ، ’’زمین دار‘‘، انقلاب اور آزاد لاہور ایسے اخبار کی سرپرستی کی اور ان میں قلمی تعاون کیا ۔ مزید براں اس تحریک نے برطانوی سامراج کے خلاف قلمی جنگ وجدو جہد کے ساتھ ساتھ ریاست قلات پر قابض حکمرانوں خصوصاً وزیراعظم شاہ شمس کے خلاف اور جاگیرداری وسرداری نظام کے خلاف نظریاتی وعملی جدوجہد کی ۔اس میں میر عبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی ، محمد حسین عنقا، نسیم تلوی، محمد امین کھوسہ، اسلم اچکزئی ، اور عبدالصمد خان اچکزئی ایسے سامراج دشمن اورترقی پسند دانشور شامل تھے ، جنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی ، جاگیر داری اور سرداری نظام کے خلاف مزاحمت وبغاوت میں نظریاتی وعملی طور پر بہت موثر کردار ادا کیا ۔علاوہ ازیں انہو ں نے مفلس بلوچوں میں قومی وطبقاتی شعور بھی پیدا کیا۔
اس تحریک کے اکثر ارکان ہندوستان کی تحریک آزادی ، بالشویک انقلاب اور مارکسزم سے بھی متاثر ہوئے۔ انہوں نے آگے جاکر مارکسز م کو ہی برطانوی سامراج ،جاگیرداری اور سراداری نظام سے بلوچوں کی نجات کا نسخہ کیمیا قرار دیا ۔ اس وقت برصغیر کے افق پر انڈین نیشنل کا نگریس نے تحریکِ آزادی کا علم بلند کیا ۔ کیوں کہ اس وقت تک وہ بہت سی کیفیتی وکمیتی تبدیلیوں سے دوچار ہوئی ۔( اس میں بال کنگا دھرتلک ، بپن چندر اور لاجپت رائے نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کا پرچم بلند کیا ۔) بلوچستان کا نگریس کی تحریک آزادی سے براہ راست متاثر ہوا۔ یوسف عزیز مگسی اس وقت تک ملتان میں اپنے والد کے ساتھ جلا وطن تھا۔ وہاں اس نے جواہر لال نہرو، گاندھی، مولانا ابو الکلام آزاد، حسرت موہانی اور احمد حسن مدنی کے نظریات کا گہرا مطالعہ کیا ۔ یہ وہ دور تھا جب کا نگریس ، مسلم لیگ ، جمیعت العلما ء ہند کے ساتھ ساتھ انڈین کمیونسٹ پارٹی بھی منظم ہوچکی تھی ، جس کی راہنمائی میں مزدور ٹریڈ یونینیں ، کسان سبھائیں اور دیگر عوامی و ادبی تحریکیں بھی وجود میں آچکی تھیں۔ یوسف عزیز مگسی ان سب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
برطانوی سامراج جو جنگِ عظیم اول میں الجھا ہواتھا، اس نے جب ہندوستان کی طرف دیکھا تو اسے آزادی اور انقلاب سے بے حد خطرہ محسوس ہوا۔ لہذا اس نے ہندوستان میں ظلم وتشدد کے ذریعے آزادی اور انقلاب کی تحریکوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ1919ء میں جلیا نوالہ باغ میں تحریکِ آزادی کے انقلابی کمیونسٹ رہنما بھگت سنگھ اور اس کے کامریڈ وں کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔اس وقت ہندوستان میں 125000مزدوروں کی بڑی ہڑتال ہوئی ۔ 1920ء میں تحریک خلافت اور عدم تعاون کا آغاز ہوا۔ گاندھی جی نے چرخہ کا تنا شروع کیا اور عدمِ تشدد کا مجہول فلسفہ پیش کیا۔1923میں برطانوی حکومت نے مجبوراً مراعات کی پیش کش کی ۔ گاندھی نے عوامی تحریکِ مزاحمت کو دبا دیا ۔ 1923ء تا 1927ء کا دور امن ، صلح جوئی اور آئینی تبدیلیوں کا عہد تھا۔ جنگِ عظیم اول کے برسوں میں لنکا شائر ، برمنگھم اور لیور پول کی صنعتی مصنوعات ہندوستان میں نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ لہذا برطانوی سامراج خوف زدہ تھا کہ کہیں ہندوستان کی منڈی جاپان کے ہاتھوں میں نہ چلی جائے ۔ لہذا اس نے ہندوستان میں صنعتی ترویج کی حوصلہ افزائی کی ۔ اکثر شہروں میں گھریلو صنعت کی جگہہ کارخانوں اور ملوں کی مشینیں دند نانے لگیں۔ کیونکہ برطانوی سامراج کو اپنی جنگی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ، تحریک آزادی اور سوشلسٹ انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ہندوستانی کارخانہ دار طبقے کے تعاون اور مدد کی ضرورت تھی۔اس طرح ہندوستانی بورژوازی ارتقا کے نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
اس کے ساتھ ساتھ پرولتا ریہ طبقہ بھی تعداد میں بڑھ گیا اور محنت کش تحریک بھی اپنے ارتقائی سفر میں بہت سے مراحل طے کر گئی ۔ مظفر احمد گھاٹے نے کانگریس کے اجلاس میں مکمل آزادی کی تجویز پیش کی ۔ جب کہ گاندھی نے اس کی بھر پور مخالفت کی ۔ جواہر لا ل نہرو اور بابو سبھاش چندر بوس نے گانگریس میں بائیں بازو کی سیاست کو متعارف کروایا۔ 1928میں دیگر بائیں بازو کے دانشوروں نے کانگریس کے اجلاس میں کمیونسٹ منشور کو کامیابی سے پاس کروالیا۔ گاندھی نے آل پارٹیز کانگریس بلا کر اس منشور کی بھی بھر پور مخالفت کی۔
اس دوران برطانوی استعماریت کے خلاف تحریک آزادی میں ہندومسلم فرقہ وارانہ نظریاتی جنگ بھی اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ نیز اس عہد میں طبقاتی الجھن،رجعت پسندی ، انار کزم ، ناپختہ قوم پرستی ،آزادی اور کمیونزم کے نظریات ہندوستان بھر میں تیزی سے بڑھنے اور پھیلنے لگے ۔ یہی سارے تضادات علامہ اقبال کی فنی وفکری شخصیت میں مجتمع ہوگئے ۔اس کی فارسی اور اردو شاعری میں ان سب نظریاتی تضادات کا اظہار ہوا۔کیوں کہ اقبال ان نظریاتی تضادات سے گلوخلاصی نہ کرسکا۔ اس کی شاعری اور فکر میں روما نویت پسند جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ اس نے جاگیر داری ، سرمایہ داری اور برطانوی استعماریت کی شدید مخالفت کی ۔محنت کشوں اور کسانوں کے معاشی حقوق کی وکالت کی ۔ سوشلزم اور بالشویک انقلاب کی ثنا خوانی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ خودی ، وجدان اور پان اسلام ازم کے رجعت پسند فلسفے کا بھی پرچار کیا۔ اقبال کی شاعری ہندوستان بھر میں بڑی شدو مد سے عوام میں مقبولیتِ عوام پاگئی ۔ اس سے ہر مکتبہ فکر نے اپنے اپنے انداز میں اثر پزیری کی۔
یوسف مگسی بھی اقبال سے بے حد متاثر ہوا۔ اس نے اقبال کے رنگ میں اردو اور فارسی میں شاعری شروع کی ۔ اس کی شاعری میں سامراج دشمنی ،جاگیرداری اور سرمایہ داری کی مخالفت کے ساتھ ساتھ وہ سارے نظریاتی تضادات موجود تھے ۔جو اقبال کی شاعری میں پائے جاتے ہیں۔ یوسف عزیز مگسی نے بھی تمام سماجی ، سیاسی قومی اور طبقاتی مسائل کا حل پان اسلام ازم میں پایا۔ اس کی شاعری میں قوم پرستی پان اسلام ازم کی وکالت، پیر ، ملا ، جاگیر دار، سرمایہ دار اور برطانوی سامراجیت کی مخالفت پائی جاتی ہے مثلاً اس کے مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ فرامایئے۔
ہوئی حق کی خلافت تم کو عطا ء مایوس نہ ہو، اٹھ ہمت کر
پھر نعرہِ باطل سوز سے تو دنیا کو جگا اٹھ ہمت کر
وہ زیب عرب وہ فخرِ عجم روتا ہے تمہاری غفلت پر
اٹھ تھام لے باگیں دنیا کی ، غازی کہلا اٹھ ہمت کر
ایک ہاتھ میں نیزہِ ایوبی ، اک ہاتھ میں سیف خالد ہو ؂
مشرق بھی ترا، مغرب بھی ترا، اللہ کے لیے اٹھ ہمت کر
آلات حرب کے فقداں سے اور سیم وزر کے کتماں سے
مایوس نہ ہو، اللہ پر رکھ، اللہ کو پکار اٹھ ہمت کر
بے وقت عجب امت پہ پڑا ، تاخیر کے معنی موت کے ہیں
تاخیر نہ کر ، تعمیل سے اُٹھ ، ایمان سے اٹھ ، اٹھ ہمت کر
تجھے سیم وزر سے واسطہ کیا، اور توپ مشینوں سے کیا کام
تکبیر سے اٹھ ، تبلیغ سے اٹھ شمشمیر سے اٹھ ، اٹھ ہمت کر
معمور گناہوں کی دنیا کسی مرد خد اکی تاک میں ہے
اے ارضِ خدا کی قوت اٹھ ، دنیا کو سنوار ، اٹھ ہمت کر
اس عالم رنگ وجومیں اگر آئی ہے خزاں تو خیال نہ کر
کراور دنیا تعمیر جہاں ، معمار جہاں، اٹھ ہمت کر
بدیوں کے سلا سل کی کڑیاں اندر سے تویہ سب کھوکھلی ہیں
بس اک ضرب تکبیر کی پھراے سیف خدا، اٹھ ہمت کر
فاروقی سطوت لے کر اٹھ اور خالد کی پھر سیف بھی تھام
اے نائبِ حق فتنے کو مٹا، فتنہ ہے بڑا، اٹھ ہمت کر
تقدیر کا رونا یہ کب تک ، تقدیر تمہاری خادم ہے
تو اپنے لیے اک نئی تقدیر بنا ، اٹھ ہمت کر
تو مورث ابراہیم کا ہے ، پھر آذر کی تقلید ہے کیوں
بت توڑ خدا سے جوڑ کہ تو ہے عبد خدا، اٹھ ہمت کر
تو فرزند تو حید ہے ، توحید پہ کٹ ، توحید پہ مر
سر مایہ ترا ، سامان ترا ہے ذاتِ خدا، اٹھ ہمت کر
اعلون ہے تو ، یر شرط ہے یہ ایماں کی شعائیں پیدا کر
اور دل کو امنگوں سے گرما ، اے حزب خدا، اٹھ ہمت کر
یوسف عزیز مگسی کی نثر بھی اقبال کی رومانویت پسندی سے عبارت ہے ۔اس نے نومبر 1929میں اخبار مساوات لاہور میں ’’فریاد بلوچستان‘‘کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا، جس میں بلوچستان کی معاشی بد حالی، سیاسی پس ماندگی ، غلامی اور بے تعلیمی کو تفصیل سے بیان کیا ۔ اس مضمون میں بلوچوں کو غلامی کا طوق اتار پھینکنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اور انہیں اپنی سماجی تشکیلِ نو کا پیغام دیا گیا ہے ۔ یوسف عزیزمگسی نے ’’شمس گردی ‘‘ کے زیر عنوان ایک کتابچہ بھی لکھا جس میں ریاست قلات کے نا اہل اور ظالم وزیراعظم شاہ شمس کے ظلم وستم پر کڑی تنقید کی گئی ہے ۔ شاہ شمس نے ریاستِ قلات کے غریب بلوچ عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی تھی۔ عدالتی نا انصافیاں اپنے عروج پر تھیں ۔ بد عنوانی اور رشوت کا بازار گرم تھا۔ تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ۔سکول اور ہسپتال ناپید تھے ۔ یوسف عزیز مگسی نے ان سب کی تفصیل بہت خوب صورت پیرائے میں بیان کردی، اس نے ایک افسانہ تکمیل انسانیت کے عنوان سے بھی تحریر کیا، جو ایک شاھکار کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس کی اس دور کی نثری تحریروں میں بلوچ قوم پرستی، ہندوستان کی تحریک آزادی کا نظریہ اور پان اسلام ازم کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے ۔
یوسف عزیز مگسی نے 20اکتوبر1932 میں بلوچستان اور آل انڈیا بلوچ بلوچ کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ دسمبر 1932میں جیکب آباد میں یہ کانفرنس بڑی کامیابی سے منعقد کی ۔ اس نے اس کے بعد ایک اور کانگریس نومبر 1993میں بھی حیدر آباد میں منعقد کی ۔ اس عہد تک وہ پان اسلام ازم اور اقبال کی فکر کے اثرات کے زیر اثر تھا۔ اس نے اپنے نام کے ساتھ نواب کو ختم کردیا اور اس نے اپنے علاقے میں بہت سے انقلابی اقدام کیے۔اور اصلاحات کیں جس میں کیر تھر نہر ، کوٹ یوسف علی خان شہر کی تعمیر شامل ہیں۔اس نئے شہر میں ڈسپنسری ، سکول اور جامعہ یوسفیہ کی تاسیس بھی یوسف عزیز کے کارہائے نمایاں میں شامل ہیں۔
1934میں برطانوی سامراج نے اس کی سامراج دشمنی کی وجہ سے یوسف علی مگسی کو انگلستان جلا وطن کیا۔ وہاں جاکر وہ کارل مارکس کی تصانیف سے روشناس ہوا۔ کارل مارکس ، جس کا یوم پیدائش بھی 5مئی میں ہے اور آج اسی مناسبت سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز محنت کشوں کا عالمی دن یکم مئی،یوسف عزیز مگسی ، سوبھوگیان چندانی ، گل خان نصیر اور ماما عبداللہ جان جمالدینی کے ساتھ اس کا دن منارہی ہے ۔ یوسف عزیز مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’’کیپٹل ‘‘ سے بے حد متاثر ہوا اتنا کہ اس نے اپنے ساتھیوں خصوصاً محمد امین کھوسہ کو تحریری مشورہ دیا کہ اس کتاب کا مطالعہ کرے اور اس نے اسے یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ جان ریڈ کی کتاب ’’دنیا کو جھنجوڑ دینے والے دس دن ‘‘ کا بھی مطالعہ کرے ۔ وہ ماکسزم سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ ریلوے مزدوروں کی یونین بنانا چاہتا تھا۔ یوسف عزیز کا انگلستان میں قیام مختصر تھا ۔ وہ وہاں سے سویت یونین جانا چاہتا تھا تاکہ وہ محنت کشوں کے سرخ سویرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے ۔ لیکن برطانوی سامراج نے اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ لیکن یوسف عزیزانگلستان جاکر اقبال کے پان اسلام ازم کے سحر سے آزاد ہوگیا اور اس نے مارکسزم کا اپنی قوم کی قومی اور طبقاتی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔
انگلستان میں قیام کے دوران یوسف عزیزنے عورتوں کی آزادی وخود مختاری کو دیکھا اور عورتوں کے حقوق کا چیمپین بن گیا ۔ کیوں کہ مارکس اور اینگلز کی تصانیف نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ یورپ اور امریکہ میں عورتوں نے مارکس اور اینگلز کے نظریات کے ذریعے اپنے جزوی حقوق حاصل کرلیے تھے اور وہ مشرق کی عورتوں کی نسبت بہت زیادہ آزاد،خودمختار، تعلیم یافتہ اور باشعور تھیں۔ کیونکہ مارکس نے لکھا تھا دنیا کا کوئی سماجی انقلاب عورتوں کی شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مارکس اور اینگلز نے عورتوں کی نجات کو محنت کی نجات سے بھی مشروط قرار دیا تھا۔مارکس کی صاحب زادی الینور مارکس نے women in questionکے عنوان سے مضمون لکھ کر اس نکتے کو مزید وضاحت سے بیان کیا۔آگسٹ بیل نے Socialism and womenکے عنوان سے کتاب لکھی۔ جس میں محنت کش خواتین کی جدو جہد کو سوشلزم کی جدو جہد کا حصہ قرار دیا ۔ کلار از ٹیکن نے محنت کش خواتین کی تحریک کو اس نکتہ عروج تک پہنچا دیا کہ 8مارچ کو عالمی خواتین روز قرار دیا گیایہی 8مارچ تھا ، جب 1917میں روسی محنت کش خواتین نے اپنا عالمی دن منانے کے لیے جلسے ، جلوس ، مظاہرے اور ہڑتالیں کیں اور بالشویک انقلاب کا آغاز ہوگیا۔ واضح رہے کہ مارکس کی مذکورہ بالا پیشین گوئی کے مطابق یہ انقلاب عورتوں کی شرکت سے کامیاب ہوا۔ کیوں کہ اس کی ابتدا حوا کی بیٹیوں نے کی آدم کے بیٹوں نے نہیں !بالشویک انقلاب کے بعد روس میں خواتین کو حقوق ملے ۔
یوسف عزیز مگسی ان سب باتو ں سے واقف ہوا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ بلوچ عورت کی نجات بلوچوں کی قومی وطبقاتی نجات سے مشروط ہے ۔ انگلستان سے واپسی پر 31مئی 1935میں کوئٹہ کے زلزلے میں یوسف عزیز مگسی کا انتقال ہوگیا۔ وہ مرگیا مگر اس کی فکر اور جدو جہد آج بھی زندہ ہے ، جو گل خان نصیر کی فکر اور جدوجہد میں بالغ ہوئی ،لٹ خانہ کے احباب کی فکر وجدوجہد میں عروج پر پہنچی اور اب سنگت اکیڈمی آف ساننسز کی شکل میں ارتقاء پذیر ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے