سال تھا 2003ء، جب 22،23برس کا اک لاابالی جوان سر میں کچھ افکارِ پریشاں اور آنکھوں میں کچھ الجھے خواب لیے غیرمتوقع طور پر بلوچستان یونیورسٹی آ پہنچا۔ ہاسٹل کے علاوہ کوئٹہ میں اپنے فکری پیش رو، ڈاکٹر سعید مستوئی کے جس گھر میں میری رہائش رہی، وہاں گھر کی مختصر لائبریری کے ریک میں اوپر سے نیچے سرخ کتابوں کی رو لگی رہتی۔ یہی کتابیں میری مستقبل کی فکری راہ متعین کرنے والی تھیں۔
یہیں کہیں ان کتابوں میں ماہتاک ’سنگت‘ نام کے ایک رسالے کے کئی پرچے بھی دیکھنے کو ملے۔ کتاب کے آبِ حیات کو ترسے اس پیاسے کو جیسے میٹھے پانی کا کنواں ہاتھ آ گیا۔ کم گو، ماں جیسے ماموں نے زندگی میں کبھی کوئی ہدایت نامہ نہ دیا۔مگر ایک نصیحت نما فقرہ ان کا ضرور سنا، کہ’’سنگت پڑھا کرو۔‘‘
جوانی کے افکارِ پریشاں اور الجھے خوابوں کے پیشِ نظر اُردو ادب میں ایم اے کے دوران تنقید نگاری نے فطری طور پر اپنی جانب راغب کیا۔ انہی دنوں سنگت کے مدیر کا گوادر سے متعلق رپورتاژ پہ مبنی کتابچہ ’سورج کا شہر‘ ہاتھ لگاتو اپنے تئیں اس کا ’تنقیدی جائزہ ‘لکھ مارا ۔ ارشاد کو سنایا تو ہاتھ سے پکڑ کر مری لیب لے آیا اور مدیر کو بتایا کہ نوجوان تنقید نگاری پڑھ رہا ہے، اور پہلا تنقیدی مضمون آپ کی کتاب پہ لکھا ہے ۔ مدیر نے ہنس کر کہا، ’اور بھلا لکھ بھی کس پہ سکتا تھا۔‘ اور فوراً حامی بھری کہ پڑھوں گا بھی اور چھاپوں گا بھی۔
یوں پہلی ہی مجلس میں گرویدہ ہوئے (وہ تو بہت بعد میں پتہ چلا، کون نہیں ہوا)۔ پہلی نظر میں پیار کا شکارکا محاورہ درست ثابت ہوا۔
یوں نہ صرف باضابطہ ادبی زندگی کا میرا پہلا مضمون بلکہ بعد ازاں پہلا افسانہ، پہلی نظم، پہلا تبصرہ، پہلا تجزیہ، پہلا کالم، پہلا خط۔۔۔ سنگت ہی میں شائع ہوئے۔ یہ ایک نوآموز لکھاری کا جنم تھا۔ جس نے زندگی میں پھر ایک ہی خواہش پالنی تھی: اچھا لکھاری ہونے کی خواہش!!۔
پھرایک وقت آیا کہ بلوچستان میں لوگ لاپتہ ہونے لگے۔ انہی دنوں سنگت کے ایڈیٹر کا بیٹا، بھائی اور بھتیجا کوئٹہ سے اٹھا لیے گئے۔ ہفتہ دس دن بعد کوئی خیر کی اطلاع ملی۔میں اور ننگر چنا (جو ابھی مہینہ پہلے سندھ سے اٹھا لیا گیا) مری لیب پہنچے۔ حال سنایا کہ کل بلایا گیا ہے کہ آ جاؤ اور بندے لے جاؤ۔حال تمام ہوا، تو ایڈیٹر نے سنگت کے کمپوزر اور لیب اسسٹنٹ کو مخاطب کر کے کہا، میں اگر بروقت نہ لوٹ پاؤں تو ’سنگت ‘کے وارث یہ دونوں ہوں گے۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک دم سے لگا کہ میں ’بالغ‘ ہونے لگا ہوں!!
پھر ایک دن ، ایڈیٹر سنگت کی کتاب کی پروف ریڈنگ کر رہا تھا۔ ایک جملہ ذرا تبدیل کرنا چاہا۔ موبائل فون پہ میسج کر کے پوچھنا چاہا۔ جواب آیا، ’’میرے لکھے ہوئے کے وارث تمہی ہو، جو اچھا لگے وہی کرو۔۔۔‘‘۔ مجھے لگا کہ میرے کندھوں پہ میری حیثیت سے بڑا بوجھ آن گرا ہے!!۔
پھر ایک روز سنگت کے ایڈیٹوریل بورڈ میں اپنا نام دیکھا۔ اب میں اس بورڈ کے اجلاس کا حصہ ہوتا ہوں، اس کے فیصلوں میں رائے دیتا ہوں، اس کے اچھے برے کے ذمے داروں میں شامل ہوں۔۔۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے جن والدین نے آپ کو جنم دیا ہو، جنہوں نے آپ کو انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھایا ہو، جنہوں نے آپ کو طاقت بخشی ہو، ایک روز وہ آپ کو اپنے برابر جگہ دینے لگیں، اپنے گھر کے فیصلوں میں آپ سے رائے لینے لگیں۔۔۔
تب کس قدر بلوغت کا احساس ہوتا ہے، یہ بس سوچا ہی جا سکتا ہے۔
لیکن یہ احساس کس قدر ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔ یہ بس بھگتا ہی جا سکتا ہے۔۔۔ کہ ذمہ داری محض احساس نہیں ، یہ تو عمل سے تقویت پاتی ہے۔ سو‘ چودہ برسوں کی سنگتی کا خلاصہ یہ پایا کہ سنگت سے تعلق ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ اورسنا اور پڑھا یہی کہ جو تعلق یہ احساس ابھارے اسے محبت کہتے ہیں!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے