(چند ملاقاتیں، کچھ یادیں، ڈھیر ساری باتیں)

سرخی مائل گندمی رنگت، جسمانی طور پر لاغر مگر چست وتوانا بدن، ابھری ہوئی خون کی رگیں اور رگوں سے بھرے مضبوط بازو، سرخ تراشیدہ سے ہونٹ، ستواں ناک، چھوٹی چھوٹی مگر تیز آنکھیں، کھلی اور کشادہ خوبصورت پیشانی،ہلکی ہلکی بھنویں، گھنی سفید داڑھی،ہلکی ہلکی مونچھیں، آگے کی طرف بالوں سے خالی چمکتا سر، سر پر چترالی ٹوپی، سادہ سفید مگر پاک صاف لباس. یہ حلیہ تھا اْس باکمال شخصیت کا جس کو بے کمال دْنیا کے باکمال لوگ سائیں کمال خان شیرانی کے پْر کمال نام سے جانتے تھے۔
بندہ نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو اپنے خاندانی بزرگوں سے جن چند شخصیات کا تذکرہ ہمیشہ عقیدت و احترام سے سنا "سائیں کمال خان شیرانی” اْن میں سرفہرست تھے. میرے چچا جان حاجی گل محمد عْرف حاجی گْلک مرحوم محترم سائیں کے ہم عصر اور غمخوار رفیق تھے. بقول سائیں "گْلک شیرانیوں میں میرے حقیقی کامریڈ تھے”. میرے والدِ مکرم حاجی نور محمد سائیں کے شاگرد تھے، کئی سالوں تک وہ ان کے گھر میں زیرِ تعلیم رہے۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ اباجان کی گہری رفاقت کے باعث سائیں انہیں "رائیونڈی” کہا کرتے تھے.
ہمارے خاندانی نظریات اور سائیں کے افکار میں ایک سو اسی ڈگری کا اختلاف تھا لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ اپنے خاندان کی یہ عقیدت سمجھ سے بالاتر تھی. میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ اس شخص میں آخر کیا خوبی ہے کہ سب اسی کے گْن گا رہے ہیں۔ اپنے گاؤں میں سائیں کمال خان شیرانی سے اولین تعارف کے موقع پر سائیں کا پہلا سوال تھا "مرد بنوگے یا مْلّا؟” میرا بے ساختہ جواب تھا "مرد مْلّا”. مجھے ان کا تبسم آج بھی یاد ہے۔
وقت گزرا اور ان سے مکالمے کا موقع ملا تب پتہ چلا کہ میٹھے بول میں جادو ہے تبھی تو سب اس "ملنگ” کے مرید ہیں۔ وہ کٹر قوم پرست تھے لیکن اپنے لئے وہ قوم پرست کی بجائے قوم دوست اور وطن پرست کی تعبیر استعمال کیا کرتے تھے. بقول ان کے قوم پرست استعمار کی اصطلاح ہے۔ ہمارا کام اپنے قوم کی اصلاح ہے ہم "قوم پرست” نہیں "قوم دوست”ہیں۔
سائیں کمال خان ضلع شیرانی کے شمال مغربی علاقے میں واقع چلغوزے کے درختوں سے ڈھکے مشہور پہاڑ "شین غر” کے دامن میں آباد سرسبز گاؤں "شنہ پونگہ” میں پیدا ہوئے۔ شین غر اور شنہ پونگہ دونوں سے سبز کے معنی جھلکتے ہیں اور سائیں سبز رنگ کے دلدادہ تھے. وہ اکثر فرمایا کرتے تھے "لگتا ہے خدا کو بھی سبز رنگ پسند ہے، تبھی تو دْنیا میں سبز رنگ کا غلبہ ہے”.
ان کے والد کا نام ملک عیسیٰ خان اور دادا کا نام جمعہ خان تھا. سکول ریکارڈ میں ان کی تاریخِ پیدائش1924 درج ہے تاہم سائیں کے بقول وہ1920 میں پیدا ہوئے تھے۔ سائیں کے تین بھائی تھے، نواب خان، ابراھیم خان اور مٹھا خان. سائیں والدین کے سب سے بڑے بیٹے تھے. انہوں نے اپنے کردار سے ثابت کر دکھایا کہ وہ واقعتاً عظیم بلکہ بہت عظیم ہیں۔
سائیں کو عہد طفولیت ہی میں تعلیم کی خاطر طویل سفر اختیار کرنا پڑا. پرائمری تک تعلیم "کلی کڑمہ” میں حاصل کی۔1935 میں گاؤں سے پنجم پاس کرنے کے بعد فورٹ سنڈیمن (ژوب شہر) تشریف لے گئے. فورٹ سنڈیمن مڈل سکول (گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول) سے ہشتم پاس کرنے کے بعد پشین کا رخ کیا. مشن ہائی سکول پشین سے میٹرک کے بعد اْن کی خواہش علی گڑھ جانے کی تھی لیکن اپنے استاد کے مشورے سے1942میں اسلامیہ کالج پشاور کا انتخاب کیا.
اسلامیہ کالج پشاور میں انہوں نے چارسدہ کے پروفیسر محمد ادریس سے فلسفہ، سوشلزم اور سیاست کا درس لیا. اسی زمانے میں مولنا سید ابواعلیٰ مودوی سے ان کی خط وکتابت بھی ہوئی۔1945 میں اسلامیہ کالج سے بی اے کرکے فارغ ہوئے۔ بی اے اکنامکس میں انہوں نے گولڈ میڈل حاصل کیا. اسلامیہ کالج جیسے معروف و معتبر ادارے کے گولڈ میڈلسٹ جیسے اعزاز یافتہ اور اقتصادیات و سیاسیات کے ماہر اس تعلیم یافتہ نوجوان نے لندن اور ماسکو جیسے پْر رونق اور آباد شہروں کی بجائے دوبارہ بلوچستان کے پسماندہ اور ویران صحراؤں کا رخ کیا. یہ سائیں کمال خان کا سب سے بڑا کمال تھا.
فراغت کے فوراً بعد حکومتِ وقت نے آپ کی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو تحصیل گلستان میں نائب تحصیلدار کے عہدے پر فائز کردیا. پانچ سالہ ملازمت کے بعد1950 میں سائیں کمال خان شیرانی اور ان کے دو احباب میر عبداللہ جان جمالدینی اور سردار بہادر خان بنگلزئی نے سرکاری تکبر اور حکومتی رعونت سے نفرت کے سبب احتجاجاً استعفیٰ دے دیا. پچاس کی دھائی میں نائب تحصیلدار جیسے منافع بخش، با اثر اور طاقتور ترین بیورو کریٹک نوکری کو چھوڑنا کوئی مذاق نہ تھا. بائیں بازو کے اس ملنگ کے لئے البتہ یہ دائیں ہاتھ کا کھیل تھا. ان کا "آزاد سر” غلام سرکار کو "یس سر” کہنے کے لیے کبھی نہ جھک سکا.
سائیں کمال خان شیرانی نے اپنی سیاسی جدوجہد اور ادبی سفر کا آغاز1950 میں عبداللہ جان جمالدینی (نوشکی)، ڈاکٹر خدائیداد (پشین)، سردار بہادر خان بنگلزئی اور دیگر احباب کے ساتھ "لٹ خانہ” سے کیا۔ "لٹ خانہ” کو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے پشتون و بلوچ قوم پرستوں کے سیاسی، ادبی اور مرکزی دفتر کا درجہ حاصل تھا. بقول کسے "اِس مکان کے مکین یہ لٹ (متوالے) جدید و قدیم فلسفہ کے بھید کھولتے، پوشیدہ علوم کے اسرار جانتے، سیاسی مسائل کا حل نکالتے اور معاشی و اقتصادی مسائل پر بحث کرتے. گویا "لٹ خانہ” بلوچستان کے تعلیم یافتہ قوم پرست انقلابی نوجوانوں کی غیر منتخب شدہ "سیاسی اسمبلی” اور "انقلابی کورٹ” کا نام تھا. درحقیقت "لٹ خانہ” کسی سنٹر یا ادارے کی بجائے ایک منظم تحریک اور نظریے کا نام تھا جہاں انقلابی عناصر پشتون و بلوچ قومیت سے بے نیاز سیاسی نظریات اور انقلابی خیالات کے اشتراک سے شیر و شکر ہوگئے تھے. سائیں بلاشبہ اس "لٹ خانہ” کے روحِ رواں تھے.
سرکاری نوکری کو لات مارنے کے بعد سائیں کمال خان شیرانی نے ایک طرف لٹ خانہ تحریک کو منظم کیا تو دوسری طرف انہوں نے پانچ دیگر احباب سمیت "فی الحال سٹیشنری مارٹ” کے نام سے ایک کتب خانہ کھولا.سٹیشنری کھولنے کے بعد انہوں نے "پشتو ادبی ٹولنہ” کے نام سے انجمن بنائی. اسی انجمن کی زیر سرپرستی انہوں نے پشتو زبان کی ترویج کے لئے اپنے ماہنامہ رسالے "پشتو” کی اشاعت کا آغاز کیا.
سائیں کمال خان شیرانی نے 1951 میں عبدالصمد خان اچکزئی کی تنظیم "ورور پشتون” میں شمولیت سے ان کے ساتھ اپنی سیاسی رفاقت کا آغاز کیا. "ورور پشتون” نیشنل عوامی پارٹی میں ضم ہوئی تو سائیں بھی نیپ کے ہم سفر بنے. آپ ہی کی کوششوں سے ژوب کی معروف شخصیات مولوی رحمت اللہ مندوخیل (سکالر و ادیب)، سائیں کمال الدین کمال شیرانی (شاعر و ادیب) اور عبدالرحیم مندوخیل (سیاستدان و ادیب) پشتون قومی تحریک کے ساتھی بنے.
جولائی1953 میں سائیں نے اپنے رسالے "پشتو” کی اشاعت کا آغاز کیا. یہ بلوچستان کا پہلا پشتو ماہنامہ تھا. سائیں اس رسالے کے ایڈیٹر تھے. اس رسالے کے کل بارہ شمارے نکلے جن میں چھ شمارے یک ماہی اور چھ شمارے دو ماہی تھے. مدیر ہونے کے باوجود سائیں نے صرف پہلے شمارے کا اداریہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا "پشتانہ یو، پہ پشتو سرہ ژغیژو، پہ پشتو نہ سرہ پوھیژو” یعنی ” ہم لوگ پشتون ہیں، پشتو زبان میں باہم گفتگو کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی پشتو بات کو سمجھ نہیں پاتے” ۔اس رسالے میں چونکہ سوشلزم اور نیشنلزم سے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے اس لئے جون 1954میں حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔
سائیں نے 1954 میں مغل کوٹ کے مقام پر ایک پرائمری سکول قائم کیا تاہم بعض افراد کی مخالفت کے باعث تعلیمی ترقی کا یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا. انہوں نے مانڑیں خوا کے قریب اوبہ سر کے مقام پر ایک دینی مدرسے کی بنیاد بھی رکھی جس کے ساتھ محکمہ تعلیم کے تحت پرائمری سکول اور ریڈ کراس کے تعاون سے ڈسپنسری بھی منظور کرلی گئی مگر ایوبی مارشلا کے بعد بعض افراد کی ایما پر حکومتی ایکشن کے باعث مجبوراً مدرسے کو بند کرنا پڑا۔
ون یونٹ کے بعد عبدالصمد خان اچکزئی نیشنل عوامی پارٹی سے علیحدہ ہوئے تو سائیں نے بھی ان کی رفاقت میں نیپ کو خیرباد کہہ دیا. انہوں نے مل کر پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی اور آپ مرکزی کمیٹی کے ممبر منتخب کئے گئے. عبدالصمد خان اچکزئی کی رحلت کے بعد انہوں نے تنظیم کو بحران سے نکالنے کے لئے پارٹی کا مرکزی کانگریس منعقد کرایا اور ان کے فرزند محمود خان اچکزئی کو مرکزی صدر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سائیں کمال خان شیرانی نے اپنی ذات اور اپنے نظریات کے بارے میں لکھنے سے مکمل گریز کیا. برسوں قبل بائیں بازو کے اس معروف دانشور، ممتاز سیاسی رھبر، اسلامیہ کالج پشاور کے گولڈ میڈلسٹ اور نصف درجن سے زائد قدیم انگریزی کتب کے مترجم سائیں کمال خان شیرانی سے بندہ نے کہا "سائیں! آپ اپنی زندگی کے حالات کیوں نہیں لکھ لیتے تاکہ سیاسی ورکرز اس سے اپنی عملی زندگی میں رہنمائی حاصل کرسکیں؟”۔ سقراطِ وقت چند ثانی خاموش رہے، چند لمحات کی یہ خاموشی دراصل کئی عشروں پر مشتمل اپنی سابقہ حیات کا جائزہ تھا. صرف چند سیکنڈ بعد سائیں کی نگاہ اٹھی، لب کھلے اور فرمایا ” میری زندگی بہت تلخ گزری ہے۔ میں اپنی تلخیوں میں دوسروں کو شریک نہیں کرنا چاہتا”. کمال کا آدمی اور کمال کا جواب تھا.
سائیں کو 1994 میں پارٹی نے سینیٹر بنانے کی پیشکش کی، سائیں کمال خان شیرانی نے اس پرکشش پیشکش کو ٹھکرا دیا. پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دیگر لیڈروں کی بسیار کوششوں کے باوجود سائیں کو الیکشن لڑنے پر قائل نہ کیا جاسکا. ایک دفعہ بندہ نے ان سے پوچھا سائیں آپ نے اپنی پوری زندگی پشتونستان کے خواب آنکھوں میں سجائے بسر کی، دربدر کی ٹھوکریں کھائیں، دکھ جھیلے، فتوؤں کا سامنا کیا اور جب پارٹی نے آپ کو پوری پاکستانی قوم کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کا موقع دیا تو آپ انکار کرگئے. سائیں کا کہنا تھا ” اول تو مجھے "ٹر” بننے کا کوئی شوق نہیں، دوم یہ کہ پاکستان کا نظام کچھ ایسا ہے کہ عوام کی ڈیمانڈ مجھے بیوروکریسی ہرگز پورا کرنے نہیں دے گی اور عوامی خواہشات کی تکمیل کے بغیر میرے سینیٹ جانے کا فائدہ کیا ہوگا؟ ۔اسی لئے میں نے پارٹی احباب کے شدید اصرار کے باوجود انکار کردیا‘‘. ایسے بھی کچھ باکمال لوگ تھے اکیسویں صدی میں.
سائیں کمال خان شیرانی نے انگریزی زبان کی کئی معروف کتابوں کا پشتو میں ترجمہ کیا ہے۔ عبدالصمد خان اچکزئی کے حکم پر انہوں نے میکسم گورکی کے ناول "ماں” کا پشتو ترجمہ کیا تاہم یہ ترجمہ ان سے کہیں گم ہوگیا تھا. "سقراط کا مقدمہ، جیل اور زھر کا پیالہ” پر انہوں نے کام کیا ہے۔ والٹئیر کی کتاب "کانڈیڈ” کا انہوں نے "سپیسلی” کے نام سے پشتو ترجمہ کیا. کرسٹوفر کاڈویل کے مضمون "لبرٹی” کا ترجمہ پشتو میں "آزادی” کے نام سے کیا. "ڈائیلاکز آف پلیٹو” کا ترجمہ "دہ افلاطون ژغاوے کے نام سے پشتو زبان میں کیا. اپنے استاد پروفیسر محمد ادریس کے کہنے پر میکسم کورگی کی سوانح عمری کا ترجمہ بھی کیا. جبکہ غلام محمد کی کتاب "اسلام اِن پریکٹس” کا ترجمہ "ریشتنی اسلام” کے نام سے کیا.
پانچ نومبر2010میں سلیازئی کے کنارے برسہا برس تک تشنگانِ علم و ادب کو سیراب کرنے والا یہ دریا موت کے سمندر میں اتر گیا. ان کی رحلت پر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے لکھا تھا کہ "انسانیت نے ایک حق پرست نہیں، ایک انقلابی نہیں بلکہ انسانیت نے "کمال خان شیرانی” کو کھو دیاہے‘‘۔ ناچیز کے نقطہ نظر سے خراجِ عقیدت کا یہ منفرد انداز ہی ان کی رحلت سے ہونے والے نقصان کی صحیح ترجمانی کرسکتا ہے۔
ان کے فرزندان میں رشتیا مل، پشتون یار، محمود یار اورمیوند شامل ہیں. لیکن ان کے شاگردوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اسے سمیٹنے کے لئے کتابوں کے ورق بھی شاید کم پڑ جائیں. انہوں نے اپنی حیات میں اپنی کھٹن زندگی کے باوجود دوسروں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے جو کام کیا ان کی بدولت وہ آج بھی زندہ ہیں۔
ان کے نظریات زندہ ہیں، ان کی خدمات زندہ ہیں، ان کے افکار زندہ ہیں، ان کا کردار زندہ ہے، وہ کتابوں میں زندہ ہے، وہ نصابوں میں زندہ ہے، وہ حوالوں میں زندہ ہے، وہ جرگوں میں زندہ ہے، وہ ایوانوں میں زندہ ہے، وہ ذھنوں میں زندہ ہے، وہ دِلوں میں زندہ ہے. وہ زندہ تھے، وہ زندہ ہیں۔
میرا تعلق دائیں بازو سے ہے اور سائیں کمال خان شیرانی بائیں بازو کے سرخیل تھے، افکار و نظریات کے حوالے سے شدید اختلاف کے باوجود آج اگر میرا دایاں ہاتھ ان کے لئے حرکت میں ہے تو اس کی وجہ ان کی عظمت ہے. بلاشبہ وہ بہت عظیم انسان تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے