پر پھیلائے ، سینہ تانے
دور افق کی ،خبریں لانے
میرے کبوتر
خواہش کے رنگوں کو سمیٹے
اڑتے ہیں ، اڑتے جاتے ہیں
کبھی اگر تھک جائیں تو
دم لیتے ہیں پھر اڑتے ہیں

لاکھ لگاؤ ان پر پہرے
خو اب تمہارے ہوں یا میرے
زنجیر بہ پاء کب ہوتے ہیں
اے یار من
یہ روتے بلکتے من کو بانہوں میں بھر کر
اڑتے ہیں ،اڑتے جاتے ہیں

ان خوابوں سے رنگ چرا کر
میں تصویر بناتی ہوں
کچھ بے روح سوالوں کو
سچے جذبوں سے سجھاتی ہوں

اور ان رنگوں کی سنگت میں
کچھ لمحوں کو
دور افق پر،
میں بھی تو اڑ پاتی ہوں
اڑتی ہوں ، اڑتی جاتی ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے