بلوچستان اینڈآل انڈیا بلوچ کانفرنس،جیکب آباد
دسمبر1932
جدید بلوچ سیاست ، کلچر اور ادب کی بنیاد عبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز مگسی نے 1920 میں رکھی تہی۔ آج سو سال گزرنے کے بعدوالی ارتقا یافتہ دنیا میں بلوچ سیاست کی صورتیں خواہ جس قدر بدل گئی ہیں، تضادات تضاضے اور طرز خواہ جتنے متنوع ہوچکے ہیں،مگر بنیاد بہر حال وہی ہے جو ہمارے اِن اکابرین نے رکھ دی تھی۔
فطری طور پربلوچوں کے دلوں میں برسہا برس سے قومی اتفاق کی خواہش پک رہی تھی۔ قبائلی انفرادی فیصلوں کے بجائے قومی سطح پر جمع ،اجتماع اور مشترک لائحہ عمل اختیار کرنے کی یہ خواہش محض موضوعی بات نہ تھی۔ بلکہ یہ وقت کا تقاضہ تھا کہ انگریزنے آکر ہمارے سماج کے تضادات کو کئی گنا بڑھا بھی دیا تھااور تیز رفتار بھی کردیا تھا ۔ بلوچ کے لیے خود انگریز بھی ایک تضاد تھا۔ اِس جدید دور میں تعلیم ، اورمیٹریل ترقی جیسے معاملات کے لیے دور بین و دور اندیش ودیرپا فیصلے ہونے ضروری ہو گئے تھے ۔
اِس مدہم ومبہم تصور کو عملی جامہ پہنانا البتہ یوسف عزیز مگسی کے بھاگ میں لکھاتھا۔جناب یوسف عزیز مگسی اور اُس کے رفقا کو کوہِ سلیمان جتنے بڑے قومی مسائل سے نمٹنے کے لیے یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہندوستان بھر کے بلوچوں کی ایک نمائندہ کانفرنس بلائی جائے اور اس میں بلوچ قوم اور اس کی سیاست وسماج سے وابستہ معاملات پہ بحث کی جائے ۔
جیکب آباد بلوچ کانفرنس دسمبر1932میں منعقد ہوئی۔ بلوچوں کی سب سے پہلی ہمہ گیر کانفرنس۔
اس تین روزہ کانفرنس نے جمعی طور پر پورے خطے کے بلوچ کو اکٹھا کیا ،’اس کے اجتماعی قومی معاملات پر ڈیلی بریشنز کیں۔ اور قرار دادوں کے ذریعے اُن کا نچوڑ اور مجوزہ حل کے نکات وضع کیے۔
ماہنامہ سنگت ’’ جیکب آباد کانفرنس‘‘ ‘‘کی 85ویں سالگرہ پر اس کانفرنس کے راہبروں کو تعظیم پیش کرتا ہے اور اُس کانفرنس کی ایک تعارفی تاریخ مرتب کرتا ہے تاکہ اس کے بارے میں نوجوان نسل کو روشناسی ہو۔
دلچسپ تھے یہ لوگ بھی۔ ہم کانفرنس کی بات ضرور کریں گے لیکن ہم شروعات کانفرنس کے راہنماؤں کی زندگی کے ایک مزید ار واقعہ سے کرتے ہیں۔ یہ واقعہ یوسف عزیز مگسی،عبدالصمد اچکزئی ، اور میر عبدالعزیز کرد کی رفاقت کی گہرائی اورگیرائی کو واضح کر دے گا ۔ تحریر عبدالصمد کی ہے جو میں نے اُس کی پشتو زبان میں لکھی خودنوشت سوانح عمری سے لی ہے:
’’ ہم نے نہ ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور نہ ہی ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے ‘اور نہ ہی ہم میں کوئی جماعتی وابستگی تھی ۔ مگر ایک دن اچانک لاہور کے اخبار’’زمیندار‘‘ میں ان (یوسف عزیز مگسی )کا ایک بیان آیا کہ ’’ پندرہ دن بعد فلاں روزبلوچستان میں اصلاحات کے لئے ’’یومِ بلوچستان‘‘ کے نام سے کام شروع ہو گا اور کوئٹہ میں ایک جلوس نکلے گا ۔ اس جلوس کی راہنمائی مولانا عبدالصمد خان بی۔ اے کریں گے‘‘ ۔(میں نہ مولانا تھا اور نہ بی اے‘ مگر عبدالصمد تھا۔) میں سمجھ گیا کہ ان کا مطلب ’’میں‘‘ تھا۔ اسی روز میں نے میر عبدالعزیز کرد کو تار دے دیا کہ صبح کوئٹہ پہنچیں۔
اگلے دن عصر کے وقت وہ اور ان کا چچا زاد بھائی میر حاجی خان، صمد خان کے ساتھ سنڈیمن ہال کے بڑے چمن میں بیٹھے اور اس بات پر غور کیا کہ یوسف علی خان نے یہ کیسا اعلان کر دیا؟۔بلوچستان میں ابھی تک قومی پارٹی کہاں ہے ؟۔ قوم دوست ساتھی کہاں ہیں؟۔ اس بے کسی اور در بہ دری میں یومِ بلوچستان کا مطلب کیا ہو گا؟ ۔۔۔۔ مگر اب جیسا بھی ہے ایک قوم دوست شخص نے ایک پرائے علاقے سے پکاراتو اب تو یہ ہو کر ہی رہے گا ۔ تب ہم نے اپنے ساتھی گنے اور صرف دس آدمی ایسے ذہن میں آئے جواس کام کے لئے ہر قربانی پہ تیار ہوں گے ۔ ہم نے پروگرام بنایااور تیاری میں لگ گئے ۔۔۔۔۔ ‘‘۔
ایسے تھے ہمارے اکابرین!!
کہتے ہیں کہ بلوچ کا نفرنس کی تجویز نے سب سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جنم لیا، جہاںیوسف علی خان اپنے دیرینہ ساتھی میر محمد امین خان کھوسہ سے ملنے گیا تھا ۔ محمد امین اُن دنوں وہاں پڑھتا تھا اور یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں پیش پیش تھا ۔ علی گڑھ کے اس تصورنے سندھ اور بلوچستان کے مقامِ اتصال یعنی خان گڑھ (جیکب آباد ) کے شہر میں عملی جامہ پہنا ۔‘‘(1)
یہ کانفرنسیں ایک سال کے وقفے سے حیدرآباد اور جیکب آباد میں منعقد ہوئیں۔ جہاں پر شاہ جہاں بلوچ کے مطابق’’ بند رعباس سے لے کر درہِ خیبر تک کے بہادر اور جوانمرد بلوچوں کا اجتماع ہوا‘‘۔ (2)گو کہ انگریز نے اپنی رپورٹوں میں کانفرنس کی انتہائی قلیل تعداد کا بہت حقیر انداز میں تذکرہ کیا۔
محمد امین کھوسہ کے زرخیز ذہن کی اس تخلیق نے بہت حساس اور ذمہ دار لوگوں کے اذہان میں عرصے سے مچی کھلبلی کو ذرا ساشانت کیا اور گفتگو اور مباحثے کے اِس نتیجے کو عملی جامہ پہنا نے کا فیصلہ ہوا۔ ہم خیال لوگوں کے روابط ہوئے ، میل ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔ ایجنڈے اور پلان مرتب ہونے لگے۔
اور جب ایک بار اتفاق رائے ہوگیا تو پھر پا ئنچے چڑھا لیے گئے اور کام شروع ہوا۔زبردست موبلائزیشن شروع کی گئی۔ اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے خوب کام کیا گیا۔ قاصد،تار،خطوط، دورے ، سفر ، نشستیں، ملاقاتیں۔۔۔ مگسی اور اس کے ہم خیالوں نے طول و عرض میں دورے کرنے شروع کردیے۔ کہیں خط بھیجے جارہے ہیں،کہیں تار دیے جا رہے ہیں اور کہیں قاصد روانہ کیے جارہے ہیں۔ اس طرح بہت سنجیدگی سے ممکنہ حد تک سارے ممتاز بلوچوں سے روابط کیے گئے ۔
ہم اُس سب کی تفصیل تو نہ دے پائیں گے کہ یہ ممکن بھی نہ ہوسکے گی ۔ بس،ہم چیدہ چیدہ اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے ۔پہلے پہل تو میر یوسف عزیز کا ایک خط بطور نمونہ ملا حظہ ہو جو اس نے 30 ستمبر 1932 کو اپنے ایک دوست کو لکھا:
’’ مکرمِ بندہ جناب سردار میر بلوچ خان صاحب
السلام علیم و رحمت اللہ و برکاتہ
ہم نے طے کیا ہے کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس بماہ دسمبر جیکب آباد میں منعقد کریں، اور ہم نے اس کے لیے زورشور سے کام شروع کردیا ہے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ بلوچ قوم میں افلاس اور غربت کس قدر موجود ہے،اس لیے مکانوں کی اور دیگر فروعی چیزوں میں آپ کی سخت ضرورت ہے۔ آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گے؟ ۔میرغلام سرور خان میرا یہ عریضہ آپ کی خدمت میں پیش کرے گا اور ساتھ ہی متعلقہ ضروریات بھی بیان کرے گا۔ مجھے کامل توقع ہے کہ آپ ہر ممکن مدد کریں گے اور کانفرنس کی کامیابی میں کوشش کریں گے۔ بلوچ قوم آپ کے اس احسان کو کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی۔ اس کے بعد جب آپ کو بعد میں باقاعدہ دعوت ملے تو بہ نفسِ نفیس آپ ضرور شمولیت فرمادیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانفر نس کے لیے جیکب آباد کو ہی منتخب کرنا صرف آپ کی توقع پر ہی ہوا ہے۔ بندہ بھی عنقریب اس سلسلے میں جیکب آباد آئے گا۔
زیادہ خیریت ہے ۔ دعا ہے کہ خدائے برحق آپ کو بمعہ لواحقین خیر و عافیت سے رکھے۔
الراقم
نواب زادہ میر محمد یوسف علی خان عزیز مگسی بلوچ ‘بمقام ملتان
بندہ محمد یوسف علی خان بقلم خود‘‘(4)
آپ نے خط پہ غور کیا۔ کس قدر انکساری کا خط ہے۔ کون کہے گا کہ یہ کسی نواب کا خط ہے ۔’’ بندہ، حقیر۔۔۔۔۔۔‘‘ بڑے انسانوں کی بڑی باتیں۔
(جاری ہے)
0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے