بلقیس خان کی 5 غزلیں

لگا کے نقب کسی روز مار سکتے ہیں
پرانے دوست نیا روپ دھار سکتے ہیں

ہم اپنے لفظوں میں صورت گری کے ماہرہیں
کسی بھی ذہن میں منظر اتار سکتے ہیں

بضد نہ ہو کہ تری پیروی ضروری ہے
ہم اپنے آپ کو بہتر سدھار سکتے ہیں

وہ ایک لمحہ کہ جس میں ملے تھے ہم دونوں
اس ایک لمحے میں صدیاں گزار سکتے ہیں

ہماری آنکھ میں جادو بھرا سمندر ہے
ہم اس کا عکس نظر سے نتھار سکتے ہیں
ٌٌٌ*****
2

دشمن بنامِ دوست، بنانا مجھے بھی ہے
اس جیسا روپ اسکو دکھانا مجھے بھی ہے

میرے خلاف سازشیں کرتا ہے روز وہ
آخر کوئی قدم تو اٹھانا مجھے بھی ہے

انگلی اٹھا رہا ہے تو کردار پر مرے
تجھکو ترے مقام پہ لانا مجھے بھی ہے

نظریں بدل رہا ہے اگر وہ، تو غم نہیں
کانٹا اب اپنی رہ سے ہٹانا مجھے بھی ہے

میں برف زادی کب سے عجب ضد پہ ہوں اڑی
سورج کو اپنے پاس بلانا مجھے بھی ہے
ٌ ٌٌ*****
3
تمھاری یاد کا اک دائرہ بناتی ہوں
پھر اس میں رہنے کی کوئی جگہ بناتی ہوں

وہ اپنے گرد اٹھاتا ہے روز دیواریں
میں اس کی سمت نیا راستہ بناتی ہوں

زمانہ بڑھ کے وہی پیڑ کاٹ دیتا ہے
میں جس کی شاخ پہ اک گھونسلہ بناتی ہوں

وہ گھول جاتا ہے نفرت کی تلخیاں آ کر
میں چاہتوں کا نیا ذائقہ بناتی ہوں

خیال و حرف تغزل میں ڈھال کر بلقیس
میں اپنے درد سبھی غزلیہ بناتی ہوں
ٌٌٌ*****
4
سو صدیوں کا نوحہ ہے
تم کہتے ہو نغمہ ہے

دھول اڑاتی جھریوں میں
تہذیبوں کا ملبہ ہے

مٹی کے دو کوزوں میں
کچھ خوابوں کا گریہ ہے

ریشم ہی سے ادھڑے گا
یہ پھولوں کا بخیہ ہے

جتنا بھی تم صاف کرو
دھبہ آخر دھبہ ہے

اس گھر کی ویرانی کا
جنگل جیسا حلیہ ہے

در آتی ہے چپکے سے
یاد پہ کس کا پہرہ ہے

آنکھوں کی ویرانی سے
دل کو لاحق خطرہ ہے

ٌٌٌ*****
5
ہمارے دل کا نہ در کھٹکھٹا پریشانی
ہزار غم ہیں یہاں ، لوٹ جا پریشانی

میں اپنا درد سنا آئی ہوں درختوں کو
مجھی کو کیوں رہے لاحق سدا پریشانی

میں اپنے آپ سے الجھی ہوئی ہوں مدت سے
مزید آ کے نہ الجھن بڑھا پریشانی

کسی بھی طور نہ خاطر میں لاؤں گی تجھ کو
مجھے نہ اپنے یہ تیور دکھا پریشانی

عجب سوار ہے وحشت ، سو مجھ سے بچ کے گزر
میں نوچ ڈالوں گی چہرہ ترا پریشانی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے