مسامِ جاں میں وحشت مانگتی ہے
طبیعت جب محبت مانگتی ہے

بڑی عجلت میں رہتی ہے ہمیشہ
یہ گردش کب سہولت مانگتی ہے

دمِ رخصت جو چھائی ہے کسی کے
خموشی ہم سے قیمت مانگتی ہے

اْٹھا کر عاشقی سر پر قیامت
قیامت در قیامت مانگتی ہے

محبت روگ ہے درویش دل کا
مرا اشکِ ندامت مانگتی ہے

اْٹھا کر طاق پر رکھ دو انا کو
یہی تم سے عبادت مانگتی ہے

بہت آساں نہیں تیری عبادت
ریاضت ہی ریاضت مانگتی ہے

کسی سودے پہ آمادہ نہ ہرگز
محبت جب محبت مانگتی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے