ساحرلدھیانوی کی کتاب’’تلخیاں‘‘ چھپ کر آگئی ہے۔ ہم نے ساحر کو بار بار پڑھا ہے اور اسے مزید پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بڑھاپے کا قرض جوانی میں ادا کر ہی دیا۔ ابھی تو سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ قرض ابھی تک باقی ہیں اور ڈاکٹر مری بھی توانا ہیں اور مسلسل اس درس وتدریس کاکام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ منفرد انداز کے لکھاری اور سٹیج پر ان کا اپنا ایک اندازِ بیاں ہے جو لفظوں کو الفاظ میں الفاظ کو لفظوں میں، جس طرح جوڑتے ہیں انہیں توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ شعور و آگہی اس دور میں جس انداز اور ترتیب کے ساتھ’’سنگت کے سنگتی‘‘ میں مل رہی ہے اس سے وحید ظہیر بخوبی واقفیت رکھتے ہیں ۔
سنگت کی 20سالہ اشاعت کا اگر مطالعہ کیا جائے، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دوران علم و ادب کا جو پر چار ہوا ہے او ر تسلسل کے ساتھ اب تک جاری ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ذہنوں کی تربیت، معلومات، ادب اور ترقی پسندانہ رحجانات کے حوالے سے بہت کچھ پڑھنے ، سیکھنے کو ملا ہے ۔ صوبے کے اندراور باہر سنگت کے لکھاری اور اسے پڑھنے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ جس کا متواتر feedbackملتا رہا ہے۔سنگت کے اندر جو مواد موجود ہوتا ہے اس کے پڑھنے سے شاعری اور ادب پڑھنے کو ملتی ہے۔ دوسری طرف مزدوروں ، محکوموں کے حقوق کی بات ، معاشرے کے اندر جو اونچ نیچ ہے ، امن وامان کی بدحالی ، لوٹ مار ، اغوا قتل وغارت گری ہو، ناقص تعلیم ، بوگس سکول ، صحت کے معاملے میں ہسپتالوں کی زبوں حالی ، بدترین ٹریفک کا نظام ،شورو غل ، انسانی صحت کے حوالے سے معلومات، ترقی پسند قوتوں اور نظریاتی شخصیات پر بحث ومباحثہ اور معاشرے کا جو عکس ہے اسے اجاگر کرنے کے لیے ’’سنگت ‘‘ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھوک وافلاس، بد نظامی ، افراتفری کے عالم میں ، اس انارکزم کے دور میں بھی ’’سنگت‘‘ نے معاشرے کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ گوکہ اختلافات انسان کے اپنے ذہن کے اندر موجود ہوتے ہیں، 20سالہ اس رسالے کی تشکیل وترتیب اور مضامین سے اختلاف رائے ایک طرف، مگر جو کچھ پڑھنے ، لکھنے کے لیے ہمیں مل رہا ہے، جو بدستور جاری ہے جس میں ترقی پسندانہ سوچ، عمل اور کردا ر بخوبی واضح ہے اور اسے مزید بہتر بنانے میں دوستوں کی مدد اور مشوروں کی ضرورت ہے تاکہ نشوونما جاری وساری رہے ،’’پروورش لوح قلم کرتے رہیں‘‘ ،بہتر کہنے والے ، بہتر سننے والے بہتر پڑھنے والے آگے اجاگر ہو سکیں ۔ اور اپنا حصہ وکردار اس معاشرے کی نشوونما ، علم و آگہی کی بلندیوں کے لیے ، اس صوبے کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے انسانیت سے سرشار ہو کر اپنا کردار اد اکرسکیں۔
۔20سالہ سنگت اور اس کی اشاعت کے موقع پر میں ادارے کو مبارک باد دیتا ہوں جنہوں نے کم مدت میں میر گل خان نصیر کی لائیبریری کے لیے کتابوں کا اعلان کیا اور فراہم بھی کیے ۔ قلم جو دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اس کا پرچار اسی طرح کیا جاسکتا ہے ۔ ’’سنگت‘‘ رسالہ، سنگت اکیڈمی آف سائنسز اورسنڈے پارٹی معاشرے کے اندر اور خصوصاً بلوچستان کے اندر جو زیادتیاں اور بدامنی کی جو صورت حال ہے اس کے لیے مزید بہتر انداز میں اپنا کردار اد اکریں۔ جو حالات اس وقت بلوچستان کے اندر ہیں۔ ان کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جس تیزی سے حالات تبدیل ہورہے ہیں اس کے ادراک اور آگاہی کے لیے مزید سمینار منعقد کرنے ہونگے۔
سنگت کی اشاعت کو 20سال ہوگئے ہیں لیکن یہ سلسلہ تو ’’نوکین دور‘‘ سے شروع ہوتا ہے جہاں ہمارا پروفیسر شاہ محمد مری سے ملنے مشن چوک پر واقع ان کے کلینک آنا جانا رہتا تھا۔ اس سے پہلے بولان میڈیکل کالج میں ادبی رسالہ ’’لب بولان ‘‘ کی اشاعت کی سلسلے میں پروفیسر شاہ محمد مری کا ساتھ رہا۔ درس اور تدریس کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے ، جہاں سفید ریش بزرگوں سے عقیدت واحترام اور نوجوانوں کو ترقی پسندانہ خیالات سے لبریز ،خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے علاوہ سنڈے پارٹی جو کہ23سال تک پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کے ہاں چلتا رہا اب تک وہ جاری ہے ۔ اب یہ سوچنا ہوگا کہ ہم سب دوست مل کر ان حالات کو کسی طرح برقرار رکھ سکیں گے ۔ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایک جامع اندا زمیں مل کر اس اکیڈمی اور سنگت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے عملی طور پر کام کرنا ہوگا ۔بہتر سے بہتر ٹیم ورک کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے معاشرے کے اندر اور باہر کی برائیوں کا مقابلہ کرسکیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے ایک موثر کردار کرسکیں جس کی انتہائی ضرورت ہے۔

پناہ دیتا ہے جن مجسوں کو تیرہ نظام
وہیں سے صبح کے لشکر نکلنے والے ہیں
ابھر رہے ہیں فضاوں میں احمریں پر چم
کنارے مشرق ومغرب کے ملنے والے ہیں
ہزار برق گرے ، لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے