خاندانی پس منظر

لینن ایک خوشحال استاد اور ایجوکیشن افسر ایلیا نکولائی ایچ اولیانوف اور اس کی بیوی ماریا الیگزینڈروونا اولیانوفا بلانک کا چوتھا بچہ تھا۔اس وقت اولیانوف خاندان دریائے والگا کے کنارے واقع سمبرسک قصبے میں رہ رہا تھا۔ایلیا اور ماریا کا تعلق اس قصبے سے نہیں تھا۔لینن کے آباؤ اجداد کا تعلق آستراخان شہر سے تھا۔آسترا خان تاریخ میں تاتاری خوانین کا دارلحکومت رہا ہے۔اس کی مقامی آبادی تاتاریوں،کرغیزیوں ،کالمکوں اور روسیوں پر مشتمل تھی۔منگول نسل کے لوگ (تاتاری،کرغیزی،کالمک)روسیوں کے رعیتی غلام تھے۔انیسویں صدی کے اوائل تک یہاں غلاموں کی بہت بڑی منڈی تھی، جہاں غلاموں کی خرید وفروخت کا رواج عام تھا۔روسی تاجر کالمکوں اور کرغیزیوں کے بچوں کی خریدوفروخت کرتے تھے۔1808ء کے روسی قانون کے مطابق ایسے غلام بچے جب پچیس برس کے ہو جاتے تھے تو انہیں آزاد تصور کیا جاتا تھا۔اس کے تقریباً دو سال بعد غلامی کویکسر منسوخ کردیا گیا۔آستراخان شہر کی حیثیت ایک تجارتی مرکز کی بھی تھی۔اس کے ایران سے تجارتی روابط تھے۔روسی قوم کے لوگ زیادہ تر تجارت پیشہ تھے ۔ لینن کا دادا نکولائی ویسلی وچ اولیانوف آسترا خان میں1765ء میں پیدا ہوا۔اس کی بیوی یعنی لینن کی دادی اینا الیکزیوینا سمرنوف تھی،جو الیکسی سمرنوف کی بیٹی تھی اور اس کا تعلق کالموک قوم سے تھا۔ان کے چار بچے تھے،جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔سب سے بڑا لڑکا ویسلی تیرہ برس کا تھا اور لڑکی ماریا بارہ سال کی اور فیدوسیا دس سال کی۔اور سب سے چھوٹا لڑکا ایلیا صرف دو سال کا تھا۔نکولائی ویسلی وچ اولیانوف پیشے کے اعتبار سے ایک درزی تھا۔جب ایلیا صرف پانچ سال کاہوا تو اس کے والد نکولائی ویسلی وچ اولیانوف کا انتقال ہو گیا۔ایلیاکا بڑا بھائی اس وقت سترہ برس کا تھا۔ نکولائی خاندان کے لیے اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑ کر مرا تھا۔
بعض روایات کے مطابق ایلیاکے والد نکولائی کا تعلق نژنی۔ نوگوروڈ سے تھا۔جہاں نیکراسوف کی بہت سی خوب صورت نظموں کا جنم ہوا۔ریپن کی مشہور پینٹنگ”Volga Barge Haulers” اور میکسم گورکی تین جلدوں پر مشتمل آپ بیتی یہاں بہتے ہوئے مادرِ والگا کی خوب صورت وادی کے مناظرمسحور کن پیش کرتے ہیں۔ بعدازاں وہ آستراخان منتقل ہوگیا۔ ایلیابھی آستراخان میں 1831ء میں پیدا ہوااور اس کی زندگی کابیشتر حصہ روس کے عظیم دریا والگا کے کنارے واقع مختلف قصبوں میں گزرا۔اس کے بڑے بھائی نے خاندان کی کفالت کی۔وہ تعلیم حاصل کر کے ترقی کرنا چاہتا تھا۔چوں کہ والد کی وفات کے بعد اس پر پورے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوگئی تھی۔لہذاوہ خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکا۔لیکن اس نے اپنے سات سالہ بھائی ایلیاکو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ویسلی ایک مزدور تھا۔اس نے خود شادی نہیں کی۔علاوہ ازیں اس کے ایک ہمسایہ اور دوست پادری نکولائی لیوانوف نے بھی اس کی بہت مالی مدد کی۔اس نے اپنے بھائی کو مقامی سکول میں داخل کروانے کے لیے بہت کوشش کی اور اس کی فیس کا انتظام بھی کیا۔بعدازاں اس نے اس کی مذہبی و اخلاقی تربیت میں بھی بہت اہم کردار سرانجام دیا۔ایلیا نے ہمیشہ اس کواور اپنے بڑے بھائی کو تشکر کے ساتھ یاد کیااور ان کا نہایت احترام سے ذکر کیا۔اس پادری نے ایلیا پر دو قسم کے اثرات مرتب کیے۔ایک تو مضبوط خاندانی تعلقات کا احساس اور دوسرا پختہ مذہبی عقیدے کی پیروی کرنے کا احساس۔وہ پوری زندگی ایک طرف تو مضبوط خاندانی تعلقات کو قائم رکھے رہا اور دوسری طرف یونانی آرتھوڈکس عقیدے پرانتہائی راسخ العقیدگی کے ساتھ قائم رہا۔ لہذا ایلیا نے آستراخان کے مقامی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور انیس برس کی عمر میں1850 ء میں اس نے سلور میڈل کے ساتھ گریجویشن کیا۔یہ اس سکول کی پچاس سالہ تاریخ میں پہلا طالب علم تھا،جس نے سلور میڈل حاصل کیاتھا۔اب اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے کازان یونی ورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔لہذا اس نے کازان یونی ورسٹی میں داخلے اور وظیفے کے حصول کے لیے کوشش شروع کردی اور اس نے دونوں کے لیے درخواست دے دی۔اسے آستراخان سکول کے ڈائریکٹر کی سفارش پرکازان یونی ورسٹی میں داخلہ تو مل گیا لیکن اس کے وظیفے کی درخواست مسترد کردی گئی۔اس کے بھائی ویسلی نے اس کی تعلیم کا ساراخرچ برداشت کیا۔ہرچند ایلیاخود بھی اس دوران کازان کے تاجروں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر اپنا گزارہ کرتا رہا۔
انیسویں صدی کے وسط تک کازان یونی ورسٹی مشرقی صوبوں کے طالب علموں کی تعلیم و تربیت کے لیے واحد یونی ورسٹی تھی۔اس میں دریائے والگا پر واقع مختلف قصبوں سے تعلق رکھنے والے طالب پڑھتے تھے۔یہ نپولین کی جنگوں کے زمانے کے دوران قائم ہوئی تھی۔ابتدا میں یہ اشرافیہ طبقے کے لوگوں کی یونی ورسٹی تھی اور اس کا تعلیمی معیار بھی انتہائی پست تھا۔زارِروس نکولس اول کے زمانے میں یہ ایک مشہور یونی ورسٹی کے طور پر ابھری۔غیر اقلیدسی جیومیٹری کے رہنما لوبوچیوسکی ایسا عالم دو عشروں تک اس کا پرنسپل رہا۔1850ء میں جب ایلیا نے اس یونی ورسٹی کے ریاضی اور فزکس کے شعبے میں داخلہ لیا تو اس سے پہلے لوبوچیوسکی اپنی ملازمت سے سبک دوش ہوچکا تھا۔لیکن وہ ہمیشہ اس یونی ورسٹی کے ہونہار طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا،جن میں ایلیا بھی شامل تھا۔ایلیا کو ریاضی اور فزکس سے جنون کی حد تک عشق تھا۔وہ اپنی ناقص صحت اور مفلسی کے باوجود پڑھائی میں بہت محنت کرتا تھا اور اپنے ایک لمحے کو بھی کبھی بالکل ضائع نہیں کرتا تھا۔ اس نے 1854 ء میں "Olbers’ Method and Its Application in Tracing The Comet Klinkerfuss”کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا اور فزکس اور ریاضی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
ایک سال بعدوہ پنیز میں ا ڈوریانسکی انسٹیٹیوٹ میں فزکس اور ریاضی کا سینئراستاد مقرر ہوا ۔ڈوریانسکی انسٹیٹوٹ پینزا میں اشرافیہ کے بچوں کا سکول تھا۔بعدازاں ایلیا اولیانوف کا نام مقامی Meteorological Officeکے انچارچ کے لیے تجویز کیا گیا اور لوبوچیوسکی نے اس کی تعیناتی کے لیٹر پر دستخط کیے۔پینزا ایک بیکار اورذات پات زدہ قصبہ تھا۔سکول نجی عطیاتی رقوم پر منحصر تھا۔اس کا معیارِ تعلیم انتہائی پست تھا۔اشرافیہ طبقے کے بچے بہت سست ،بدتمیز اورگستاخ تھے،جنہیں پڑھنے لکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔1861ء میں رعیتی غلامی کی تنسیخ کے بعد اس سکول کی عطیاتی رقوم بہت گھٹ گئیں۔اس کے حکام نے رپورٹ پیش کی کہ سکول زوال پذیر ہورہا ہے۔سینیٹر سفانوف نے1859 ء میں اس سکول کا دورہ کیا اور انسپیکٹر پوسٹل نے تین سال بعد رپورٹ پیش کی کہ ماسٹر اولیانوف کی کوششوں اور محنت کی وجہ سے اس کا نتیجہ پہلے کی نسبت بہت بہتر برآمد ہوا ہے،جو یہاں ریاضی اور فزکس پڑھاتا ہے۔اس نوجوان ماسٹر نے Meteorologyپر کئی ایک رسائل تحریر کیے اور طوفانوں اور بجلی کی چمک کے conductorsپربھی ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔لیکن اس کام سے اسے کوئی مالی فائدہ بالکل نہیں ہوا۔ ایلیا کی پینزا میں ایک دوسرے استاد آئی ڈی ویرٹینیکوف سے دوستی قائم ہوگئی اور اس کا اس کے گھر میں آنا جانا تھا۔ ایلیا کی ملاقات اس کی سالی ماریا الیگزینڈروونا بلانک سے ہوئی،جو بہت خوب صورت اور پرکشش تھی۔وہ اس وقت تیس سال کا تھااور ماریا چھبیس برس کی۔ان دونوں کی یہ ملاقات بالآخر محبت کے دائمی رشتے میں تبدیل ہوگئی۔لیکن انہوں نے شادی کوشائد پیسوں کی کمی کی وجہ سے1863ء کے موسمِ گرما تک موخر کیے رکھا۔ 1863 ء کے موسمِ گرمامیں ایلیا اور ماریا کی شادی پینزا میں ہوئی ،جہاں ایلیا نژنی۔ نوگوروڈ منتقل ہونے سے پیشتر ریاضی اور فزکس پڑھاتا تھا۔
ماریا ڈاکٹر الیگزینڈربلانک کی بیٹی تھی،جو اس وقت کے ترقی پسند خیالات سے متاثر تھا۔اس نے 1825ء میں دسمبرسٹ بغاوت کی تحریک سے تھوڑی سی مدت پہلے پیٹرسبرگ میڈیکل اکیڈمی سے بحیثیت فزیشن اورسرجن گریجویشن کیا تھا۔اس نے سمولینسک،پرم،رگا اور کازان میں مختلف ہسپتالوں میں ہاؤس فزیشن اور فارنسک ڈاکٹر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔اپنی بیوی کی وفات کے بعد وہ اپنے فرائضِ منصبی سے سبک دوش ہوگیا۔اس نے کازان کے نزدیک کوکوشکینومیں ایک زرعی فارم خریدا اور زمین داری شروع کی۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے نزدیکی ہمسایہ دیہاتوں کے مفلس لوگوں کو اپنے میڈیکل علم سے بھی بہت فائدہ پہنچایا۔ ڈاکٹر بلانک کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روسی جرمن یا بالٹ تھا۔اس نے والگا کے ایک جرمن خاندان میں شادی کی تھی۔لیکن اس کی بیوی اپنے پیچھے پانچ معصوم بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑ کرجوانی میں فوت ہوگئی تھی۔ان یتیم بچوں نے اپنی ایک سخت گیر خالہ کے ہاں جرمن زبان اور روایت کے مطابق پرورش پائی۔ان کے خاندان میں ایک سویڈش خالہ اور نانی بھی تھی،جن کی تربیت نے ان بچوں پر سویڈش ثقافتی اثرات مرتب کیے۔ ڈاکٹر الیگزینڈربلانک تعلیم اورصحت کے معاملے میں بہت حساس تھا۔اس نے اپنے بچوں کی پرورش میں بھی صحت اور تعلیم کو ہمیشہ ترجیح دی۔وہ روسو کی پیروی میں فطرت کی شفائی قوت میں یقین رکھتا تھا۔وہ معاصر روسی علاج معاجے میں نیم حکیمی اور توہمات کے سخت خلاف تھا۔اس نے اپنے بچوں کو چائے اور کافی سے ہمیشہ دور رکھا اور انہیں آرام دہ کپڑے پہننے سے بھی ہمیشہ منع کیا۔اس کے برعکس ان کی جرمن خالہ انہیں گیلے تولیے میں لپیٹ کر سلاتی تھی۔اس قسم کے دو مختلف رویوں نے بچوں پر بہت عجیب و غریب اثرات مرتب کیے۔نتیجتاًلینن کی ماں ماریاذہنی اور جسمانی طور پر بہت مضبوط بن گئی اوروہ سخت بحرانوں اور دل خراش حالات سے گزرنے کے باوجود اسی سال تک زندہ رہی۔ اس نے اپنے بچوں کی پرورش بھی بالکل اسی انداز میں کی۔
ڈاکٹر الیگزینڈر بلانک نے اپنے بچوں کو آزادی کی تعلیم دی۔اس نے ماریا کوسکول نہیں بھیجا۔بلکہ اسے گھر پر تعلیم دی ۔ کئی اطالیق اسے گھر پر پڑھانے آتے تھے۔وہ روسی،جرمن اور فرانسیسی زبانیں روانی سے بول سکتی تھی۔اس نے یورپی اور روسی ادب کا مطالعہ کیا۔اسے موسیقی سے بہت لگاؤ تھا اور وہ پیانو بجاتی تھی۔ وہ انتہائی تہذیب یافتہ اورمضبوط قوتِ ارادی کی حامل بلند حوصلہ خاتون تھی۔اس نے نہایت خوش اسلوبی اور سلیقہ مندی سے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی ۔شادی کے بعدایلیا اور ماریا پینزا میں زیادہ مدت نہیں رہے۔ایلیا نے انسٹیٹیوٹ کی ملازمت چھوڑ دی۔کیوں کہ اس کو نژنی۔نوگوروڈ میں ایک سکول میں نوکری مل گئی تھی،اس سکول کاہیڈماسٹر اس کے آستراخان کے اساتذہ میں سے ایک تھا۔1863ء میں وہ پینزا سے نژنی۔نوگوروڈ منتقل ہوگئے۔یہ جگہ پینزا کی نسبت بہت بہتر تھی۔یہ اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے بہت مالا مال تھی اور یہاں روسی تاجر طبقے کا بہت غلبہ تھا۔اس کا شمار والگا کے شہروں میں سب سے زیادہ تہذیب یافتہ شہر کے طور پر ہوتا تھا۔اس میں ایک تھیٹر بھی تھااور کئی کنسرٹ اور کئی ادبی تنظیمیں بھی تھیں۔سکول بہت منظم اور بہترین تھا،اساتذہ اور ان کے بچے سکول کی عمارت کے ایک حصے میں رہتے تھے۔ایلیا اور ماریا کو یہاں چار کمروں والا گھر ملا تھا۔ ایلیا سکول میں بہت محنت اور شوق سے پڑھاتا تھا۔سکول سے باہر بھی اس کی سماجی سرگرمیاں جاری رہیں۔وہ قصبے کے دیگر سکولوں میں بھی پڑھاتا تھا۔وہ ملٹری کالج کی کونسل میں بھی کام کرتا تھا۔کبھی کبھار ماسکو میں جا کراساتذہ کی کانفرنسوں میں بھی شرکت کرتا تھا۔
ایلیا اور اس کی بیوی اساتذہ اور ہمسائیوں میں ہردل عزیز ہوگئے۔وہ سماجی اور ادبی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔وہ بھی مقامی دانشوروں کی طرح ادبی جرائد و رسائل،چرنی شوفسکی اوردوستووسکی کی تحریروں ،ٹالسٹائی کے ناول "جنگ و امن” کی چھپنے والی قسطوں کا مطالعہ اور ان کے مواد پر بحث مباحثہ کرتے تھے۔بعد ازاں وہ ہمیشہ ان خوشگواردنوں کی یادوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔وہ نژنی۔نوگوروڈ میں چھ سال تک رہے۔نژنی۔نوگوروڈ میں ان کی آمد کے ایک سال بعد ان کے ہاں ان کی پہلی بیٹی اینا کی ولادت ہوئی اور دوسال بعد ان کے لڑکے الیگزینڈر کی ولادت ہوئی۔
ستمبر1869ء میں ایلیا کی تعیناتی پرائمری سکول کے انسپیکٹر کے طور پر سمبرسک میں ہوئی۔یہاں اب وہ استاد نہیں تھا بلکہ ایک انتظامی عہدے پر فائز تھا۔اس زمانے میں اصلاحات کے نتیجے میں روس جدت کے راستے پر رواں دواں تھا۔حکومت نے پرائمری سکولوں کے جال بچھانے کا فیصلہ کیا تھااور سکولوں کو نیم تعلیم یافتہ پادریوں کے چنگل سے آزاد کر کے انہیں اشرافیہ کے جدیدسکول بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ایلیا نے گبرینا کے وسیع دیہی علاقے میں اس ذمہ داری کو سنبھالا تھا،جہاں کوئی پختہ سڑکیں نہیں تھیں۔یہاں کے 166اضلاع میں لاکھوں کسان بکھرے ہوئے تھے اور چند سکول موجود تھے۔کسان بچے خود تعلیم یافتہ کسانوں اور نیم تعلیم یافتہ پادریوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بوسیدہ اور خستہ حال بے سقف و درجھونپڑوں میں جمع ہوتے تھے۔ایلیا کے نئے عہدے نے اسے ہفتوں اور مہینوں گھر سے باہر دور درازدیہاتوں میں رہنے پر مجبور کردیا۔
ایلیا اس کام کے لیے فنڈز جمع کرتا تھا اور ایسے لوگوں کو تلاش کرتا تھا،جو بچوں کو پڑھا سکتے ہوں۔وہ امیر جاگیرداروں کو اس بات پر قائل کرتا تھا کہ وہ بچوں کو سکول بھیجنے کے خلاف تمام تر تعصبات کو ترک کردیں۔وہ اس پوری جدوجہد میں وقت سے پہلے بوڑھا ہوچکا تھااور اس کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔اس کے لیے یہ عہدہ پڑھانے کی نسبت کوئی اچھا ثابت نہیں ہوا تھا۔
چناں چہ اولیا نوف خاندان کی زندگی سمبرسک میں کسی طور پر بھی بہتر نہیں گزر رہی تھی۔اینا اپنی یادداشتوں میں بیان کرتی ہے : "ماں نے بہت تکلیف دہ انداز میں جان دار نژنی۔ نوگوروڈ کی اس درماندہ اور روکھے پھیکے دیہاتی گڑھے میں اس تبدیلی کو محسوس کیا،جہاں ناقص رہائش،غیر تہذیب یافتہ حالات تھے۔لیکن اس سب کے باوجودوہاں مکمل طور پرتنہائی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔بعد میں وہ ہمیں بتایا کرتی تھی کہ سمبرسک میں ابتدائی سال اس کے لیے کس قدر اداس تھے۔اس کی واحد سہیلی ایلینا نامی ایک دائی تھی،جو اسی گھر میں رہتی تھی۔ تمام چھوٹے بچوں کی زچگی کے دوران اس نے والدہ کی بہت مدد کی”۔(1)سمبرسک میں ناقص رہائشی حالات کے باوجودماریا اپنے بچوں کی دیکھ بھال بخوبی کرتی تھی۔اینا اپنی یادداشتوں میں مزیدتحریر کرتی ہے: "اس کے بچے اس سے بہت پیار اور اس کا ادب واحترام کرتے تھے۔اس نے اپنی آواز کبھی بھی اونچی نہیں کی تھی اور کبھی بھی اپنے بچوں کو سزا نہیں دی تھی۔اس میں بہت سی جرمن خوبیاں تھیں۔وہ ایک صاف ستھری اور منظم طور پر محنتی اور کفایت شعارمکمل گھریلو خاتون تھی”۔(2)نادیزدا کروپسکایا(لینن کی بیوی) ،جو ماریا کو بخوبی جانتی تھی،کا خیال ہے کہ لینن نے تنظیمی صلاحیت اس سے ورثے میں حاصل کی تھی۔ماریا نے اساتذہ کا تربیتی امتحان پاس کیا تھا۔لیکن اس نے اپنی اس صلاحیت کو صرف اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے استعمال کیا۔وہ ذمیہ کام میں ان کی مدد کیاکرتی تھی۔بچوں نے غیر ملکی ز بانیں سیکھنے کی صلاحیت بھی اسی سے حاصل کی تھی۔ہرروز مختلف زبانیں بولنے کی باری ہوتی تھی۔کبھی روسی، کبھی جرمن اور کبھی فرانسیسی بولنے کا دن مقررہوتا تھا۔ماریانے نژنی۔نوگوروڈ میں قیام کے دوران انگریزی بھی سیکھ لی تھی۔ماریا اپنے بچوں کو موسیقی کا سبق بھی دیتی تھی۔وہ خود بھی پیانو پر گانا گاتی تھی۔اس سے یہ فن ولودیا اور اولگا نے سیکھ لیا تھا۔دریائے والگا کے کنارے پر واقع خوب صورت قصبہ سمبرسک دریائے والگا کا نہایت حسین و جمیل اور دل کش نظارہ پیش کرتا تھا ۔یہ قصبہ فطرت کے رنگا رنگ اور خوب صورت مناظر سے بھرپور تھا۔گلستانوں ،پھلوں کے لہلہاتے باغات اور گھنے جنگلوں نے دریائے والگا کے عمودی کنارے کو گھیر رکھا تھا۔اس عمودی کنارے کے اوپروالا علاقہ دریائے والگا کا شان دار منظر پیش کرتا تھا۔یہ موسمِ بہار میں ایک بہت بڑے سیلاب کی لپیٹ میں آ جاتا تھا اور اس کا پس منظر نا مختتم سبزہ زاروں تک وسیع وعریض تھا۔ بہت سے روسی ادیبوں خصوصاً پشکن اور گونچاروف نے اپنی تحریروں میں اس رنگا رنگ اور متنوع منظر کی تصویر کشی کی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے