آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی حکومت کے پاس آچکا ہے۔مرکز کا اب اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔اب ہر صوبہ اپنی تعلیمی پالیسی ،منصوبے اور لائحہِ عمل تشکیل دینے کا خود ذمہ دار بھی ہے اور مختار بھی ۔
مگر لطیفہ دیکھیے کہ حکومت بلوچستان کے پاس بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والے مراعات یافتہ بیوروکریٹ اور’’ماہرینِ تعلیم‘‘ ہونے کے باوجود اپنی کوئی تعلیمی پالیسی موجود نہیں۔ پاور پالیٹکس میں مبتلابلوچستان کی ساری سیاسی پارٹیوں کے پاس بھی اپنی کوئی تعلیمی پالیسی موجو د نہیں ہے ۔ اسی طرح یہاں دانشوروں کی تنظیمیں اور ادارے بھی خود کو ادبی امور تک خود کو محدود کیے ہوئے ہیں۔ وہاں بھی تعلیمی نظام کی ابتری سے نمٹنے کی کوئی سنجیدہ فکری کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ٹیچروں کی تنظیموں اور سٹوڈنٹس آرگنائزیشنز کے پاس بھی سب کچھ ہے سوائے ایک تعلیمی پالیسی کے ۔
اگر سرکار وزارتوں کی چھینا جھپٹی والی رنجیت سنگھی کرتی ہے توکم از کم وہ حساس شہری ہی ہمت کرلیں جو عوام کے لیے معیاری تعلیم کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اکیڈیمیشن ، ایجوکیشن اسٹ اور دیگر درمند شہری سرجوڑیں اور ایک ایسی تعلیمی پالیسی وضع کریں جو شارٹ ٹرم اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل وقتی بھی ہو۔ جو لازمی ہو، مفت ہو، سائنسی ہو ، اور مادری زبان میں ہو۔اور جوکرٹیکل تھنکنگ، ریسرچ ،اور رواداری کی طرف لے جائے ۔ایسا تعلیمی نظام جو زیادہ سے زیادہ سماجی انصاف اور ہارمنی لانے کی طرف راغب کرتاہو۔

چند حقائق البتہ پیش نظررہنے چاہییں:۔
۔* ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں تعلیم سرے سے ترجیح ہے ہی نہیں۔ لہذا تعلیمی ادارے بہت کم ہیں، اُن میں سہولتیں بہت کم ہیں ۔ اسی وجہ سے بلوچستان میں طلبا کی تعداد بہت کم ہے ۔ لڑکیوں کا تناسب تو شرمناک حد تک کم ہے ۔
۔* تعلیمی نظام کسی معاشرے کے معاشی سماجی نظام سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتا۔ اگر معاشی سماجی نظام طبقاتی ہے تو تعلیمی نظام بھی طبقاتی ہی ہوگا۔ اس کا نصاب بھی طبقاتی ہوگااور اُس کے تعلیمی ادارے بھی طبقاتی ہوں گے ۔ جس طرح ہاتھی کے اوپربکری کے بال نہیں اگ سکتے اسی طرح ایک بنیاد پرست فیوڈل طبقاتی نظام میں تعلیم غیر طبقاتی نہیں ہوسکتی۔
۔* اسی طرح کہ ہمارے ہاں کے بداخلاق (طبقاتی) نظام میں اخلاقیات کی بحالی کی دُھائیاں دھوکہ اور فریب ہیں۔جس طرح ہمارا معاشی سیاسی نظام برائیاں جنم دینے والا نظام ہے اُسی کی مطابقت میں ہمارا تعلیمی نظام بھی منفی اثرات ڈالنے والا نظام ہے ۔
۔* ایک حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بنیاد پرستی پھیلارہا ہے ۔ تعلیمی اداروں کے اندر بھی اور احاطے سے باہرسماج میں بھی ۔یہ بنیاد پرستی صرف مذہبی اور فرقہ وارانہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں نسلی، لسانی ، صنفی اور رنگت کی بنیاد پرستیاں بھی مل جاتی ہیں۔ یہ اس لیے کہ ہمارے معاشی سیاسی نظام کو بھنگی بہشتی، کالاگورا، کمی اشرافیہ ، اور خاندان کمینہ میں تقسیم کی ضرورت ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام انتہا پسندی اس لیے پھیلا رہا ہے کہ ہمارا طبقاتی معاشی سیاسی نظام اُس سے یہی مطالبہ کرتا ہے ۔
۔* دائروں سے خارج کرنا فیوڈل نظام کی خصوصیت ہوتی ہے ۔ شراکت داری کا لفظ اِس نظام میں ممنوعہ لفظ ہوتا ہے ۔ اس لیے ’’تم ‘‘بھی خارج ،’’ میں ‘‘بھی خارج ( بہانہ اور جواز خواہ کچھ بھی ہو)۔ غریب پرائیویٹ سکولوں سے خارج ، تو انگلش سکولوں سے بھی خارج اور سرکاری سکولوں میں تعلیم نہ ہونے کے سبب عام آدمی سرے سے تعلیم ہی سے خارج ۔
۔* اسی طرح ہرطرح کی اقلیتیں تعلیم کے ہر پہلو سے نکال باہر کی جاتی ہیں: فیصلہ سازی سے ، ٹیچنگ سے ، اور نصاب سے۔ اسی لیے تو کتابوں میں آپ کو مذہبی ، قومیتی اور دیگر اقلیتوں کے خلاف گمراہ کن باتیں ملتی ہیں۔ ٹیچر مذہبی یا نسلی اقلیتوں کے بارے میں اُن کے جسم سے وابستہ مخصوص بدبو، اُن میں جنسی بے راہ روای، اُن کے ہاں غیرت بہادری اور جو انمردی میں کمی، اُن کی عادتوں میں جہالت اور ان کی زندگیوں میں پسماندگی کے قصے لطیفے بنا بنا کرسناتے رہتے ہیں۔۔۔۔ مگر کمال کی حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کی طبقاتی یا فرقوی تقسیم کے باوجود ایک مشترک چیز پڑھادی جاتی ہے : ریڈیکل ازم
۔* ٹیچر کی حالت دیکھیے۔ہمارا ٹیچر خود اس طرح ساختہ ہے کہ اُس کی موجودگی شاگرد کو حیرانگی کی طرف نہیں بلکہ ’’تسلیم ‘‘کی کھائی میں گہرا پھینکتی جاتی ہے ۔ ٹیچر وہی لگی بندھی بات کرتا ہے جو لگی بندھی بات حکمران طبقہ اس سے کروانا چاہتا ہے ۔ وہ بچے کے ذہن کے دریچے کھولتا نہیں مزید سیمنٹ گارا کرتا رہتا ہے ۔ وہ سماجی برائیوں سے بچنے کی راہیں نہیں کھولتابلکہ وہ تو خود اُسے سماجی برائیوں کے جال میں پھانسنے کا ذریعہ ہے ۔ ہمارے استاد کی اپنی لگاتار تربیت کی کوئی سہولت موجود نہیں ۔ وہ اپنے مخصوص سماجی ویلیوز سے باہر کی سیاست ، سائنس اور معاشی نظام کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ۔ وہ کلاس میں زبان ، اصطلاحات اور اخلاقیات کی وہی باتیں کرتا ہے جو سماج میں مروج ہیں۔
۔* ’’ہم ہی ٹھیک ہیں‘‘ ہمارے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی بیماری ہے ۔ یہ ’’ہم‘‘ بھی بعد میں ’’میں‘‘ میں بدل جاتا ہے : ’’میں ہی ٹھیک ہوں‘‘۔ یہی ’’میں ہی ٹھیک ہوں‘‘ والی بات آپ کو دوسرے فرد ،گروہ، قوم ، ممالک اوردنیا سے کاٹ ڈالتی ہے ۔ اور آپ کو اُن کا دشمن بنواتی ہے۔ سازش کا تصور دماغ میں گھس جاتا ہے ، آپ خود کو’’ نشانہ‘‘ سمجھتے ہیں ، ہر چیز آپ کو ’’باہر ‘‘ کی سازش نظر آتی ہے اورآپ خود کو مزید تنہا ، مزید بنیاد پرست اور مزید’’ درست‘‘ قرار دیتے جاتے ہیں ۔ یوں آپ سماجی علوم سے خود کو کاٹتے جاتے ہیں ۔
۔* یہ آئی سولیشن صرف نصاب، ٹیچر اور تعلیم میں ہی موجود نہیں ہوتی بلکہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی ڈال دی جاتی ہے جو ’’میں ہی ٹھیک ہوں‘‘ کے تصور کو مزید راسخ کرتی جاتی ہیں۔ ۔۔وجہ یہ کہ طبقاتی معاشی سیاسی نظام یعنی فیوڈلزم اور کیپٹلزم یہی چاہتا ہے ۔
۔* ’’میں ہی ٹھیک ہوں‘‘ کا مطلب ہے کہ پڑوسی جاہل ہیں، تاریخ میں ’’ہم ‘‘ہی سربلند رہے ہیں، مغرب دشمن ہے ، سائنس کفر ہے ، سوچنا پوچھنا منع ہے ، نظریات کی سرحد یں ہوتی ہیں، انڈسٹری ، سڑک ، بجلی، انٹرنیٹ ،موبائل ،پولیو کے قطرے ، اورمردم شماری خطرے کی گھنٹیاں ہیں اور اِن سب خطرے کی گھنٹیوں نے اتحاد کر رکھا ہے تاکہ آپ کے ’’میں ہی ٹھیک ہوں‘‘ کو نقصان پہنچائیں۔
اس سب کو بدلنے کی پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے ،ایک نئی تعلیمی پالیسی کی سخت ضرورت ہے ۔ سرکار ایسا کرے یانہ کرے مگر شریف انسانوں کو ، حساس شہریوں کو ،اوراُن کے اداروں کو ایک ’’متبادل عوامی تعلیمی پالیسی ‘‘مرتب کرکے عوام کو دینی چاہیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے