یوسف عزیز مگسی کے لکھے ہوئے طبع زاد اور سرگزشتی واحد افسانہ ’’ تکمیلِ انسانیت ‘‘ کے بارے میں ہم نے بہت پڑھ اور سن رکھا تھا ۔ مگر یہ کہیں دستیاب نہ تھا۔ اس افسانہ کی بھلا کسے تلاش نہ تھی۔ عبداللہ جان جمالدینی کو، خدائداد کو،کمال خان کو۔۔۔۔۔مگراس نے درشن کسی کو بھی نہیں کرائے۔ جس سے پوچھو کہتا ہے : ’’سناہے مگر دیکھا اور پڑھا نہیں‘‘۔سب کہتے تھے کہ ’’بہت زمانہ پہلے یہ کسی رسالے میں چھپ چکا تھا‘‘۔ گذشتہ83 سالوں سے یہ افسانہ ’’ انڈر گراؤنڈ ‘‘ ہوگیاتھا۔ سندھ و ہند میں کسی بھی آرکائیوسٹ کے ذخیرے میں موجود نہ تھا۔
ہمارے قبائل میں رواج ہے کہ اگر آپ کا دنبہ یا بکرا گم ہو جائے تو خاموش نہ رہنا۔ ہر شخص، ہر راہی سے پوچھتے رہنا۔ خلقِ خدا سے کوئی چیز دیر تک چھپی نہیں رہ سکتی۔ مویشی بچھڑ کر یا تو کسی دوسرے کے ریوڑ میں چلا گیاہوگا تب بھی پتہ چل جائے گا، چوری ہوا تو بھی عوام الناس سے خفیہ نہیں رہ سکے گا۔ اور اگر اُسے بھیڑیا کھا گیا ہو تو بھی اُس کی کھال، اوجھڑی کا سراغ مل جائے گا۔
ہم نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔ اورچنانچہ،ابھی چند روز قبل پرانے مسودات کے ایک عاشق شوکت ترین نے ہم سب کا یہ مسئلہ حل کردیا۔اس نے ہفت روزہ ’’ بلوچستانِ جدید ‘‘ کراچی کے یکم مارچ 1934 سے لے کر 28جولائی1934 تک کی پوری فائل جلد شدہ صورت میں ہمیں عطیہ کردی۔ اسی جلد میں تو وہ خود گزشت ،افسانہ موجود تھا جس کی تلاش میں ہم جیسے کئی لوگ مار ے مارے پھر رہے تھے۔
یکم مئی1934کو ہفت روزہ ’’ بلوچستانِ جدید‘‘ کراچی میں اس کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ اور اگلی تین قسطیں لگاتار ہرہفتہ چھپتی رہیں۔ چار قسطوں پر مشتمل افسانہ۔ اس ویکلی کا ایڈیٹر ہمارے سبی کے قریبی گاؤں تلی کا پیر بخش نسیم ( نسیم تلوی) تھا جبکہ محمد حسین عنقااس کا معاون تھا۔
اُس زمانے کی اردو اچھی خاصی مختلف تھی۔ اس میں پروف کی غلطیاں بھی خوب ہیں۔ دیے گئے اشعار اور مصرعے الٹ پلٹ ہیں۔ کہیں کہیں الفاظ دھندلے ہیں پڑھنے میں نہیں آتے مگر اس سب کے باوجود تحقیق کرنے والی ارواح کے لیے یہ ایک زبردست چیز ہے۔اسی طرح تاریخ سے دلچسپی لینے والوں، سیاست دانوں ، حتیٰ کہ عام عوام کے لیے ’’تکمیلِ انسانیت ‘‘بہت اہم دستاویز ہے۔بالخصوص جو لوگ میر یوسف عزیز مگسی کے بایوگرافر ہیں یا بننا چاہتے ہیں اُن کے لیے تو یہ بہت ہی کارآمد تاریخی رسورس ہے۔ ایسا جس کے نہ ہونے سے مگسی کے بایوگرافروں سے اچھی خاصی غلطیاں ہوتی جارہی تھیں۔ اس لیے کہ چار قسطوں پر مشتمل یہ افسانہ دراصل یوسف عزیز مگسی کی اپنی سرگزشت تھا۔ مذہبی جذبات سے سرشار یوسف عزیزمگسی نے خود اپنی تعلیم و تربیت اور بعد ازاں اپنی سیاسی زندگی کے ایک مختصر حصے کا تذکرہ افسانے کے انداز میں کیا۔ ریاستِ قلات کے ڈکٹیٹر اورلٹیرے وزیراعظم شمس شاہ اورمگسی صاحب کے بڑے سوتیلے بھائی گل محمد خان اِس افسانے کے مین کردار ہیں، جنہوں نے مگسی صاحب پہ جو رو ستم کے گراں پہاڑ گرادئے تھے۔
ہم اِس ماہ کا رسالہ اسی نایاب افسانے ’’ تکمیل انسانیت‘‘ ایڈیشن کے بطور شائع کررہے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے