والے جارج لیونارڈ نے افریقہ کے صحرا میں ریت سے بنتے ٹیلوں میں بھی، اور اِن ٹیلوں کوSilent Puls دوسری جگہ منتقل ہونے میں بھی ریت سے پیدا ہونے والی زبردست موسیقی ریکارڈ کی۔ آپ کبھی گرمیوں کی ایک دوپہر پتوں بھرے کسی سایہ دار درخت کے نیچے گزاریے اور ہوا کے کندھوں پہ سوار پتوں کی تھرتھراہٹ گنیے ، یا پھرکُنڈ ملیر کے خاموش ساحل پہ جاکر’’ رقصاں مالیکیولوں‘‘ سے بنے پانی کی موجوں کا رقص دیکھیے۔
گبرئیل روتھ نے کہیں لکھا ہے کہ بہت سارے سائیبیریائی ’’ شابانی‘‘ مذہب کے معاشروں میں اگر طب سے وابستہ کوئی شخص کسی سے یہ شکایت سنے کہ وہ مایوس ہے، دل شکستہ ہے، یا اُداس ہے ، تو وہ اس سے اِن چار میں سے ایک سوال پوچھتے ہیں :تم نے رقص کر نا کب بند کیا ؟۔ تم نے گانا گانا کب سے بند کیا ؟۔ تم نے کہانیوں سے سحر زدہ ہونا کب بند کیا ؟۔ تم نے خاموشی کے شیریں علاقے میں سکون تلاش کرنا کب بند کردیا ؟۔
اب یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ’’ کائنات محض رقص ہے‘‘۔
خود انسانوں میں بھی ایک عمر تک رقص ایک سرگرمی نہیں ہوتی بلکہ محض جبلی حرکت ہوتا ہے۔ مثلاً پیدائشی رقص کے لیے بنی نوع انسان کا دو پاؤں پر کھڑا ہونے کی عمر بھی لازمی نہیں ہوتی اس لیے کہ رقص تو اس سے قبل آن موجودہوتاہے۔ بے شعور، یا کم شعور بچے بولنے سے پہلے پنگھوڑے ہی میں رقص کررہے ہوتے ہیں۔
جارج لیونارڈ ایک اور موسیقی بھر ے رقص کا تذکرہ اِس سے بھی کم عمری میں کرتا ہے۔ وہ ہے ماں کا پیٹ ۔ جہاں بچہ کائنات میں سب مظاہرسے قبل ماں کے دل کے رقص بھرے ڈھولک کو سنتا ہے۔ دراصل اُس کا وجود ہی اس ڈھولک پہ منحصر ہوتا ہے۔ یہ ڈھولک موجود تو زندگانی موجود ، خوراک آکسیجن۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کا دل خود بھی ماں کے دل کا شکریہ ادا کرنے کا رقص کرنے لگتا ہے۔ زندگی زندگی سے روشنی لیتی ہے۔یہ ردھم ،ماں اور رحمِ ماں تو کیا، پوری دنیا کی ہر چیز میں موجود ردھم سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے ۔لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ انسان نامی جاندار پیدائشی رقاص ہے۔
تہذیب انسانی نے جب اپنے محسوسات کوبیان کرنا شروع کیا، تو اس کے اظہار کے ابتدائی مراحل میں ایک مرحلہ رقص کا تھا ۔ جب وہ خوشی محسوس کرتے ، تو رقص کے ذریعے اس جشن کو مناتے ۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے اب یہاں تک آپہنچا ہے کہ دنیا کے ہرخطے کے لوگ اپنے علاقائی رنگ میں ڈوب کر رقص پیش کرتے ہیں ،جس میں ان کی ثقافت ، معاشرت اور محبت پنہاں ہوتی ہے ۔
رقص کے لیے بنیادی تقاضہ لَے اور تال کا ہونا ہے۔اور کائنات میں کونسی ایسی شئے ہوگی جس میں ردھم نہ ہو، جس میں غنائیت نہ ہو، حرکت نہ ہو؟۔ایک ایک سیارہ ستارہ رقص میں، سمندر کی لہریں رقصاں، پھولوں کی پتیاں پھول عالمِ وجدمیں ، پرندے بولتے اڑتے رقص میں ، جنگل کے جانوروں کا چرنا کودنا جگالی کرنا سب موسیقیت میں، رقص میں، سمندر میں مچھلی بن رکے مستقل رقص میں ۔ حتیٰ کہ خود بگ بینگ ہی بے سُرانہ تھا۔۔۔۔۔۔ عالمِ ہستی رقص میں ،ارفع ترین رقص میں ۔
مہر گڑھ تہذیب میں رقص و شادمانی کی تقاریب کے آثار ملے ہیں۔موہن جوداڑو میں ڈ انسنگ گرل موجود تھی۔ موہن جو داڑو کی طرح ٹیکسلا اور ہڑپہ بھی تہذیبی مراکز تھے ۔
رقص کو پیش کرنے کے تین مرکزی انداز ہیں۔ ایک رقص کا انداز تو وہ ہوتا ہے ، جس میں فرد واحد اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ دوسرا انداز وہ ہے ، جس میں ایک جوڑا یعنی مرد عورت مل کر رقص پیش کرتے ہیں ، جب کہ تیسرے انداز میں اجتماعی طور پر بہت سے افراد مل کر رقص کرتے ہیں۔
ہر رقص اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے ۔ رقص کے انداز تو اپنی جگہ مگر دنیا بھر میں ہر خطے میں اسے اپنے علاقائی رنگ میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے۔
امریکااور یورپی ممالک میں ’’بیلے ڈانس ‘‘ بھی بہت مقبول ہے اس کے علاوہ جدید رقص کے نام سے کئی طرز کے رقص اکیسویں صدی میں متعارف ہوئے ہیں، جنہیں فلموں ، میوزک ویڈیوز ، کانسرٹس اور تھیٹرمیں پیش کیا جاتاہے، راک اینڈرول ، بریک ڈانس، ہپ ہاپ، سوئنگ ، جاز، ڈسکو، ٹیپ اور دیگر طرح کے ڈانس نے بھی مختلف ادوار میں شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیا، آج بھی یہ رقص عوام الناس میں مقبول ہیں۔
رقص کی ساری صورتوں، قسموں اور جہتوں کا مجموعی نام ’ ’ چاپ‘‘ ہے ۔ کچھ لوگ اسے ’’ دھریس‘‘ بھی کہتے ہیں۔
پورا بلوچ فوک رقص یک نفری نہیں ہوتا۔ ہمارے رقص ہمارے کام کی طرح اجتماعی ہوتے ہیں۔ چاپ میں حرکات و سکنات موسیقی پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ موسیقی رقص پہ ابھارتی بھی ہے اور رقص بذاتِ خود موسیقی پیدا بھی کرتا ہے۔ بہت ہی جدلیاتی انداز میں۔
آپ زمین کی گولائی پر اِس بات کومنطبق کر پائیں یا نہیں لیکن یہ غور طلب بات ہے کہ رقص گول ہوتا رہا۔
فوک ڈانس ہمارے قبائلی عوامی طرزِ زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ سادہ، اور خودرو،۔۔۔۔۔۔ بلوچ کے پاس فوک رقص کا عظیم خزانہ موجود ہے۔
ہر معاشرے کی طرح بلوچ بھی ہنسی کے لیے رقص کرتا ہے، اشکوں کے لیے، پاگل پن کے لیے، خوف کے لیے ، امید کے لیے، آہ وزاری کے لیے ،وجدان کی کیفیت پیدا اور برقرار رکھنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ نڑ سُر میں ’’ پیرانی دستان‘‘ سنتے ہوئے، کسی فلاسفر بزرگ کے عرس میں شریک ہوتے ہوئے ، اپنی ذات کی نفی کے لیے، نفی کی نفی کے لیے، اثبات کے لیے ، اپنی ذات کی اثبات کے لیے، دوسرے کے وجود کی اثبات کے لیے ۔۔۔۔۔۔ انسان بحیثیتِ نوع آرٹسٹ ہے۔
سرگرمی، شعور کا سب سے لازمی ساتھی ہوتی ہے، جو سبب بھی ہوئی ہے اور نتیجہ بھی ۔ اور شعور صرف انسان کے پاس ہوتا ہے۔ جانوروں، مشینوں اور کمپیوٹروں کے فنکشنوں ، حرکتوں کو ہم اس لیے سرگرمی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ساری جبلی حرکتیں اور فیڈکردہ امور کی انجام دہی شعور کے بغیر ہوتی ہیں، ذہن کی شمولیت کے بغیر ہوتی ہیں۔چنانچہ،حیاتیاتی دنیا میں خواہ گھوڑے نا چیں یا اونٹ، مگر رقص صرف انسان کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ شعور جوہوتا ہے ! ۔ہم سب جانتے ہیں کہ جانور بھی رقص کرتے ہیں۔ مور کا ناچ، سانپ کا رقص، ہاتھی کا رقص، کبوتر۔۔۔۔۔۔ بے شمار جانور رقص کرتے ہیں ۔ ہاں،ا لبتہ فرق یہ ہے کہ وہ زیادہ تر جبلی جنسی جذبہ میں ایسا کرتے ہیں۔ لیکن انسان محض جبلی جنسی سبب سے نہیں ناچتا۔
رقص آرٹ کی ایک حسین صورت ہے۔ یہ اپنے اندر بے پناہ قوت رکھتا ہے۔ اس میں شخصی کے ساتھ ساتھ اجتماعی سطح پر ایک تبدیلی لانے کی قوت موجود ہے۔
انسان چونکہ محض جبلت والا نہیں بلکہ شعور والا جاندار بھی ہے اس لیے رقص سے شعور کو بھلا کون الگ کرسکے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ جبلت کو ہم سے منہا کردیا جائے ۔ بے شعور بچہ بھی تو پڑے پڑے روشنی ، رنج ، قصہ کے جذبات تلے بے اختیار خاص رقص قسم کی حرکتیں کرتا ہے۔رقص انسانی فطرت میں شامل ہے، انسان کی سرشت کا حصہ ہے۔
آرٹ کے ہر شعبے کی طرح رقص بھی معاشرے کی پیداوار ہوتا ہے۔ کسی بھی رقص کو دیکھ کر تعین کیا جاسکتا ہے کہ وہ سماج کونساہے۔
انسانی شعورِ رقص دراصل روزمرہ سرانجام دینے والے ’’ کام ‘‘ سے شروع ہوا ہے۔ صرف تلوار اور ڈھال کے استعمال نے اعضا کو تیز رفتار حرکت پر مجبور کرکے رقص ایجاد نہیں کیا بلکہ روزمرہ کام اور روٹی کی تلاش میں کی گئی محنت نے بھی ۔محنت کی سرگرمی میں اجتماعیت کا اظہار ترانے اورہم آہنگ جسمانی حرکات سے ہوتا تھا‘ بیج بوائی سے لے کر کٹائی تک ۔ مثلاً آسٹریلیا میں قبائلی دور کی عورتیں اپنے رقص میں دیگر باتوں کے علاوہ کھانے کے لائق جڑی بوٹیاں زمین سے اکھاڑنے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں شکر قند کے طریقہِ کاشت کورقص میں دکھایا جاتا تھا۔ پرانے قبائل میں آلو کی کاشت کو بھی خواتین کے رقص کے ذریعے کیا جاتا تھا ۔ چنانچہ فصل پکنے، پھل اترنے، شکار میں کامیابی، موسم کی تبدیلی یا جنگ میں فتح کے وقت اجتماعی رقص میں ان تمام امور کو رقصا جاتا تھا ۔ شکاری سماج میں رقص شکار کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ شکارکے پراسیس میں ، اس میں کامیابی ناکامی کی خوشی یا جھنجلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح کاشتکاری سما ج میں رقص بوائی، آبپاشی ، کٹائی کی اجتماعی محنت کا مظہر، اور فصل اٹھانے میں جشن کا اظہار ہوتا ہے۔ ہمارے مکران میں جاکر بلوچ رقص دیکھیں آپ کو مچھلی اور اس کی حرکات کے بارے میں باریک اور نہایت پھرتیلا رقص نظر آئے گا۔ رقص ہماری مادی زندگی اور معاشی سرگرمی کا نہ صرف جزو لانیفک ہے بلکہ اُن کی نقل بھی ہے۔
انسان نے روح کے معاملات کو فنونِ لطیفہ نامی ایک سکون آور چیز دریافت کرکے اپنے سماج میں رائج کردیا۔ اشرف المخلوقاتی نعمتوں میں سے ایک نعمت محبت کی بھی اُسے دی گئی ہے۔ محبت نامی اس سرچشمے سے پھوٹنے والی شاعری نے خود کو مزید موثر بنانے کے لیے آلاتِ موسیقی ایجاد کروائے ۔ موسیقی جسے روح کی غذا کہا جاتا ہے۔ موسیقی نے پھر ، سماج میں پہلے سے موجود اپنا ہمزاد ساتھ ملایا:۔۔۔۔۔۔ رقص ۔ رقص وہ موسیقی ہے، جو جسمانی جبنش و حرکت کے زیرو بم کے دوش پھوٹتی ہے ۔ جذبات کا ایسا اظہار جس میں سماجی interaction روحانی انداز میں ہو، ایسی ہم آہنگ جسمانی حرکت جو ایک خیال یا کہانی کا اظہار کرتی ہے۔ انسانوں کے مابین بن الفاظ کے ابلاغ۔
آپ خواہ سیاست دان ہیں یا ڈاکٹر ،آ پ خواہ استاد ہیں یا رائٹر ، آپ دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ آپ اپنے پیشے میں آرٹسٹ نہیں ہیں؟۔ آپ کا پیشہ آرٹ نہیں ہے؟۔ آرٹ کے بغیر سیاست و ڈاکٹری کا وجود رہے گا؟، استادی و رائٹری رہے گی؟۔
سچی بات یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات و احساسات کے اظہار کے لیے لفظ و زبان کاکنٹرول حاصل کرنے سے بھی قبل اعضا کی حرکتوں کو پالتو بنا چکا تھا۔
لہٰذا رقص کے بشمول ہر طرح کا آرٹ کسی ارادی کوشش کا محتاج نہیں ہوتا۔ یہ تو ایک خود روپودے کی مانند خود بخود و جود میں آجاتا ہے۔ اسی لیے اس میں سادگی ہوتی ہے۔ مگر یہ سادگی بے رنگ و بے کیف نہیں ہوتی بلکہ یہاں توتصور کی گہرائی اظہار کی بے ساختگی کو ظاہر کرتی ہے۔
آیئے ہم ‘بلوچ ساحل سے شروع کرتے ہیں۔ساحلی بلوچ کا رقص بالکل ایک نمایاں اور خوبصورت رقص ہوتاہے ۔اس کا مجموعی نام ’’لیوہ‘‘ پڑگیا ہے ۔ حالانکہ رقص کے لیے پورے بلوچستان میں ’’ لیو‘‘ (Laiv)کا لفظ استعمال ہوتاہے ۔اس کا لفظی مطلب ہے :کھیل۔ ساحل کا رقص دُھل اور سُر ناکے ساتھ ہوتاہے ۔افر یقہ، بلوچ اور جدید طرزوں کو ملاکراس رقص کی کئی قسمیں بنالی گئی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تمام اقسام سمندری حیات کے ساتھ انسان کے تعلق واسطہ کے بارے میں ہیں۔ سمندر ہی ساحلی انسان کا دوست ، دشمن ہے۔ اور استاد ہے یہ، ادب سے لے کر موسیقی تک اور کھیلوں سے لے کر رقص تک۔ سمندر کی رقصاں لہریں، اس کے اندر تیرتی ناچتی مچھلیاں، کشتی رانی اور پیرا کی میں اعضائے جسم کی ہم آہنگ حرکتیں، محنت کش کو چلتا پھرتارقاص بنا دیتی ہیں۔
غیر سمندری بلوچستان کے لوگ سہ تاپ ، ھشت چاپ کھیلتے ہیں۔بلوچی رقص کے میدان میں مکران ، ماوند اور نوشکی نے بہت ترقی و تخلیق کی ہے ۔ اسے باضا بطہ بنایا گیا ، ادارتی شکل دی گئی ، ایک سپیشلائز ڈطرز جس نے بلوچ رقص کو بے انتہا ترقی دی ہے ۔
مگر بلوچ کی پہچا ن تو ’’ ہمبو ‘‘ نامی قدیم رقص ہے ۔ بلوچ قبائلی معاشرہ ’’ ہمبو‘‘ جیسے اس گرم و پرشور و ہم آہنگ طرز کا دلدادہ ہے۔ یہ بالکل افریقی رقص لگتا ہے جس میں رقص کے ساتھ اور اس سے ہم آہنگ منہ سے خوفناک آوازیں نکالی جاتی ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ’’ ہمبو‘‘ صرف مری بگٹی قبائل میں ہوتا ہے مگر ہمارے خاران کے دوست ضیا شفیع کا کہناہے کہ رخشانی علاقے کے کوچیوں میں مرد و زن سریندا اور دمبیرو پہ ’’ ہمبو‘‘ کرتے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ وہاں یہ خاموشی سے کھیلا جاتا ہے ۔ اسی طرح سمیر بلوچ کا دعویٰ ہے کہ نرخر ے سے نکالی جانے والی آوازوں کے ماسوا یہ رقص نوشکی میں بھی کیا جاتا ہے ۔یہ بہت تیزی سے معدوم ہوتاجارہاہے ۔ اسے بچانے کی سخت ضرورت ہے ۔ بے شک رقص کنند گان کو انتہا ئی تکلیف دِہ اور تھکا دینے والی آوازیں نکالنے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔ مگر اس بہت ہی خوبصورت رقص کو بچا نا بہت ضروری ہے۔
ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ بلوچوں میں انفرادی رقص شاید ہی ملتا ہو۔ یہاں رقص ہمیشہ اجتماعی ہوتا ہے ۔ویسے بھی گروہی رقص ( دھریس، چاپ، ہمبو) سے بڑھتے بڑھتے انسان انفرادی پر فیکشن پہ مبنی رقص تک پہنچا۔
ناہید صدِیقی کا رقص

یہ انفرادی رقص بالخصوصِ برصغیر کے کلچرل ماتھے کا جھومر بن گیا۔ شمالی ہندوستان میں کتھک نامی رقص یک نفری ہوتا ہے۔ کتھک ، کتھایعنی کہانی پر مبنی ہوتا ہے۔ اجتماعی بلوچی رقص کی طرح اِس کتھک رقص میں بھی ناظرین کے علاوہ سامعین بھی شامل ہوتے ہیں۔
میں یہ انفرادی رقص دیکھنے کا عرصے سے متمنی تھا۔ ہم نے عمر کا بڑا حصہ ایسے دوستوں کی تلاش اور صحبت میں گزار دیا جو زندگی کا انسپیریشن دیتے ہوں۔ مگر لاہور شہر میں ایک سنہرا موقع مل ہی گیا کہ اُس آرٹسٹ کے فن کے کمال کو دیکھوں جو اعضا کو شعوری طورپر فطرت سے ہم آہنگ کرنے میں ثانی نہیں رکھتی۔آج آرٹ سے مکالمہ اپنے اعلیٰ ترین لمحات میں داخل ہونے والا تھا جب اپنے فن میں یکتا نا ہید صدیقی ہمارے انگ ا نگ سے ’’ واہ‘‘ کہلواتی ژولیدہ ارواح کے سوالوں کی تشفی کرنے والی تھی۔
اُس سال کو14 اکتوبر کی رات پندرہ اکتوبر بن رہی تھی اور پورا ہال ‘بازار کی وحشت سے دھیرے دھیرے نجیب انسانوں بلند ارواحی میں ڈھل رہا تھا۔بے ترتیبی کو ترتیب دینے کے یہ ساری لوازمات لاہور الحمرا میں پورے ہورہے تھے۔ جب سارے مندوبین کھانے والے ہال میں تھے، میں کھانے کو چھوڑ پیٹ کو روحانی صفائی کے شایان شان بنانے روزے کی حالت میں سیدھا اُس ہال کی جانب چل دیا جہاں مکمل ہارمنی کا نزول ہونے والا تھا۔پہلے پہنچنے میں ایک لالچ یہ تھا کہ اولین صف میں وہ جگہ مل جائے جہاں پاکیزگی کا سرچشمہ اپنی قریب ترین اور واضح ترین صورت میں دکھائی سنائی دیتا ہو،جہاں آپ رقاصہ کو انتہائی قریب سے دیکھ سکیں ۔اور کتھک میں قربت کا مطلب اُس کے گھنگھرو بندھے پیر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ہم وہ جگہ پانے میں کامیاب ہوگئے۔ میرے دائیں طرف طبعی حسن سے منور اور آرٹ کی نعمتوں سے مخمور خاتون‘ ثمینہ پیرزادہ بیٹھی میرے ساتھ مقدس دوستی کا پل تعمیر کررہی تھی اور بائیں طرف اُس کا آرٹسٹ دیور بیٹھا تھا۔ فاطمہ حسن یہاں بھی دوستیوں کا موجب تھی اور فرحت پروین ‘عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر انوار احمد اور منیر بادینی ہمارے الیکٹران بنی وحشتوں کو قابو کرنے والے پروٹان ۔۔۔۔۔۔ فن شناس ارواح!!۔
کھچا کھچ بھرے ہال میں انسانوں کی بھنبھناہٹ اُس وقت اتاہ تعظیم کی طرح خاموش ہوگئی جب اچانک روشنیاں گُل ہوگئیں۔محض ایک مضمحل و ناتواں کرن سٹیج کے ایک کونے پر آرٹسٹک اندا ز میں ایک دائرے میں مرکوز ہوئی۔’’ شب دُز‘‘ رقص کی شروعات روشنی کو کنٹرول کرنے سے ہوئی ۔ ( اور روشنی بہت باشعور مظہر ہوتی ہے۔یہ کبھی بھی آمریت و فسطائیت سے قابو نہیں ہوتی مگر آرٹ اور مہر تو درخشاں مہر کی روشنی کو بھی اپنا بھائی بند بنا لیتے ہیں)۔
فضیلت ، حیرت زدہ کردیتی ہے۔ اور یوں، ناہید کی تربیت ونظم کے شاگرد سکون آور ماحول کو اٹھان دینے لگے۔ ہم اُس کے شاگردوں کے اِن تہہ دار حیرتوں میں گم تھے کہ حیرتوں کی ملکہ خود آئی ۔۔۔۔۔۔ نا ہید صدیقی۔ روشنی کی مرکوز شعا ع اپنے محور پہ کھچ گئی ۔ عبادت کی معراج تو وہی لمحہ ہوتا ہے جب ساری انسانی حسیات ایک نقطے پر جا مرکوز ہوجائیں۔۔۔۔۔۔اور یہ محض ایک لمحہ نہ تھا۔ یہ پورے دو گھنٹے تھے۔ مکمل ہوش و حواس میں رہتے ہوئے بھی مکمل مدہوشی کے دو گھنٹے ۔بلوچ و کوچ ، مست و سمو، شاعر و آرٹسٹ سب کے سب ہپنا ٹائز رہے۔ نقش بن رہے تھے، نگار بکھر رہے تھے، مناظر شکل پذیر ہورہے تھے۔ رقاصہ تماشائی تھی ، تماشائی رقاص بن چکے تھے۔ اعلیٰ عیت ، ارفعیت، شاعریت دانشوریت ، اکیس گریڈیت سب کچھ اگلی کے پیروں تلے۔ جی ہاں گھنگرو بندھے پیروں کے تلوؤں پہ ہماری روح کے کان تھے اور اُس کے انگوٹھے اور ٹخنے تک کی حد تک ہی ہماری بصارت کی بصیرت محدود تھی۔
ماضی جھڑ چکا تھا ،مستقبل فراموش ہوچکا تھا، روز و شب سے پرے ، روز و شب کے معاملات و مسائل سے پرے، تعصبات و امتیازات و مسلّمات و روایات سے پرے، بس لمحہِ موجود موجود تھا۔ لمحہِ موجود جو فنکارہ کے پیروں سے بندھا تھا۔
سچ بہت ہی بلاواسطہ ، بہت ہی فوری دستیاب تھا ۔ ذات اُس سے جڑ چکی تھی۔ ایک ایسی کھوج جس میں ذہن کو سُن ہونا پڑتا ہے ۔( اور ذہن کافر تو گہرے انستھیزیا میں بھی سُن نہیں ہوتا)۔۔۔۔۔۔۔ اور اس آرٹسٹ نے ایک نہیں دو نہیں پورے نیم ہزار حاضردماغ سُن کر رکھے تھے ۔ اور وہ بھی رومی کے گردشی رقص سے نہیں ، بلکہ چھنچھناتے گھنگھرؤں کی معجزاتی ہم بستہ و پیوستہ و ہم آہنگ جھنکار سے ۔ یہ سُن اذہان خود کو ریافت و بازیافت کررہے تھے۔
ساری دیواریں ٹوٹ چکی تھیں، ساری چٹانیں بخارات بن چکی تھیں، ہماری عبادت شیریں ترین جشن بن چکی تھی۔ ہم عالمِ بقا میں تھے، بجتے گھنگھرؤں بھرے، تھرکتے پیروں نے ہمیں وہ شاہراہ عطا کردی تھی جو ہمارے عہد کی شناخت یعنی مکمل ژولیدگی سے نجات کی منزل تک لے جاتی ہے۔
ہماری جبلی انسانی مراقباتی ذہانت ہمیں دوبارہ عطاہوئی جو درد کی نوعیت پہ مشتمل قصے کہانیاں نہیں سناتی بلکہ علاج کی تلاش میں نکلنے کی خاصیت سے مالامال ہے۔ رقاصہ ہر بے پیر کی مرشد بن چکی تھی، آزادی جیسی مقدس منزل کی راہنما پیر۔ ہم ایک ایسی کیفیت میں آگئے جو جاگتے ذہن کی فریکوئنسی سے گرفت میں نہیں آتی۔ وہ سب کچھ جو استبداد کی تلوار ، مارشل لا کے تشدد اور تیز ترین شراب پینے سے بھی سینے سے باہر نہیں نکلتا وہ سب کچھ طبلے کی چند دھڑکنوں، سارنگی کے چند ہچکولوں اور ملائکہ جیسے دو ٹخنوں کی مافوق الفطرت جنبشوں کے سامنے سر بہ سجود افشاں ہونے صف بستہ چلاآتا ہے۔ خود کو مکمل طور پر جاننے کی ساعت ۔ ہم اپنے چھوٹے وجود کو کسی بڑی شئے میں غائب کردینے کی شاندار اہلیت پا چکے تھے، ایسی بڑی شئے جو محفوظ ہے ، نا قد سے بھی ناصح سے بھی۔
آس پاس کا کچھ ہوش نہیں ۔ اس کے برگزیدہ چہرے پر تو صرف اُس وقت نگاہ پڑتی تھی جس وقت اس کے پیر ایسا کرنے کا حکم دیتے۔ اور اسکا چہرہ بہت گریس فل تھا۔ اس کا جسم گریس فل تھا، جسم کا ارتعاش گریس فل تھا، اس کی انگلیاں ہاتھ ، بازو، کہنیاں کندھے ، گٹھنے ، سرین اور پیرگریس فل انداز میں بول رہے تھے، گارہے تھے ۔۔۔۔۔۔ جیسے بحیرہِ بلوچ کی پرسکون لہریں جھومتی ہوں، جیسے پارے کو رقص کرتی بوتل میں ڈال دیا جائے ، جیسے شادمانی کی تقریب میں محبوبہ لہرا رہی ہو۔
ہمارا ہر ہر خلیہ حیرت و استغراق کے ساتھ مودب و مہذب سن رہا تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری ہر حرکت، ہر لمحہ ، ہر دھڑکن ، ہر وقفہ ، ہر سوچ ، ہر مدبھیڑ ، ہر دعا ، ہر قدح ، ہر جام، ہر کچھ، ہمہ کچھ رقص ہی میں تو ہے۔ ہم کارل ساگاں بن چکے تھے، ہم اُس کی کتاب ’’ کاسموس‘‘ بن چکے تھے۔ ہم انہماک کے ایسے بے کراں لمحہ میں تھے جہاں ہمارا ایک ایک جُزو مجسم رقص میں تھا۔ ہم ناہید کے پیروں کے گھنگھرو بن چکے تھے۔ ہمارا نروان ہمیں مکمل مل چکا تھا۔ دو گھنٹے کا نروان۔
رقص تو سماج سے مکالمہ ہوتا ہے۔ ریاضت و مہارت و تجربہ ایک عجیب نور بھری گریس عطا کردیتی ہے اور ناہید کا تجربہ کلہاڑی ماری کا تجربہ نہ تھا ۔ یہ تو فائن سے بھی فائن کام کا تجربہ تھا۔ نزاکت کا تجربہ، ہم آہنگی کا تجربہ، لولاک کی synchronization کا تجربہ، جب پورے ہال کے دل الگ الگ دھڑکنا بند کرکے اجماع کی صورت اختیا رکریں ۔ یہاں دل گم ، دھڑکن گم،حتیٰ کہ سارنگی ستار اور طبلہ تک گم ۔ ساری کائنات اُس آرٹسٹ کے پیروں کے گھنگھرؤں کی ہم آہنگی سے ہم آہنگ ہوچکی تھی۔ وہ اپنے پیروں کے تلوے فرش پہ کچھ اس طرح سے جھٹک کر رکھ دیتی کہ فرش و تلوہ ایک تالی کی سی آواز پیدا کرجاتے اور یہ تکرار اس قدر باریک و سبک ہوتی کہ خود ہی طبلے کا کام کرتی ۔ ساری حرکت ساری گردش اُس کے دو پیروں کی محتاج جو اس تیزی سے مرقص ہلتے کہ اُن کا فی سیکنڈ شمار کرنا نا ممکن ۔ کوئی کمپوٹر آپریٹر ہو یا ماہرنو جواں ٹائپسٹ ، اس قدر ہم آہنگ سبک رفتاری سے تو ہاتھ کی انگلیاں تک نہیں چل پاتیں جس سے کہ وہ پورے پیر کو زمین سے ایک انچ کی بلند ی کے علاقے میں ارتعاش دے رہی تھی۔ ہماری سوچ کی رفتار سے بھی سبک تر۔
اُس کی سبک و سبک رفتار روح اڑتی رہتی ہے، اوپر، ،آسمان کی جانب، وہ پتھر جیسے فرش پہ رقص کرتی ہے، وہ روشنی کو چھو لیتی ہے، وہ عقابوں سے لڑپڑتی ہے ، وہ روشنی کو روحوں کی غذا بنالیتی ہے۔ فرشتوں کی طرح کی اس کی نازک جنبش دلوں میں مضبوط خواب جگا دیتی ہے۔ اپنی سانسوں اور دھڑکنوں پہ اس کا کنٹرول ایک معجزہ ہے، اس کی اپنی تجلی، اس کی آنکھیں، اس کی پر سکونیت، اس کا تقدس ۔۔۔۔۔۔ ایسی مکمل جیسے آسمان پہ ایک چمکتا ستارہ۔
جمالیات کی معراج سے پہلے میں نے اپنی احمقی میں ارادہ باندھ رکھا تھا کہ محویت کے عروج پہ کچھ دعا مانگوں گا ، مگر مقبولیت کے اس سارے دورانیے میں میں وہ سب کچھ بھول گیا۔ کوئی دعا کوئی دغا یاد نہیں رہی۔ یاد رہنا بھی نہ تھا۔ وگرنہ استغراق کے کیا معنی رہ جاتے؟ ۔ یہاں تو ہم ایسے منہمک کہ کھال کی طرح چمٹے ہمارے سارے تواہمات ، سارے شرک و پال تقدس نے سات پہاڑ دور بھگادیے تھے۔ محبت کی ایسی سیر شدہ فضا جس میں کسی نا معقولیت کی گنجائش نہ تھی۔ محبوب سے ملنے کے گناہ میں ٹانگ ٹوٹنے کا ملاّؤں کا پھیلا یا خوف دور ہوچکا تھا ۔ عشق کی حتمی قدرت پہ ایمان کامل ہوچکے تھے۔ سارا ہال ٹرانس فارم ہوچکا تھا۔ سب ، ’’ سب ہیومن‘‘ سطح سے بلند ہوچکے تھے ۔ہم سو فیصدتسلیم و رضا بن کر محبت کی ایک ایسی وادی میں تھے جہاں جفا، خفگی، چھوٹے پن کا کوئی گزر نہ تھا ۔ ہم مصر کی ممیوں کی طرح آنت دھلے اور آلودگی سے پاک تھے۔ ہمارا باطن ناہید کی گرفت میں ظاہر ہوچکا تھا اور ہم اچانک ’’ مزیدمزید ‘‘ کے بھکاری بن چکے تھے ۔
اس کے رقص نے ایک طرف تو ہمیں سب کچھ سے الگ کرکے رکھ دیا اور دوسری طرف ارض و سما میں موجود ہر شئے کے جوہر سے جوڑ دیا ۔ اس کا رقص فطرت کو محسوس کرنا تھا ۔ اس کا رقص فطرت کی توصیف تھا ۔ فطرت کا شکریہ ادا کرنا تھا ۔ ہم جوڑنے کی زنجیر کا ایک حلقہ بن چکے تھے۔ ہماری اصلیت ( انسانیت ) لوٹ آئی تھی ( کتنی آوارہ ہے یہ ۔ لوٹی آتی ہے تو بھی مکمل نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر آج تو یہ سالم لوٹ آئی تھی)۔
سماج شاید گناہ میں اس قدرڈوبا ہوا ہے کہ اس عظیم رقص سے نکلتی تسکین دِہ اور شاداں نیک لہریں بھی کبھی کبھی اسے اپنی لپیٹ میں لینے میں ناکام تھیں ۔ سماج کی یہ کرختگی اُ س وقت بہت بہت محسوس ہوتی تھی جب انہماک کی عمیق گہرائی میں لوگ تالیاں بجا اٹھتے ۔ شاید ہماری عادت ہوگئی ہے۔ جیسے گیانی کا گیان ٹوٹ جائے ، جیسے توکلی مست کو وصلِ سمو کی سوچوں سے جگا دیا جائے۔ اس کرختگی نے ہمارے پر خمار انہماک کو کئی بار توڑ دیا ۔ یقین جانیے یہ ضیاء الحق کے کوڑے لگ رہے تھے، جیسے وہ ہماری اپنی پیٹھ پر برس رہے ہوں۔ جیسے گھومتے لٹو کے عروج پر اُس کی نوک کے نیچے کوئی کنکر آجائے ۔
کاش شاہوں، درباروں، بیوروکریٹوں اورپیسے والوں تک ہی محدود یہ نعمت، عام عوام کو میسر ہو۔ اُن کی تربیت میں اس فن کو بھی شامل کیا جاتا ۔۔۔۔۔۔ تو تب مجھے یقین ہے کہ رقص کے عروج میں تالیاں نہ بجتیں ۔ کہ رحمان بابا کے مزار کو بم نہ لگتے ، کہ دوستیں وڈھ میں ایٹم کا دھماکہ نہ ہوتا ، کہ تو تک میں آدم کی اولاد کی مسخ میتیں اجتماعی قبروں میں نہ ہوتیں۔۔۔۔۔۔ مگر ایسا تو ممکن نہیں۔ ایسا کرنے کے لیے تو بہت کچھ بدلنا پڑے گا۔ شاید پورا نظام۔ پورا نظام جس کی ہارمنی ٹوٹ چکی ہے، جس کی ہم آہنگی میں مکھی گر گئی ہے، جس کی چہچہاہٹ میں گدھا بولا ہے۔
ٍ ۔۔۔۔۔۔ اور ہم ؟ ۔ ہمارے باطن کے اندر زندگی کو زندہ رہ کر جینے کا ارادہ شفاف ہوگیا۔ اور زندگی کی ہارمنی اور آہنگ سمجھ میں آگئی۔ بے سُرا پن ممنوع ٹھہرا ۔۔۔۔۔۔ دہشت گردی، رجعت پسندی، ماضی پرستی ، معاشی استحصال، جنسی امتیاز اور نسل پرستی انسانی سماج کا بے سُرا پن ہی تو ہیں۔
مجھے مزید مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا تاریخ میں کہیں دنیا کے سماجی معاشی مسائل کے حل کی جدوجہد کرنے والوں کی قیادت کبھی کسی رقا ص یا رقاصہ نے کی ہے؟۔ ایک بے ترتیب کلوں، پرزوں، اور اعضا کورقاص کس خوبصورتی سے تربیت دیتا ہے۔ ہے نا !۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے