سر نگوں سبز جھنڈی کا ہلکا پھریرا فضاوں میں لہرا گیا
اوس پڑتے ہوئے بنچ پہ زرد پتوں کی چادر کو جھونکے اٹھا لے گئے
ریل کی پٹریوں پہ اْداسی کی گونجیں بدن کی سرنگوں سے باہرگزرنے لگیں

وِسل بجنے لگی
کھڑکیوں کی تھکاوٹ نئی منزلوں کے دھنک رنگ خوابوں کے پیکر میں ڈھل کر رگ و پے کو لوری سنانے لگی

وسل بجنے لگی
ایک ماں نے دعاوں سے لبریز، بوسوں بھری تھالیوں کو کسی جنگ پر گامزن اپنے بیٹے کی جھولی میں اْلٹا دیا

ایک عورت کی چھاتی پہ صدیوں کی بہکی ھوئی اک اداسی کے پہیے گزرنے لگے
دو برس کے فرشتے نے آنسو بھرے
وسل بجنے لگی
سرخوشی کے زمانے سفر در سفر پھیلتے نیلگوں میں کسی سبز جھنڈی نے پھیلا دییے

اک نئی موج پھر سے دریدہ بدن میں اْبھرنے لگی

ایک روزن سے دْھری ہواوں کے جھونکے گزرنے لگے

بے رِدا ایک لڑکی نے خاکستری بیگ پکڑے ہوئے دور کھیتوں میں خاموش لوگوں کو رخصت کیا

بھیڑ کی بے دھیانی ، بھری ریل میں پھر ابلنے لگی
ایک ٹھنڈی اداسی اسی بنچ پر پھر اترنے لگی
وسل بجنے لگی
ریل چلنے لگی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے