یادوں کے چراغوں کی ہلکی لومیں نظر آرہا ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے شمال اور یورپ سے بے رحم نارڈ ک نسل سا کائے یا آریائی روپ میں قدیم ہند کے اندر قبضہ خور (غاصب) کی حیثیت سے، لہر در لہر ، داخل ہوئی تھیں۔ آتے ہی دھرتی کے سپوتوں ، ان کی زبانوں ، کلچر و مذہب کو غیر مہذب ، وحشی۔۔۔ قرار دیتے ان کی نسل کُشی وکلچر کونیست نابود کرنا شروع کر دیا تھا۔ شب خون مارنے والے ان بے رحم ٹولوں نے، آہستہ آہستہ ، اپنا مذہب (ویدک ) وزبان (سنسکرت) اصلی باشندوں پر زبردستی ٹھونستے ہوئے انہیں زمین سے بے دخل کر تے جنوبی ہند کی دشوار گزار ومشکل وسپاٹ علاقوں کی جانب دھکیل دیا تھا۔ بربریت کی ان داستانوں سے ’’ وید‘‘ اٹے پڑے ہیں۔ ان حملہ آروں نے ان کی سر سبز وشاداب زمینوں پر ’’قبضہ‘‘ کو مذہبی رنگ میں بھی بدلنا شروع کردیا تھا، حالانکہ وہ خودوحشی وخانہ بدوش اور شکاری زندگی کے بے رنگ پیرھن میں ملبوس تھے اور قدیم ہند کی متذکرہ ’’آبادی ‘‘ سندھو، گنگا، جمنا۔۔ ندیوں ودوآبوں پر آباد زندگی کی عادی ۔وہ اس کے لحاظ سے پر شکوہ شہروں میں بستی تھی۔ مہر گڑھ، ھڑپاو وادی سندھ کی قدیم تہذیب اس حقیقت کی غمازہے اور قدیم بابلی، سمیر یائی ، آشور تہذیبی سٹرکچر سے کسی صورت میں بھی کم اہمیت کی حامل نہیں رہی تھی۔ ہند کی سرزمین پر ذات پات وغلامی کا غیر انسانی نظام بھی ان شب خون مارنے والے غاصب آریاؤں کی دین ہے!۔
اگرچہ ان کی آمد سے پیشتر طبقاتی تقسیم دُھند لی، حالت میں دکھائی ضرور پڑتی ہے، لیکن عام طور پر سماج کے اندر قدیم کمیونسٹ نظام کی بھرپور نمائند گی بھی صاف نظر آتی ہے۔ اس لیے صاحبِ ثروت طبقہ کی جانب سے جو کہ بکھری ہوئی دھندلی صورت میں دکھتا تھاآج کی مانند مارا ماری اور جبر کا نشان تک نہیں ملتا ۔ ہر سو امن شانتی اور بھائی چارہ کی فضا کا انبساطی سایہ پھیلا ہوا تھا لیکن آریائی آمد کو اگر نوحی سیلاب سے تشبیہ دی جائے تو زیادتی نہیں ہوگی۔
ایک مستند رائے کے بمو جب متذکرہ درخشندہ مقامی تہذیب اور شہری زندگی کو ایک اندازے کی رو سے سن 1500-1750ق۔م کے دوران تاراج کرتے ہوئے ان بیرونی حملہ آوروں کے ضمیر نے چٹکی بھی نہیں لی تھی۔ یہ حقیقت بھی ویدوں سے عیاں ہوتی نظر آتی ہے، خاص طور پر رگ وید کا نام لینا ضرور ی گردانتا ہوں۔ دُکھ کا مقام یہ ہے کہ متذکرہ قدیم تہذیب کی پامالی کے بعد ان کی جانب سے کسی قابل ذکر تہذیب کی بنیاد بھی نہیں ملتی ہے۔ ان نکات کی روشنی میں یہ سمجھنے میں کوئی پس وپیش نہیں کہ دراصل آریہ (مہذب) کون تھے اور غیر آریہ(غیرمہذب) کون؟۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ’’ہم ‘‘ اُن حملہ آور وغاصب آریاؤں کی نسل سے ہیں!۔
متذکرہ قدیم، tragicتصویر وحقیقت کا اعادہسن1947کے تقسیم ہند کے بعد اس نئے نام سے تشکیل پاتی سرزمین پر ا بھی صاف وشفاف طور پر نظر آیا تھا۔ جو کہ ہنوز جاری ہے ۔ اب تک کمزور صوبے کلچرلی، تہذیبی ، مادی، سماجی معاشی۔۔۔ طور نسلی برتری والے جنگجو یانہ آہنی شکنجے کے اندر، وقت کی دھارا پر بہتے ، زیادہ گھٹن میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں!۔
آج کے پاکستانی میں بُیرون ‘ سے آمدہ جتھوں کی زُبان ، کا وہی سنسکرت والا شان د بدبہ اور راج قائم دکھتا ہے۔ قدیم برھمن وکھشتری کے غیر مقدس ملاپ کی مانند آج کا انتہا پسند، اور طاقت ور ادارتی ، صورت کے سنگم کے ذریعے دھرتی کے اصل سپوتوں کی زبان وکلچر، کو اچھوتوں وشود روں کی مانند گردانتے روز اول سے بیدردی کے ساتھ لتا ڑ اجارہا ہے ۔ بنگالی نر نسل تھی کہ زمین کو خون کا نذرانہ دیکر اپنی زبان کو قومی دھارے ، میں شامل کرانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
یہاں پر ایک المیاتی، واقعہ یاد آرہاہے۔ جس کا دھرایا جانا ایک مخصوص سوچ کو واضح کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے ۔ گذشتہ صدی کی پچاسویں دہائی کے دوران داد وضلع سے جناب سید اکبر علی شاہ کی سر کردگی میں سندھی معتبر ین ومنتخب نمائندوں کا ایک وفد جناب لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی مبارک باد دینے کراچی گیا۔ دوران گفتگو انہوں نے وزیراعظم سے استد عاکی تھی کہ تقسیم سے قبل کی سندھی کلچر زبان کی حیثیت بحال کی جائے۔ اِس جائز مطالبہ نے خان صاحب کو آگ بگولہ کردیا۔ اور ان سے کہا ’’ یہ کیا بکواس ہے۔ جس زبان وکلچرکی بات کر رہے ہیں وہ تو گدھا گاڑی ہانکنے اور ریڑھی چلانے والوں کی ہے۔ غیر مہذب !۔اس مطالبہ کا دھرایا جانا غداری پر محمول کیا جائیگا! ‘‘
یہ منفرد ’’کلاس کلچر ‘‘ذات پات کے قدیم قہری نظام سے کتنی قریب مماثلت رکھتا ہوا واضح اور بھیانک روپ ہے۔
مجھے یہ حقیقت بھی روز روشن کی مانند یا دہے کہ باہر سے پیہم داخل ہونے والا وجود ، اردو کے محوری کھونٹے کے گردخود کو سندھی ودیگر ثقافتی اکائیوں کے خلاف۔بلکہ اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان کے خلاف بھی، متحد کرتا رہا تھا ۔ خاص طور پر یہ زبان ، ثقافتی طور پر سندھی بلوچی بنگالی و پشتو کُش ہتھیار کے روپ میں ظاہر ہوتی رہی ہے ۔ مزید وسعت نظر ی سے دیکھا جائے گو70سال پیشتر یہی زبان بھی اور اسباب کے علاوہ ملکی تقسیم کا سبب بنی تھی۔ اب بھی ، اگر خندہ پیشانی سے تجزیہ کیا جائے، تو جمہوریت دشمن عنصر اور باتوں کے علاوہ اس زبان کے گروخود کو متحد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس شیطانی کھیل میں ہمارے اپنے فروخت شدہ ، مقامی سیاستدان دانشور ، وبیورو کریسی بھی ڈھٹائی سے شاملِ حال ہے!۔
باری النظر میں دیکھا جائے تو یورپ کے اندر سوئٹرز لینڈ جیسے چھوٹے سئے ملک میں تین قومی زبانیں ہیں : جرمن، فرانسیسی اور اطالوی ۔ حالانکہ اطالوی باشندوں کی تعداد صرف سات فیصد ہے ۔ موجودہ ہند کے اندر سندھی کی اپنی کوئی دھرتی نہیں ہے اس کے باوجود اُس کو قومی درجہ سے نوازا گیا ہے۔ کیا یہاں پر اس عمل کو بروئے کار لانے میں جو کہ جائز ہے ۔ ملک کی سا لمیت کو کوئی گزند پہنچ سکتی ہے؟
اگر یہی گمراہی اور جبر کی حالت بر قرار رہی تو صرف دیکھتی آنکھیں وقت کا نوشتہ پڑھنے کے قابل رہ جائینگی کہ سورج صرف آزاد انسانوں کے سر پر چمکے گا ۔ اور ظالم ، انتہا پسند ، غلام اور بندوق باز صرف ریڈ انڈین کی مانند تاریخ کے پنوں پر دیکھے جاسکیں گے؟
سن1792میں لندن کے اندر ایک سکاٹ دانشورٹامس ہارڈی نے ایک فلاحی تنظیم بنام لندن کریسپانڈنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد مہنگائی ، معاشری بدحالی پر سوچ بچار اور پارلیمانی اصلاحات کے لیے کاوش ونفوذ تھا۔ اپنی انتھک لگن وخلوص کی بدولت اس کی ممبر شپ 30ہزار تکجا پہنچی تھی۔رفتہ رفتہ اس تنظیم میں ملک کے نامور دانشور ومفکر بھی شامل ہونا شروع ہوگئے جنہوں نے اصلاحات کے علاوہ ایجیٹیشن کو بھی وطیرہ بنایا۔ ان دانشور وں میں امریکی آزادی وانقلاب کے پہلے داعی دانشور مفکر اور سپاہی ٹامس پین(جس نے باغیوں سے مکالمہ کیا تھا اور ایک آزاد قوم کو وجود بخشا تھا) جو تین انقلا بوں کا پیا مبر تھا ! نئی دنیا (امریکہ) کا انقلاب فرانس کے اندر نشوونما پاتا ہوا انقلاب، اور بعد میں شاید ، برطانیہ میں وقوع پذیر ہوجاتا ؟ ۔مشہور برطانوی شاعر ولیم بلیک ، ادیب ونقاد جے بی پریسٹلے ، دانشورو آزاد روح ٹامس ہول کرافٹ ، اور فلسفی اور سیاسی انصاف نامی شاہکار کے مصنف ولیم گاڈوں مشہور شاعر ایس ٹی کالرج ، ولیم ورڈزوتھ، ساؤتی ، پی بی شیلے اس کے معتقدین میں سے تھے۔
متذکرہ سوسائٹی کو اگر سنگت کے نام سے یاد کیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اُس دور میں پاکستانی سیاست کی مانند انتہا پسند کنزورویٹو، ’’وگز‘‘ پارٹی کا طوطی اس طرح بولتا تھا جس طرح ہمارے عصری دور میں بائیں بازو ، دائیں بازو اور درمیانے بازو کی سیاست مثالی کرپشن میں لتھڑی ہوئی دکھتی ہے۔ برطانیہ کا عوام قانونی بے راہ روی ، بادشاہت ، امارت کے جبرتلے پستا دکھائی دیتا تھا۔ سخت عاجز اور عذاب میں مبتلا تھا ۔ اور ان ہی حالت کے تحت متذکرہ سر پھرے لوگ میدان عمل میں کود پڑے۔ کوئٹہ کی سنگت اور سنڈے پارٹی کی مانندان کی جانب سے بھی رسالہ جاری کیا گیا تھا اور پندرہ روزہ ادبی ثقافتی اور سیاسی نشستیں باقاعدگی کے ساتھ ہوتی رہتی تھیں۔
ان تمام مثبت ومنفی عناصر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اُس دور کے مشہور نقاد ادیب وانشاپر داز ولیم ھیز لٹ نے ولیم گاڈوِن کے انمول رول کا تذکرہ کرتے لکھا تھا: وہ ناموری کے آسمان پر سورج کی مانند چمکتا نظر آیا ، اُس دور میں اس سے زیادہ کوئی دوسرا شناخت نہ پاسکا، نہ عامیانہ تذکروں میں آیا ، نہ ہی پیاسوں کو کسی اور کی تلاش تھی۔ جہاں کہیں آزادی سچائی اور انصاف کا عنوان زیرِ بحث رہتا گاڈوِن کا نام سرفہرست دکھائی پڑتا تھا ۔ اس کی شہر آفاق تصنیف ’’سیاسی انصاف کا تجزیاتی جائزہ ‘‘، فلسفیانہ دماغ کے لیے تازیانہ بن چکی تھی۔
برطانیہ کا یہ وہ سیاہ دور تھا جہاں پاکستان کی مانند گُھٹن ، انتہا پسندی ، دہشت گردی غاصبیت عروج پر تھے ۔ سماجی انصاف اور آزادی بیدردی کے ساتھ کُچلی جارہی تھی :ایک کالونسٹ کی نظروں میں دس روحوں میں صرف ۔(اور وہ بھی شاید ) ایک روح معافی کے قابل ہوسکے؟ لیکن ایک سنڈے منسٹ کی سوچ کے مطابق دس کالونسٹوں میں شاید ایک کی توبہ قبولیت کا درجہ حاصل کرپائیگی۔ اس دور میں گاڈوِن کی نظروں میں عقیدہ ایک ما بعد الطبیعاتی آمریت ہے جس کی بنیاد دہشت اور جبر پر ایستادہ ہے۔ اُس کوصرف انسان کے بے حدوحساب ذہنی استعداد پر یقین کا مل تھا ۔گاڈوِن کا سیاسی انار کی فلسفہ نہ صرف ریاست کے جبر کے خلاف ایک انقلابی گونج تھی بلکہ عوام الناس کے جہل پر مبنی اجتماعی سوچ کے خلاف بھی عمل پیہم دکھتا تھا۔
برطانیہ میں اُس وقت انتخابی عمل، پاکستان کی مانند ھتک آمیز اور بد بو دار انڈسٹری اور بیوپار کی صورت اختیار کئے ہوئے تھا۔ اور تمام انسانی آدر شوں اور اعلیٰ اقدار کے وقار اور اخلاقیات کے بالکل منافی تھا۔وہ ذہن کے لیے آدرشی و اخلاقی روشنی کو اتنا ہی ضروری گردانتا تھا جتنا طبعی جو ت کو آنکھ کے لیے لازمی سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک حکومتوں کے اندر اصلاجی مہم جُویا نہ عمل ، کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ۔ اس کا واحد علاج ان کا انہدام ہے۔ کیونکہ حکومتیں عوام سے بے انت اعتماد کی خواہاں ہوتی ہیں اور اعتماد جاہلیت ‘‘ کے بطن میں پرورش پاتا ہے۔ عوام کی آواز کبھی خدا کی آواز نہیں ہوتی اور نہ ہی قبولیت عام یا اکثر یتی رائے غلط کودرست میں بدل سکتی ہے۔ اس صورت حال کو ہم انسان کا منفی حق ،بھی کہہ سکتے ہیں۔اس قہاری عمل سے جب انسان کا گلا گھونٹا جائے تو انسان صرف ’’شئے‘‘ میں بدل جا تا ہے۔ بلوچستان وسندھ میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ یہی کارن ہے کہ آخرش خیر بخش مری اور اکبر بگٹی حکومت یا سرکار کو evilکہنے پر مجبورہوئے تھے ۔ چینی اژدھا بے ضر ر اور علامتی ہے، لیکن ، یہاں کا اژدھاSolidاور concrete ہے!۔یہاں کا اژدھا آلودگی سے پُر ہے اور صرف جہالت وخوف کی فضا میں پنپ سکتا ہے ۔ جنگی حالت میں وہ اور اس کے چند حواری اکثریت کے سروں پر قدم جمائے آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی کارن ہے کہ ھیلو یشس، گاڈوِن اور ٹالسٹائی چھوٹی چھوٹی ریپبلکس کے حق میں تھے۔ زیادتی سب سے پہلے ’’ شکار‘‘ کے شعور کو ملیامیٹ کرتی ہے ، اور اس کے بعد شکار کے ساتھ بھی وہی سلوک اور طریقہ اپناتی ہے ۔ اس طرح کے ’’ٹیٹرھے‘‘ زمان ومکان کے اندر کوئی قانون بھی غیر یقینی کو ختم کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ بلکہ سماج کے تمام ادارے وقوانین خود ساختہ بڑوں‘ کی اخلاقی ، سماجی۔۔۔ برائیوں وغلط کاریوں پر پردہ پوشی کرتے ہوئے انہیں لمبی رسی، دینے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے۔
ایسے ’’ادارے ، وقوانین مالتھس کے کھوکھلے وبے بنیاد حسابی فارمولے کی مانند ہوتے ہیں جس کا مقصد صرف انقلابی امید کا گلا گھونٹنا ، یا ڈارون کی زبردست تحقیق کومتحیر العقل بنا کر گنجک راستہ پر ڈال کرسوشلزم کے خلاف بدبو دار فضا پیدا کرنا ہوتا ہے (خاص طور پر ’’ آمریت‘‘ انسانی کردار میں بگاڑ بزدلی وبے ہمتی پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے)۔
لیکن انسانی ذہن کو سداکے لیے ادا روں‘ اور تعصبات ‘ کی جکڑ اور پیزہن میں بند نہیں رکھا جاسکتا ۔ آخرش ہمارا ایفرودائتی حسن، مارکسی نیکی ، ادب پرومیتھیئسی سچ جن کی بنیاد ’آزادی‘ پر ایستادہ ہے ان ریتیلے وقلعوں کوخس وخاشاک کی مانند زمین دوز کرنے میں کامیاب ہوگا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ شاعرشیلے کی ذہنی ساخت و اُپج گاڈوِن کے غیر فانی کتا بچے سیاسی انصاف پر قائم ہے اور شاعر ملٹن کا ذہنی ارتقا بائبل کا مرہون منت ، اور امریکی انقلاب کی اُٹھان ٹامس پین کے شاہکار کامن سینس، پر اور روسی بالشویک انقلاب کی رگوں میں کمیونسٹ مینی فسٹو، کے آبشاری بھاؤ سے کوئی انسان انکاری نہیں ہوسکتا ۔
اسی طرح کی کیفیت میں ہی انقلابی اور روحانی تحریکوں کا حسین امتزاج جنم لیتا ہے۔ اور کالب ولیمز (گاڈوِن) ، لا مزریبل، (وکٹر ھیوگو) ،وٹ از ٹوبی ڈن (چرنی شووسکی) ،ریزریکشن ، (ٹالسٹانی) جیسے عظیم شاہکار بھی وجود پزیر ہوتے ہیں

(جاری ہے)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے