بچپن سے لڑکپن میں داخل نہیں ہوا تھا کہ اُسے وہ زخم ملے جو ظاہر سے کچھ ہفتوں بعد غائب ہو گئے مگر باطن میں ہمیشہ کے لیے ناسور بن گئے جنہیں وہ کریدتا رہتا ہے اور اِن میں سے رِستے خون سے اذیت پرستی کا پودا پروان چڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل اوروں کے لیے پتھر سے سخت ہو گیا ہے۔ لوگ اُسے وحشی پکارنے لگے ہیں مگر اُسے ذرا پروا نہیں کہ کوئی کیا بکتا ہے۔ وہ تو اُن زخموں پر پھاہا رکھنے کے لیے جتن نہیں کرتا جو اُسے قبائلی جنگوں میں ملتے رہتے ہیں ، پھر وہ دہائیوں پہلے ملے اَن مِٹ گھاؤ مٹانے کے لیے کیا کرتا مگر وہ ایک کام ضرور کرتا رہا ہے اور اِس علت سے بے خبر کرتا رہا ہے جو سیانے لوگ بتاتے ہیں کہ دراصل یہ مرہم کی چاہ ہے جو اُس کے پتھر سے سخت دل میں ہمیشہ سے ہے جبھی وہ عمر بھر تلوار کی دھار تیز کرتا رہا ہے۔ جب میں نے کہا کہ یہ تو پہلے ہی بہت تیز ہے، اس قدر کہ اس پر پتہ پھینکوں تو وہ جانے بغیر کٹ جائے مگر اس نے جو جواب دیا، مجھے اس کی توقع ہر گز نہ تھی۔
’’جانتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں جب دشمن کا گلا کاٹوں تو اُسے اتنی تکلیف نہ ہو جتنی میرے اپنوں کو ہوئی تھی۔‘‘
مجھے آج بھی وہ دھار تیز کرتا دکھائی دیتا ہے اور میں اُسے بتانا چاہتا ہوں کہ گلا کاٹ کر بھی زخم وہیں کا وہیں رہے گا لیکن مجھے ابھی خود پر یقین نہیں آیا یا شاید میں تسلیم کرنا نہیں چاہتا کہ یہی ایک علاج نہیں مگر میں یہ جانتا ہوں کہ ایک دن وہ اپنے دشمن کی گردن اڑا دے گا اور کچھ دن، ہفتے، مہینے یا سال بعد اس کی اپنی شہ رگ بھی کٹ جائے گی۔ پھر اُس کا بچہ جوان ہو گا اور تلوار چلائے گا اور ایک روز خود بھی تیغ تلے تڑپ رہا ہوگا اور۔۔۔ یہ عملِ معکوس جاری رہے گا جب تک کوئی اور حل نہیں مل جاتا یا سب ختم نہیں ہو جاتا۔
۔۔۔
عیدی

محمد دین باپ کے گزر جانے کے بعد پہلی بار چھوٹی بہن کو عیدی دینے جا رہا تھا۔ وہ خوش تھا بھی اور نہیں بھی ۔۔۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگ میں بہن اور بہنوئی کے لیے ملبوسات اور کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی تھیں۔ میٹھی عید پر دینے کے لیے کچھ تھا نہیں تو محمد دین نے سوچا بڑی عید پر کسر نکال دی جائے۔ اِسی خیال سے مسرور تھا مگر اُسے غصہ تھا کہ بیوی نے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ماں الگ سے بیمار پڑی تھی جو اپنی تکلیف کے باوجود خوش تھی کہ بیٹا اکلوتی بہن کو عید دینے جا رہا تھا۔
محمد دین چنگ چی سے اُتر کر جیسے ہی بہن کے گھر کو جانے والی گلی میں داخل ہوا اور اُس نے گھروں کے باہر چھترے، بکرے اور بچھڑے بندھے دیکھے تو اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ محمد دین کی اماں بھی قربانی کے جانور دیکھ کر بڑا خوش ہوتی تھی۔
بہن کو عیدی والا شاپر پکڑانے کے بعد محمد دین نے شربت کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا، ’’لے بھئی گڑیا! تیری تو عید پر موج ہو جائے گی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ بہن نے مسکراتے ہوئے حیرانی سے پوچھا تو محمد دین بولا، ’’تمہاری گلی تو قربانی کے جانوروں سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے محلے میں بس دو چار لوگوں نے جانور خریدے ہیں۔‘‘
’’گلی بھری ہے تو کیا ہوا۔ ہمیں اپنا خریدا ہی کھانا پڑے گا۔‘‘
’’کیوں؟عید پر جمع ہونے والا گوشت اپنے نام سے آگے بانٹنے کا ارادہ ہے کیا؟ ‘‘ محمد دین نے خالی گلاس واپس پکڑاتے ہوئے مذاق کیا تو بہن بڑی سنجیدگی سے بولی۔
’’لے ،ہمیں کس نے گوشت بھیجنا ہے۔ لوگ اُن ہمسایوں کو نہیں دیتے جن سے و اپسی کی امید نہ ہو۔ ‘‘
’’پتا نہیں کس چیز کی قربانی دیتے ہیں۔‘‘ محمد دین بہن سے بھی زیادہ سنجیدگی سے کہہ کر چپ ہو گیا۔ بکرا لے کر دینے کی سکت تو تھی نہیں، اُس نے کچھ دیر کی کشمکش کے بعد جیب سے ہزار کا نوٹ نکالا اور نظریں ملائے بغیر چپکے سے بہن کی مٹھی میں دبا دیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے