فون کی مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے بالآخر میرے لاشعور کو جھنجوڑ کر جگا ڈالا۔ میں نے بند آنکھوں سے دو چار لمبے لمبے ہاتھ سائیڈ پر رکھی ہوئی ڈولی کی تلاش میں مارے مگر ہر بار میرا ہاتھ خلا میں بھٹکتا ہوا واپس بستر پر آگرتا، تو مجھے پُوری طاقت سے اپنی بند آنکھیں کھولنا پڑیں۔ فون کی سکرین پر اُس کی تصویر جگمگارہی تھی جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے آنکھیں تھک اور انگلیاں گھس جاتی تھیں۔ اور جب کبھی فون پر اُس کی تصویر جھلملا اٹھتی تو مریم بے تحاشا ہنستے ہوئے اپنی توتلی زبان میں اُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہتی ’’ہر وقت کالی عینک لگائے رکھتا ہے ‘‘۔ (کیوں کہ فون پر لگی تصویرمیں اُس نے کالی عینک لگائی ہوئی تھی۔) میں یہ فون مس کرنا افورڈنہیں کرسکتی تھی۔ فوراً اُٹھا لیا۔ میں دل میں اپنے نیٹ کنکشن کو کوس رہی تھی کہ ابھی وہ جِھلّا کر فون بند کردے گا۔ اُسے میری آوازاور جمائیوں کو روکنے کی بے سُود کوشش سے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں گہری نیند میں تھی ۔ کہنے لگا، چاہو تو دوبارہ سوسکتی ہو۔ میں نے کہا ، بقول نعیم ہیری تم مشکل سے تو ہاتھ آتے ہو، تمہیں کھونا کون برداشت کرے ۔ نیند تو میں فوراًڈھونڈ لوں گی۔ (خود ہیری بھی یو ایس اے جا کر بیٹھ گیا ہے اور مشکل سے ہاتھ آتا ہے )۔میں نے اُسے بتایا کہ مجھے مسلسل تین خواب آئے۔ اُس نے کہا خواب مہمان نہیں جو آتے ہیں۔ یہ تم نے خواب دیکھے ہیں۔میں نے کہا، ویسے خواب بھی انمول مہمانوں کی طرح ہی ہوتے ہیں ، آتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔جب تک ان کی منتیں نہ کرو ان کے پیچھے نہ بھاگو ٹھہرتے ہی نہیں۔ کہنے لگا، ایک دفعہ ہمارے ادارے میں ایک مستقل قسم کا مہمان آگیا ۔ جوجانے کا نام نہیں لیتا تھا ۔میرے دوستوں نے لطیفوں کے ذریعے اُسے احساس دلانے کی کوشش کی۔ سو کہا کہ ایک دفعہ کسی شخص کے گھر میں کوئی مہمان آگیا جو جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ باقی لڑکے اتنا ہی سُن کر ہنسنے لگ جاتے مگر مہمان پُوچھتے ۔۔۔پھر؟ پھر کیا ہُوا؟؟بد قسمتی سے مہمان کی حِس مزاح بھی زیرو تھی!!
ہم اپنے گذرے بچپن، آباد واجداد، گاؤں گھر اور تعلیمی اداروں کو یاد کرکے ہنستے تھے ، خوش ہوتے تھے ۔ اس نے شاعری پر مجھے چند اور نعیم ہیری کے لیے بہت سی ہدایت دیں ۔ کہنے لگا جب بھی شاعری پڑھویا گاؤ اس کا تلفظ دُرست کرو، اس کا ماحول مناسب کرو۔ شاعر کے ذِہن میں جاؤ۔ کلائمکس پر پہنچ جاؤ تو میوزک کا ایک نوٹ اوپر لے جاؤ۔ تبھی شاعری کا ترنم اور پیغام پُر اثر ہوگا۔ آواز کلیئر نہیں آرہی تھی۔ میں نے اپنے کنکشن پر اُس سے معذرت کی تو کہنے لگا، دراصل میں دوران سفر سُرنگ سے گذر رہا ہوں ، تو اس لیے لائن بار بار کٹ رہی ہے ۔ ہم اکثر اپنی ہی پراڈکٹس کو ہی کمتر درجہ دے رہے ہوتے ہیں۔ دل میں مجھے خوشی بھی تھی کہ ہمارے ملک کا کنکشن بیرون ملک سے بہتر ہے ۔ شاہ رُخ خان کا ڈائیلاک بھی یاد آیا۔ Never underestimate the power of a common manیعنی اِس معاملے میں اہم اٹلی کو Beatکرسکتے تھے ! اس مسلسل کٹت اور جُڑت نے ایک بار پھر مجھے نیند کے جُھولے میں جُھلا دیا۔ اب کے فون کی بیل پر پھر میں نے ڈولی (سائیڈ ٹیبل) کی تلاش میں دوچار لمبے لمبے ہاتھ مارے تو اُس نے کہا، تو تم دوبارہ سوگئیں۔چاہو تو سو سکتی ہو۔ میں نے کہا، اب میں ان سُست کنواریوں کی طرح نہیں بننا چاہتی جو دُولھے کا انتظار کرتے کرتے سوگئی تھیں اور پھر شادی گھر سے باہر ہی سوتی رہ گئیں۔ ۔۔ سو تو ہم دوبارہ بھی سکتے ہیں ۔ وہ ڈولی کی بات پر بہت ہنسا اور کہنے لگا ، یہ ڈولی میں کیا قیمتی شے ہے جو تم نیندمیں بھی ڈولی ڈھونڈتی رہتی ہو۔ تو میں نے اُسے بتایا کہ گرلز ہاسٹل میں ہر لڑکی کے بیڈ کے ساتھ ایک ڈولی ہوتی تھی جس میں اس کا قیمتی اثاثہ یعنی کنگھی ، شیشہ اور پاؤڈر وغیرہ ہوتا تھااور صبح اٹھتے ہی ہر لڑکی اپنی اپنی ڈولی میں گھسی ہوتی تھی۔ بڑا کلاسیک درجہ ہوتا تھا ڈولی کا گرلز ہاسٹل میں۔ دوستوں کے لکھے ہوئے خطوط اور گھر سے آئی ہوئی کھانے پینے کی اشیا اسی ڈولی میں چھپائی جاتی تھیں۔ جب کہ وہ ہمیشہ کسی عاشق کے دل کی طرح کھلی ہوتی تھی۔ اس نے گاؤں کے کچن میں رکھی ہوئی ڈولی کو یاد کیا جس میں ہماری مائیں کھانے پینے کی مزے دار اور تازہ اشیا رکھا کرتی تھیں، اور جو ہمیں اپنے کھونوں سے بھی زیادہ پیاری لگتی تھی۔ ہم نے ہیر کی ڈولی کو بھی یاد کیا جسے سماج اور رسم ورواج کے ہاتھوں کسی اور آنگن میں اترنا پڑا۔ پھر ہم نے اس زمانے میں اپنے تایا ، چاچا، والد اور پھوپھو کی محنتوں اور اُن کے شاندار نتائج کو یاد کیا کہ 1950کی دہائی سے شروع کر کے انہوں نے کس طرح اس زمانے کے محدود وسائل میں اِس قدر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انتہائی مشکل حالات میں وہ سب کر دکھایا جو آج کل کے لوگ بہترین سہولتوں میں بھی نہیں کرپارہے ۔ یعنی چھے سات زبانوں پر عبور حاصل کرنا ، اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگری لینا، ڈاکٹریٹ کرنا۔۔۔ گاؤں میں گھر گھر پانی پہنچانے کے منصوبے پر عمل کروانا، جب دوبہنوں کے بعد ہمارا پہلا بھائی پیدا ہوا تو اُس وقت بھی ہمارے والد صاحب تعلیم حاصل کرنے شہر گئے ہوئے تھے۔۔۔
جب کہ گاؤں میں رشتہ دار کسی ڈھول والے اور پیر وبین والے کی تلاش میں تھے!! پہلی کا تو مجھے علم نہیں، دُوسری بہن کی دفعہ کسی میوزیکل انسٹرومینٹ کی تلاش تو کیا، ذکر تک نہیں ہوا تھا!! گاڑی شاید کسی لمبی سُرنگ میں داخل ہوگئی تھی کہ اُس نے فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا کہ میں چاہوں تو دوبارہ سو جاؤں ۔۔۔ اُس وقت ہمارے ہاں شام ڈھل رہی تھی۔ وہاں دوپہر جوان تھی ، اور ہیری کے ملک میں صبح جنم لے رہی تھی ۔ ہم ساری کائنات ے جُڑے ہوئے تھے۔ کسی ایک کا دل ٹوٹے تو کائنات کے ہر حصے میں درد آتا ہے ۔ کوئی ایک ہنسے تو کائنات کے ہر ذرے کے حصے میں کچھ چمک آتی ہے۔میں نے بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا: میں اپنے سہولت زدہ کمرے کے بیڈ پر نہیں تھی، جس کے ساتھ ہی ایک ڈولی (سائیڈ ٹیبل) پڑی ہوئی ہے ۔ جس پر میں فون رکھتی ہوں۔ بل کہ میں تو درویشی کمرے میں فرشی بستر پر ایک پنکھے کی گھر ر گھرر کے بیچ اتنی بے سُدھ سوئی ہوئی تھی کہ گھنٹی کی آواز پر میرے لاشُعور نے مجھے جھنجوڑ کر جگاڈالا تھا۔ کیا کوئی گھنٹی ضمیر کو بھی جھنجوڑ کر جگا سکتی ہے؟؟؟۔۔۔ کیا فرشی بیڈ پر سونے سے لمبے لمبے ہاتھ مارنے کو دل کرتا ہے یا لگژری بیڈ پر سونے سے ؟؟ کیا فرشی بستر پر سونے سے اتنی بے سُدھ نیند آتی ہے ؟نیند میں تومیں اپنے ہی بیڈ پر سو رہی تھی!! مگر اس فرشی بستر کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف درویشوں کو برداشت کرتا ہے ۔ باقیوں کے لیے تو یہ کانٹوں جیسا ہوتا ہے ۔

پہلے مجھ کو
راس بہت تھا
لیکن جب سے
تم سے جان پہچان ہوئی
اب یہ بستر
میرے لیے تو
کانٹوں جیسا ہوجاتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے