راتیں اپنی ، اشک ہمارے اپنے ہیں
پھول تمہارے ، کانٹے سارے اپنے ہیں

چاند مزاجاً تجھ سا ہے ، یہ تیرا ہے
تارے ہم سا ہیں ، یوں تارے اپنے ہیں

اْن سے کہہ دو کرنوں سے دامن بھرلیں
جلتے سورج کے انگارے ، اپنے ہیں

خوشبو ، تیرے ہونے کی ، پابند سہی
رنگوں کے بے ربط اشارے اپنے ہیں

دروازے پر تالہ ، تیرے نام کا ہے
اِس کمرے کی اینٹیں گارے اپنے ہیں

اْس کشتی کو ، کون ڈبوپائے جس کے
دریا، طوفاں، موج ، سہارے اپنے ہیں

آؤ ، گھر میں خوشیوں کا ، ماتم کرلیں
اپنے ہی ، جیتے ہیں ، ہارے اپنے ہیں

قدموں کی آہٹ سے ، واقف ہیں اپنے
بستی کی گلیاں ، چوبارے ، اپنے ہیں

ہم سے کیوں منہ موڑا ہے تنہائی میں
ہم تو ہیں شوہاز ، تمہارے اپنے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے