یار ہر بار طرف دار نہیں ہو سکتی
دھوپ ہے صاحبِ کردار نہیں ہو سکتی

نت نَئے خواب لئے سوئی ہوئی ہے کب سے
وہ پَری نیند سے بیدار نہیں ہو سکتی

با وضْو ہو کے اگر ہاتھ میں بھر لوں مٹّی
کون کہتا ہے چَمک دار نہیں ہو سکتی

شوق سے سنتی ہے غزلیں بھی وہ نظمیں بھی مری
ہاں مگر میری پَرستار نہیں ہو سکتی

کوئی ہم مشرب و ہم پیالہ نہیں ہو موجود
شام بھی ہو تو پْر اسرار نہیں ہو سکتی

جتنی تہہ دار خلا ہے مرے اندر کی خلا
شاعری اتنی طرح دار نہیں ہو سکتی

کوئی بھی چیز ہو جو دور سے دیکھی جائے
دام میں آنے کو تیار نہیں ہو سکتی

موت کی بات کریں موت کے معنی ڈھونڈیں
زندگی آپ کا معیار نہیں ہو سکتی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے