میں شاعرہ تو نہ تھی
بس شعر شناس اور سخن فہم تھی
جذبہ شناس ،احساس شناس اور خیال شناس تھی
ملکۂ جذبات و احساسات و خیالات تھی
ان کی شاعری کی گرویدہ تھی
ان کے سخن کی دیوانی تھی
راہِ سخن کے لئے بس اتنا کافی نہ تھا
کچھ اور بھی چاہیے تھا
شعر شعار ہونا چاہیے تھا
سو اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا
ہاں میں نے شعر کو اپنا شعار بنا لیا
اب اس میں راہِ سخن نکلتی ہے
وہ میرے کلام پر واہ واہ کرتے ہیں
میں ان کے شعروں پر داد دیتی ہوں
وہ مجھے شاعری بھیجتے ہیں
میں انہیں ایس ۔ایم ۔ ایس کرتی ہوں
میں شاعرہ تو نہ تھی
مگر اب شاعری کرتی ہوں
سیکھی ہے ہم نے ان کے لئے شاعری
’’ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے