فنِ مصوری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس کائنات کی۔تہذیب و تمدن کی ابتدائی خد و خال سے فنِ مصوری کا گہرا تعلق ہے۔ جب انسان نے پہلی بارایک پتھر سے دوسرے پتھر پر کوئی نشان لگایا ، تو اس نے دراصل اظہار کے لیے فن مصوری کا سہارا لیا ۔ جب انسان نے سردی کی شدت کم کرنے کے لئے آگ جلائی ،تو کوئلے سے آڑھی ترچھی لکیریں کھینچی ہوں گی۔ اسی سے فنِ مصوری کی ابتدا ہوئی ۔ دنیا کی پہلی زبان بھی مصوری ہی تھی۔
اگر ہم قدیم مصوری کے ابتدائی نمونوں کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے نمونے یا خاکے ہمیں غاروں میں ملتے ہیں۔ مصوری کا یہ سفر بظاہر الٹی سیدھی لکیروں اور بے معنی نظرآنے والے نقوش سے شروع ہوتا ہے ۔ہر دور میں فن انسان کے اضطراب میں سکون کا ذریعہ رہا ہے۔انسان کے لا متناہی تجسس کو کسی جائے قرار کی جستجو تھی تو اس نے معبود کی تلاش کا آغاز کیا۔ کہیں نہ نظر آنے پر اس نے جو خدا خود تخلیق کر لئے وہ بھی فنِ مجسمہ سازی کے نمونے تھے۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی روح کی تسکین کے لئے خدا کا سب سے پہلا تصور بھی آرٹ نے دیا۔
قدیم دور کے فن کے نمونوں کا ابتدائی کام تو یقیناًوقت کے دھند میں چھپ گیا ہو گا مگر پتھروں پر جو نقش و نگار محفوظ ہیں ان سے ابتدائی دور سے ہی انسان کے فن سے لگاؤ اور مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ فن کیسا بھی ہو، وقت اور محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ جب انسان کے پاس بہت وقت تھا اور زندگی اتنی مصروف اور تیز نہیں تھی ، تو محنت اور لگن سے کام کرنے والے فنکار نے ایسے ایسے شاہکار تخلیق کئے جن کے حسن کو صدیاں بھی نہیں دھندلا سکیں۔ یہ نمونے آرٹ کے شاہکار ہیں جو معجزوں سے کم نہیں۔سنگتراشی کے بعد جب رنگوں کی ایجاد ہوئی تو آرٹ کو بالکل نیا میڈیم مل گیا۔ رنگ آرٹ کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ فنکاروں نے برش اور رنگوں سے فن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ پھر فنِ خطاطی کا آغاز ہوا۔ رنگ و تحریر نے مل کر ایک نئے پیرایہ اظہار کو جنم دیا۔ فنکاروں نے دنیا کو رنگ و نقوش سے آراستہ کیا تو دنیا دنگ رہ گئی۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ” معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود”ْ۔ واقعی فن کو خونِ جگر دینا پڑتا ہے۔فنکاروں نے فن کے فروغ اور بقا کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں تب کہیں جا کے ایسے فن پارے تخلیق ہوئے، جو پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کئے ہوئے ہیں۔ جس کی مثال کہیں تو ڈاونچی کی مونا لیزہ ہے، جس کی طرزِ تخلیق پہ فنکار تو کیا سائنس دان بھی ابھی تک ریسرچ کر رہے ہیں۔ کہیں مائکل اینجیلو کی ڈیوڈ موزز اور دیگر مجسمے ہیں، جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حتی کہ ان عظیم فنکاروں نے قبریں کھود کر، لاشوں کے اعضاء نکال کر انہیں بنایا اوردنیا کو ان کی اصل شکل سے واقف کیا۔ طب میں زخم پر ٹانکوں کا تصور بھی لیونارڈو ڈاونچی نے دیا۔ حتی کہ ہیلی کوپٹر اور پیرا شوٹ جو اس کی موت کے کئی عرصے بعد ایجاد ہوئے، ان کے خاکے وہ اپنی مصوری میں دنیا کو دکھا چکا تھا جن پہ عمل اس کی موت کے کئی سال بعد ہوا۔ وین گوف جو کہ ذہنی طور پر معذور تھا، اس نے کئی سال پہلے اپنی پینٹنگ میں ستاروں گرد بادل نما غبار دکھایاتھا۔ ۲۰۰۴ میں یہ ریسرچ سے ثابت ہوا کہ ستاروں کے گرد ایسے حالے ہوتے ہیں۔ صادقین اور دیگر خطاطوں نے اظہار کے اس میڈیم میں لازوال شاہکار تخلیق کئے۔ آرٹ نے ہمیشہ سائنس کو راہ دکھائی ہے جس پر چلتے ہوئے سائنس نے ترقی کی۔ وہ عظیم فنکار تو آج دنیا میں نہیں مگر ان کی تخلیق آج بھی زندہ ہے اور ان کا فن لافانی ہے۔
اب بات آتی ہے فنونِ لطیفہ کے سب سے لطیف فن، شاعری کی۔ شاعری نے دیگر تمام فنون کو اپنے اندر سموکر اس قوسِ قزح کے تمام رنگوں کو یکجا کر دیا ہے۔ عمر خیام کی رباعیاں لفظوں کی پینٹنگز ہیں۔ پھر خیام کی رباعیوں کو جب مصوروں نے تصویری شکل دی تو شاعری اور مصوری کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید شعراء میں منیر نیازی کا نام قابلِ ذکر ہے جس کی شاعری پڑھتے ہوئے کسی خوبصورت منظر کے رنگ آنکھوں میں بکھرتے جاتے ہیں۔ مجید امجد کی نظمیں کسی ڈرامے کی منظر کی طرح تصورات کو روانی اور تحریک دیتی ہیں ۔ جس طرح شاعری موسیقی کے لئے لازم ہے ، اسی طرح اکثر شاعری میں بھی غنایت کی چاشنی ہوتی ہے۔ احمد فراز، وحید احمد، مصطفی زیدی اور عباس تابش کی شاعری میں بھی موسیقیت کا عنصر بھی ملتا ہے۔دراصل انسانی ذہن ہی ایک کینوس ہے جس پر فن خود بہ خود نقش ہوتا جاتا ہے۔ اب فنکار اسے لفظوں میں بیان کرے، رنگوں میں سمیٹے یا پھر کسی مجسمے کی شکل دے دے، یہ سب ایک سے خیالات کی نمائندگی ہے۔ اور دیکھنے والے یا پڑھنے والے کو ایک ہی لطیف دنیاکی سیر پر لے جاتے ہیں۔
فطرت سے محبت کرنے والا شاعرجب قلم اُٹھاتا ہے تو حسنِ فطرت کے نظاروں کی تصویر بنے بغیر نہیں رہتی۔موسموں کا، پھولوں کا، سبز ے کا حسن اور اس سے محبت کا اظہار قاری کو فن کی حسین دنیا کے سفر پہ لے جاتے ہیں۔شاعری بھی منظر تخلیق کرتی ہے۔ شعروں کے لفظ ہمیں تخیل کی خلاؤں کی سیر بھی کرواتے ہیں، سنگیت کی دھن بھی سناتے ہیں، افسانوں اور ڈراموں کے سین بھی نظروں سے گزارتے ہیں، رنگوں کے خوبصورت امتزاج بھی دکھاتے ہیں اور پھولوں کی خوشبوؤں سے بھی ہمکنار کرتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ اشعار درج کر رہی ہوں جن میں آپ کو شعری حسن کے ساتھ ساتھ دیگر فنون کی جاذبیت بھی محسوس ہو گی۔احمد ندیم قاسمی کی یہ نظم "پتھر "دیکھ لیجئے،
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کاپتھر ترے کام آئے گا۔۔۔

اورمنیر نیازی کی یہ نظم،
آمدِ باراں کا سنّاٹا،
کہیں کہیں اس سنّاٹے میں ٹوٹ کے گرتے پتّے
لے کا چلی آوارہ ہوائیں
ایک نشانی جو تھی اس کی
اس کو واپس پہنچانے
آج بہت دن بعد آئی ہے شام یہ چادر تانے
اک وعدہ جو اس نے کیا تھا اس کی یا د دلانے
آج بہت دن بعد ملے ہیں گہری پیا س اور پانی
ساحلوں جیسا حسن کسی کا اور مری حیرانی

اورضیاء جالندھری کی غزل کے تین اشعار تین مختلف منظر پینٹ کر رہے ہیں ۔

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
زخم پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے

بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر رات
شاید اس رات وہ مہتاب لبِ جو آئے

ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر
راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے
اس کے ساتھ ساتھ احمد وقاص کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں،
میں لے کے آتو گیا خواب گاہ سے کچھ رنگ
تمہارا نقش بنایا نہیں گیا مجھ سے
َََ۔۔۔
بس یہی سوچ کے پتھر کو تراشا ہم نے
عین ممکن ہے کہ اندر سے محبت نکل آئے
اردواور ہماری دیگر قومی زبان و ادب میں ایسے سینکڑوں شاعر موجود ہیں جن کا ذکریہاں بر محل ہے مگر اس مضمون کو باندھنے لگی تو کتابیں بھی کم پڑ جائیں گی۔ بلا شبہ مری یہ کاوش اس مضمون کی وسعت کا احاطہ کرنے کے لئے نا کافی ہے۔کیوں کہ یہاں پھراس موضوع پر بات کرنا بھی ضروری ہو گاکہ جس طرح دیگر فنون شاعری پر اپنے نقوش رکھتے ہیں اسی طرح شاعری بھی ان فنون پہ کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ شعراء ،اوردیگر فنون سے تعلق رکھنے والے فنکار جب کسی موضوع پراظہارِ خیال کرتے ہیں تو اس میں بھی بہت حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔پھر یہ سوال کہ ان سب فنون نے اس دنیا کی تشکیلِ نو میں کیا کردار ادا کیا ، ایک الگ اور بہت بڑا موضوع ہے۔مختصراََ، ان تمام فنون کا تعلق نہ صرف آپس میں بہت گہرا اور لازوال ہے، بلکہ اس نے دنیا کے تمام شعبوں پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ اور دنیا کے ہر شعبے نے انہی فنون سے مستفید ہو کر ترقی کی ہے۔ اور یہ سلسلہ تا ابدجاری رہے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے