’’ سنو!۔‘‘
’’ جی!۔‘‘
’’ تم نے مجھ میں ایسا کیا دیکھا تھا کہ ابا کو میرے عوض ایک لاکھ رُپے دیے تھے ؟‘‘
’’ ایک تو تم خاندانی تھیں،جس خاندان نے سات پشتوں سے اپنے ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ تم بہت خوب صورت تھیں۔‘‘
’’ تم نا جتنی میری تعریف کیا کرتے ہو،میں جب آئینہ دیکھتی ہوں تو سچی بات یہ ہے کہ بڑی شرمندہ ہوتی ہوں۔تم میری اتنی تعریف کیوں کرتے ہو ؟‘‘
’’ تمہاری خوب صورتی کا حق ادا کیا کرتا ہوں۔تمہیں یاد ہے ؟جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ تمہارے پھوپھازاد کی شادی میں دیکھا تھا۔‘‘
’’ ہاں، یاد آیا۔تم مجھے گھورگھور کر دیکھ رہے تھے۔ تمہاری نظرمجھ سے نہیں ہٹ رہی تھی۔‘‘
’’ ہاں،ہاں…. بالکل ایسا ہی تھا۔تبھی تو تم اتنی بڑی بھی نہیں تھیں،لیکن میں نے جو تمہیں دیکھاتو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔تب سے ہی تمہیں حاصل کرنے کی دھن میں دن رات ایک ہوگئے۔‘‘
’’ ابا نے بھائی عارب کی شادی کرانے اور اسے کوئی چھوٹا موٹا دھندہ کردینے کے لیے تم سے میرا ایک لاکھ رُپیا لیا تھا،لیکن اگر اسے یہ مجبوری نہ ہوتی اور وہ تجھے میرا ہاتھ نہ دیتے تو تم کیا کرتے ؟‘‘
’’ اپنے تمام دوست احباب ساتھ لے کر تمہیں دن دہاڑے اٹھاکر لے جاتا۔‘‘
’’ لیکن اگر میں تیرے ساتھ نہ چلتی تو ….!۔‘‘
’’ اسی وقت تجھے مار دیتا۔‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’ اس لیے کہ تم میرے سوا کسی کی بھی دید کی دلبر نہیں ہوسکتی تھیں،کسی اور کو یہ طاقت ہی نہ تھی کہ وہ اپنی آنکھ میں تمہارا عکس سما سکتا۔‘‘
’’ تمہاری آنکھوں میں مَیں پہلی تو نہیں تھی۔مجھ سے پہلے صغریٰ کو بھی تو تم نے پسند کرکے اس سے نکاح کیا تھا۔‘‘
’’ اُس کی بات مت کرو، وہ بڑی بدچلن تھی۔ شادی سے پہلے اس کے اپنے ممیرے فیضو کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔‘‘
’’ یہ تمہیں کس نے بتایا ؟‘‘
’’ بس کسی نے تو بتایا ۔‘‘
’’ لیکن بڑی ماں تو کہتی ہے کہ شادی کی پہلی رات اس کی چادر اس کی عصمت کی گواہ تھی، سرخ تھی۔‘‘
’’ وہ سب اس کی ماں کا ڈرامہ تھا، جو اس نے گاؤں کی پھوپھا کٹنیوں سے مل کر خفیہ طور پر رچایا تھا۔‘‘
’’ لیکن بڑی ماں جھوٹی تو نہیں۔وہ تو کہتی ہے کہ ….‘‘
’’ تم چھوڑو بڑی ماں کو۔ اس جیسی سادہ عورت تمہیں اور نہیں ملے گی۔اسے نماز پڑھنے اور بچوں کو قرآن شریف کا سبق پڑھانے کے علاوہ زمانہ کی کیا خبر ؟‘‘
’’ ایسا مت کہو۔پورے گاؤں میں اس کی دھوم ہے۔ قرآن پڑھانے کا کسی سے ایک ٹکا تک نہیں لیتی نہ کوئی کپڑا لتّا۔ میں جب سے بیاہ کر آئی ہوں، دیکھ رہی ہوں کہ گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے، بچے بچیوں میں تو جان ہے اس کی اور وہ بھی اسے اپنی سگی ماں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ وہ سادہ اور عقل سے پیادہ ہوتی تو سب گاؤں والوں کے مسائل اور الجھنیں کس طرح حل کرسکتی؟ دو روٹھے ہوؤں کو منانا تو کوئی اس سے سیکھے اور گاؤں میں جو امن اور سکون ہے ، وہ بھی بڑی ماں کے سبب ہے۔اس دن ایک عورت نے تو یہاں تک بتایا کہ ابھی تک جو گاؤں میں خون خرابہ نہیں ہوا ہے تو وہ بھی صرف اسی عورت کی وجہ سے اور ایک تم ہو کہ کہتے ہو کہ اسے زمانے کی کیا خبر !؟‘‘
’’ ماں کو تم سے زیادہ میں جانتا ہوں۔وہ چونکہ خود بھی نیت کی اچھی ہے ،اس لیے اچھائی کا پرچار کرتی رہتی ہے۔اس سے کہو، بھئی تمہارا کیا کہ وقت ناوقت برقعہ گلے میں ڈالے، دوسروں کا سردرد اپنے سر میں ڈالتی ہو!‘‘
’’ ارے ! یہ بڑی ماں کی اچھائیاں ہی تو ہیں، اس کے صلح پسندی کے اسباق ہیں کہ اب تک گاؤں میں کسی بھی شخص نے کسی کو قتل نہیں کیا، سوائے تمہارے۔‘‘
’’ میں بھی کوئی وحشی جانور نہیں، لیکن میں وہ سب اپنی ناک کے نیچے ہوتا دیکھ کر برداشت نہ کرسکا۔‘‘
’’ اس کا مطلب کہ دوسروں میں غیرت کچھ کم اور تجھ میں زیادہ ہے ؟‘‘
’’ ایسا ہی سمجھو۔‘‘
’’ ایک اور بات بتاؤگے ؟‘‘
’’ کون سی ؟‘‘
’’ کیا تم دو برس پہلے علن والوں کے گھر بری نیت سے گھسے تھے ؟‘‘
’’ یہ بھی تمہیں ماں نے بتایا ہے ؟‘‘
’’ نہیں، ماں جی نے نہیں۔ دوسروں کے منہ سے سنا ہے۔‘‘
’’ ہاں گھسا تھا۔‘‘
’’ کیوں ؟‘‘
’’ ان دنوں میرا چوروں کے ساتھ یارانہ تھا،ان کے کہے میں آکر چوری کے خیال سے گیا تھا۔‘‘
’’ لیکن لوگ تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔‘‘
’’ کیا بتاتے ہیں ؟‘‘
’’ کہتے ہیں کہ تم زیبی کی بیٹی پر مستان تھے۔‘‘
’’ لوگوں کا خانہ خراب ہے۔‘‘
’’ غصہ کیوں کرتے ہو ؟‘‘
’’ غصہ نہ کروں تو اور کیا کروں؟ تم بھی تو باتیں ہی ایسی کرتی ہو ناں۔‘‘
’’ کیسی باتیں کرتی ہوں؟ ایسے ہی پوچھ رہی تھی ۔نہیں بتاتے تو تمہاری مرضی۔میں نے بات کرنے سے توبہ کرلی ۔‘‘
’’ نہیں،نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بات کرنا ہی چھوڑدو،لیکن کوئی ڈھنگ کی بات تو کرو ناں!۔‘‘
’’ نہیں، میں بات نہیں کرتی۔‘‘
’’ اچھا،چلو میں اب بالکل غصہ نہیں کرتا۔پوچھو ،جو کچھ بھی پوچھنا ہے!۔‘‘
’’ تو یہ بتاؤ کہ کیا علن والوں نے تمہیں پکڑلیا تھا ؟‘‘
’’ ہاں۔‘‘
’’ وہ کیسے ؟‘‘
’’ میں کھونٹے میں بندھی گائے کھول کر ابھی بیرونی دروازے تک پہنچا ہی نہیں تھا کہ ادھر علن کے بڑے بیٹے نُورو کی آنکھ کھل گئی تھی۔‘‘
’’ پھر ؟‘‘
’’ مجھے پکڑ کر پولیس کو دے رہے تھے،لیکن ماں جی کو پتہ نہیں کس نے بتایا اور اس نے آکر مجھے چھڑالیا تھا۔‘‘
’’ اورکیا بڑی ماں نے انہیں قرآن دے کر یہ وچن بھی لیا تھا کہ وہ تمہیں قتل نہیں کریں گے؟‘‘
’’ ہاں۔‘‘
’’ وہ کس لیے ؟‘‘
’’ وہ اس لیے کہ میں ان کے گھر میں گھسا تھا اور انہیں مجھ پر کچھ شک بھی ہوگیا تھا ۔‘‘
’’ تواب ان کا وہ شک دور ہوا ؟‘‘
’’ ہاں، اب تو ہنستے بولتے ہیں۔‘‘
’’ تیری آنکھیں کیوں بند ہوتی جارہی ہیں؟‘‘
’’ آنکھوں میں نیند بھری بیٹھی ہے۔‘‘
’’ ویسے تو بڑی دیر تک جاگتے رہتے ہو!۔‘‘
’’ آج تھکن کچھ زیادہ ہی ہے۔کھیت کے کام سے آیا تو ہوٹل پر وی سی آر پر تین گھنٹے فلم دیکھنے بیٹھ گیا۔‘‘
’’ تم ہوٹل پر اتنی دیر تک کیوں بیٹھتے ہو؟‘‘
’’ دوستوں کی وجہ سے ۔‘‘
’’ وہاں میں تمہیں یاد آتی ہوں کہ نہیں ؟‘‘
’’ آتی ہو، لیکن کیا کروں، دوستوں سے بھی تو نبھانا ہے ناں!۔‘‘
’’ تم نے پہلے جو وعدہ کیا تھا کہ سورج ڈوبنے کے بعد پورا وقت تمہارا ہے۔کہاں گیا وہ وعدہ ؟‘‘
’’ یاد ہے، اچھی طرح یاد ہے۔لیکن آج کی باتیں یہیں پر ختم،مجھے سخت نیند آرہی ہے۔‘‘
’’ لیکن مجھے تو نیند نہیں آرہی۔‘‘
’’ آنکھیں بند کروگی تو آجائے گی۔‘‘
’’ نہیں، آج نہیں۔ باتیں کریں گے۔بڑی ماں بھی سویرے سو گئی ہے،اس لیے میں تمہارے ساتھ بہت ساری باتیں کروں گی۔‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے، جو تمہاری مرضی!۔‘‘
’’ اچھا تو صغریٰ کے بارے میں کچھ بتاؤگے ؟‘‘
’’ کیا بتاؤں؟‘‘
’’ یہی کہ وہ تمہیں پسند تھی ؟‘‘
’’ پسندنہ ہوتی تو اس سے شادی کیوں کرتا؟‘‘
’’ بڑی ماں تو کہتی ہے کہ شادی کے بعد اس بچاری کو ٹی بی نے جکڑلیا اور ادھر تم نے اسے نظرانداز کردیا تھا۔‘‘
’’ ایسی بات ہوتی تو اس کا علاج کیوں کرواتا ؟‘‘
’’ بڑی ماں کہتی ہے کہ اس کا علاج اس کے بڑے بھائی نے کروایا تھا،تم نے تو اسے چونّی کی گولی بھی لے کر نہ دی تھی۔‘‘
’’ میں نہیں لے کر دیتا تھا تو کیا اس کا ابا دادا لے کر دیتے تھے۔ماں کی یہی باتیں تو مجھے اچھی نہیں لگتیں ۔ اپنا دیکھتی ہے نہ پرایا۔ دفتر کھول کر بیٹھ جاتی ہے۔ تم اس کی باتوں کا یقین مت کیا کر اور مجھ سے بھی مت پوچھا کر۔‘‘
’’ تم ہر بات پر اتنا گرم کیوں ہوجاتے ہو؟ کبھی سیدھے منہ بھی کوئی بات کرلیا کرو۔‘‘
’’ غلط بات کا سیدھے منہ کیاجواب دوں ؟‘‘
’’ سچ سچ بتاؤ، گھر میں ایسے ہوتے ہو یا باہر بھی ایسے ہوتے ہو؟‘‘
’’ گھر اور باہر میں کوئی فرق ہوتا ہے کیا ؟ باہر بھی اگر کوئی آدمی بات کو گھما پھرا کر کرتا ہے تو اس کا گلا دبادیتا ہوں، لیکن ماں جی کو کیا کہوں؟ ماں ہے ورنہ ….‘‘
’’ بڑی ماں پر اتنا غصہ مت کیا کرو۔وہ تمہاری دشمن نہیں ۔ اس کے علاوہ کون ہے جو تمہارے جھگڑوں کو نپٹاتا ہے۔تم جس سے بھی کوئی بداخلاقی کرتے ہو یا کسی پر ہاتھ اٹھاکر آتے ہو تو بچاری بڑی ماں ہی تو ہوتی ہے جو تمہیں مصیبتوں سے بچاتی رہتی ہے۔‘‘
’’ ماں کی یہ باتیں تو ٹھیک ، لیکن جب وہ اپنے پرائے کے ساتھ ایسی دل جلانے والی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہے، تب ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔‘‘
’’ شکر کرو کہ بڑی ماں زندہ ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو تمہاری جیسی طبیعت ہے، لوگ تیری کھال تک ادھیڑ ڈالیں۔‘‘
’’ تم پھر مجھے غصہ دلانے والی باتیں کررہی ہو۔ اب چھوڑو بھی کہ کچھ سکون کی نیند کریں۔ صبح سویرے کھیت میں ہل چلانے کے لیے ٹریکٹر بھی آئے گا۔‘‘
’’ گھر میں بیلوں کی جوڑی ہے، ٹریکٹر سے ہل کیوں لگواتے ہو ؟‘‘
’’ بیل ہل کے نہیں، دوڑ کے لیے ہیں۔‘‘
’’ تو کیا دوڑ کے بیلوں سے ہل نہیں جتوایا جاتا؟‘‘
’’ نہیں۔‘‘
’’ انہوں نے ابھی تک کوئی دوڑ جیتی ہے ؟‘‘
’’ ہاں، دو مرتبہ قسمت نے یاوری نہیں کی۔ اب تیسری بار انشاء اللہ ضرور جیتیں گے۔‘‘
’’ میری مانو تو یہ دوڑ ووڑ کا شوق چھوڑو،ان سے ہل چلواؤ۔کم از کم ٹریکٹر کے کرایہ کی رقم تو بچ جائے گی۔‘‘
’’ پیسوں کی پروا کون کرتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ بیلوں کے ہل کا رواج اب ختم ہوگیا ہے۔ٹریکٹر کی سہولت نے سب کو نجات دے دی ہے اس بڑی تکلیف سے۔‘‘
’’ بس لوگ ہوگئے ہیں ہڈ حرام ورنہ آج سے پہلے یہی تکلیفیں تو وہ خود کیا کرتے تھے۔‘‘
’’ہاں، ملک کی حالت پتلی ہوگئی ہے،زیادہ محنت کسی سے بھی نہیں ہوتی ۔‘‘
’’ دوسروں کو کس بات کا دوش دے رہے ہو۔تم خود ہی اپنے باپ دادا کے چھوڑے ہوئے تین جریب کھیت پیسے دے کر آباد کرواتے ہو۔اگر تمام محنت تم خود ہی کرو تو فصل آنے سے پہلے ہمارا اناج کیوں کم پڑجائے ؟‘‘
’’ اچھا، اب اپنی یہ نصیحتیں بند کرو کہ میں نیند کروں۔‘‘
’’ بس یہ آخری بات ،خدا کے لیے غصہ مت کرو،محبت سے جواب دینا۔‘‘
’’ میری نیند آرام تو تم نے حرام کردیے ہیں،تمہاری باتیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں !‘‘
’’ یہ آخری بات ہے،اگر ہاں کرو تو پوچھوں؟‘‘
’’ اچھا، چلو پوچھو!۔‘‘
’’ شادی کے بعد تم نے پورے بارہ برس صغریٰ کے ساتھ گزارے،ان بارہ برسوں میں اس نے کبھی تمہیں اپنے ممیروں کے پاس لے جانے کا کہا تھا؟‘‘
’’ نہیں۔‘‘
’’ اگر اس نے نہیں کہا تھا اور اس کا ممیرا فیضو اپنے بھائی کی شادی میں اسے بطور بہن بیٹی کے لینے آیا تھا تو تم نے یہ کس طرح فرض کرلیا تھا کہ وہ صغریٰ سے اپنا پرانا ناتا جوڑنے آیا ہے ؟‘‘
’’ یہ میں تب سمجھا تھا جب اس نے مجھ سے اور ماں سے نظر بچا کر اسے آنکھ کا اشارہ کیا تھا۔‘‘
’’ بڑی ماں کہتی ہے کہ یہ تم اس پر بہتان لگاتے ہو۔وہ تو صغریٰ کو ادی، بہن کہہ کر بات کررہا تھا۔‘‘
’’ کیا یہ دفترتم نے مجھے چِڑانے کے لیے کھول رکھا ہے؟‘‘
’’ اگر تمہیں میری ان باتوں پر غصہ آتا ہے تو میں چپ ہوجاتی ہوں،لیکن میری بھی ایک بات سن لو کہ تم اگر میری ان باتوں کا جواب نہیں دوگے تو میں بھی پوری زندگی تم سے بات نہیں کروں گی۔پھر بھلے منتیں کرتے رہنا۔ میری ضد کا توتمہیں پتہ ہے !‘‘
’’ اچھا، نہیں کرتا غصہ، کچھ اور باتیں کرو ناں! یہ باتیں کرکے میرے زخم کیوں چھیڑتی ہو؟‘‘
’’ اگر انہیں زخم چھیڑنا کہتے ہو تو پھر میں نہیں بولتی۔ٹھیک ہے ناں؟‘‘
’’ تم بھی عجیب قسم کی عورت ہو،بات کو سمجھتی ہی نہیں ہو۔ اچھا چلو جو تمہارا دل کرے وہ پوچھو۔‘‘
’’ تم نے جب کلہاڑی اٹھا کر صغریٰ کو للکارا تھا ،تب اس کا ممیرا موجود تھا ؟‘‘
’’ نہیں، وہ ایک دن پہلے آیا تھا اور صغریٰ کو آنے کا کہہ کر چلا گیا تھا۔‘‘
’’ صغریٰ اس وقت کیا کررہی تھی،جب تم نے اس پر کلہاڑی سے پہلا وار کیا تھا ؟ اور شاید تمہاری کلہاڑی کا دستہ بھی ٹوٹ گیا تھا۔‘‘
’’ مجھے یاد نہیں ہے۔‘‘
’’ مُکرتے کیوں ہو ؟ بڑی ماں تو کہتی ہے کہ وہ اس وقت رسوئی میں کھانا پکا رہی تھی اور تم نے اس کا قتل بھی صرف روٹی پکانے میں دیر ہوجانے کے سبب کیا تھا۔ پھر جب تم اسے قتل کر بیٹھے، تب اپنے بچاؤ کے لیے ہی تم نے اس پر سیاہ کاری کا الزام دھرا تھا اور سردار شہمیر خاں کے ہاں ہونے والے تصفیہ میں تم نے اس کے ممیرے فیضو سے کھینچ کر چھ لاکھ رُپے تاوان لیا تھا۔اس میں سے آدھا سردار شہمیر خاں نے لیا تھا اور باقی آدھی رقم سے تم نے میرا رشتہ لیا تھا ….‘‘
’’ بس کرو ،کمینی عورت! بیہودہ رنڈی! لعنت ہو تم پر،مجھے جھوٹا کررہی ہو، ہیں؟‘‘
’’ ارے ! یہ کیا ؟ میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ تم …..‘‘
’’ تم نے کیا کہا؟ ٹھہرو تو تمہیں بتاتا ہوں ….‘‘
’’ ہائے رے! باپ رے !! میں مرگئی۔ ماں اے بڑی ماں!! مجھے بچاؤ۔وہ دیکھو ،سامنے کھونٹے سے کلہاڑی اتارکر لارہا ہے، مجھے مارنے والا ہے …. بچاؤ، بچاؤ ….!!!۔‘‘
’’ بس کرو، کم ذات کی اولاد! آج تیری زبان گدی سے کھینچ نکالوں گا۔‘‘
’’ میں لٹ گئی، میں مرگئی…. مجھے بچاؤ۔‘‘
’’ ماں! تم بیچ میں مت آؤ، دور ہوجاؤ۔‘‘
’’ ارے بدبخت ! یہ تم کیا کررہے ہو؟ ارے! تجھے کیڑے پڑیں،کمینے! کسی کی بیٹی کو کیوں قتل کررہے ہو؟ اگر مارنا ہے تو مجھے مارو۔ میری گردن پر کلہاڑی چلاؤ۔ آؤ، مجھ پر وار کرو، سرخ رو ہوکر کسی خوشحال آدمی پر بہتان لگانا کہ میں نے اس کو ماں کے ساتھ بدکاری کرتے دیکھا ہے …..!!‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے