جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھنچتی ہے
یہ تیرے خواب تلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

گر تو دِکھ جائے تو مڑ مڑ کے تجھے دیکھتا ہوں
تیری اک اور جَھلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

دوڑ پڑتا ہوں میں ہر بار سرابوں کی طرف
یہ تمنّا کی دھنَک کیسے مجھے کھینچتی ہے

پاک رخسار نے چکّھا نہ کبھی غم کا نمک
تیری نم ہوتی پلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

میں سرِ شام ہی اس سمت نکل جاتا ہوں
ایک سنسان سڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے

میرا دل چاہتا ہے جا کے بکھر جاؤں وہاں
تیرگی سمتِ فلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

کس قدر کھینچتا ہوں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
پھروہ رشتے کی لچک کیسے مجھے کھینچتی ہے

موت کے ہاتھ میں ہیں میری طنابیں اسود
دل یہ جاتا ہے دھڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے