جنوری 2018

تمثیل کے بنائے ہوئے خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ جب سنگت بابا جان نے میرے ہاتھ پر رکھا تو مزہ آگیا۔سر سری نظر ڈال کر ایک طرف رکھ دیا کہ پھر بابا جان کہتے ہیں ’ ہاں دیکھو دیکھو اپنی تحریریں دیکھ لو سب سے پہلے‘۔گھر پہنچتے ساتھ ہی جو صفحات پلٹے تو ’ پوری انسانیت دلدل میں‘ سے نہ گزر سکی اور اسے ہی پڑھنا شروع کیا جس میں بابا جان نے نجی ملکیت میں منافع مالک کی جیب میں ، سے بات شروع کر کے مناپلی، مڈل مین، بینک، آفاقی ڈکٹیٹر شپ تک لے گئے۔کہتے ہیں کہ جو کمپنیاں مزید اجارہ داری قائم کر کے میگا مرجر اور زیادہ دولت کے باوجود بھوک Generate ہو رہی ہے۔ مڈل مین کا کام بینک نے سنبھال کر منافع کے چکر میں مناپلی کی صورت اختیار کر لی اور یوں آفاقی ڈکٹیٹر شپ کی صورت ہو گئی۔ نئے آزاد ممالک کے وسائل پر کنٹرول حاصل کر کے اسلحہ کمپنیاں چلانے کے لئے امن کا تیا پانچہ کیا جا رہا ہے۔
ایک مضمون پڑھنا شروع کیا تو بار بار میرے سنگت میرے سنگت لکھا تھا۔ پہلے توسوچ رہی تھی کہ سنگت بابا یا ماہتاک سنگت جب پتہ چلا کہ دونوں تب تو پڑھتے ہوئے میں نے خود کلامی بھی کر ڈالی کہ ’ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے بس صرف افضل مراد صاحب کے ہی ہوں سنگت‘ ۔ جی ہاں ’ سنگت کے روشن دیئے‘ سے ایسی ہی محبت جھلک رہی تھی۔
’سنگت کا پیہم سفر‘ پر جب چلی تو اتنا مزہ آیا کہ بس۔شیام صاحب نے یادوں کے چراغ کی ہلکی لو میں آریاؤں کے نوحی سیلاب،ثقافت اور مذہب کو غیر مہذب،زبان کُشی، دشمن عناصڑ کا اردو کے گرد خود کو متحد کرنا، کلاس کلچر اور ذات پات کے قدیم نظام میں مماثلت، برطانیہ امریکہ کی کہانی کو پاکستان کے گھٹن زدہ دھاگے میں اس خوبصورتی سے پرویااور سنگت کے پنوں کے حوالے کیاکہ حملہ آوروں کے ضمیر نے چٹکی لی ہو یانہیں ہمارے من نے میٹھی سی چٹکی ضرور لی۔
جاوید اختر صاحب لینن پر بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ اس دفعہ ’ لینن کا بچپن‘ کے نام سے ان کا مضمون تھا۔
ایک کام بڑا مزے دارشروع ہوا ہے سنگت میں کہ اس میں گئے سالوں کے کسی ماہتاک کا اداریہ شامل کیا جاتا ہے جس کی مجھے بڑی خوشی ہے کیونکہ کسی وقت میں نے خواہش کی تھی کہ میں پرانے اداریئے پڑھنا چاہتی ہوں لہذا ’ نا قابلِِ قبول، ناقابلِ معافی‘ پڑھ کے اچھا لگا۔
محمد نواز کھوسہ صاحب نے بلوچستان کے ایک بہت زبردست ہیرو ’ محمد امین کھوسہ‘ کے بارے میں ایک بہت اچھا مضمون لکھا ۔
پوہ زانت ہی کا ایک اور مضمون ’ کوسٹل ہائی وے کا سیاح‘ پڑھا تو ایک دفعہ پھر اَن دیکھے گوادر کی یاد آگئی ، ہنگلاج مندر کی تقدس بھری ٹھندی خاموشی نے میرا حصار کیا۔ سمند میں دور تک مچھیروں کی کشتیاں ڈولتی ہوئی نظر آنے لگیں اور میں نے ایک دفعہ پھر تہیہ کر لیا کہ مجھے گوادر جانا ہے۔
بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس ، جیکب آباد کی 82 ویں سالگرہ کے موقع پر ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے لکھا کہ وہ کانفرنس جو نا تو سرداروں کی طرف سے تھی نا ان کے لئے تھی ۔ جو مردہ تصورات کو دفن کر کے انھیں نئے نظریات سے ہم آہنگ کر کے اقوامِ عالم کی صف میں کھڑا کرنے کا خواب تھا۔ اور جس میں اس زمانے میں عورت کو بیدار کرنے اور اس کو کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کر کے روشن مستقبل سے آگاہی کی بات کی گئی تھی۔
وحید زہیر صاحب نے جب اپنے مضمون ’ اجڑی ہوئی سیاست‘ میں کہا کہ 70 پارٹیاں جب سب الگ الگ ایک ہی میدان میں ڈھول بجا رہے ہوں تو اسے کیا کہیں گے؟ تو میرے ذہن میں تو یہی آیا کہ کہہ دوں اسے ’ ُ Political pollutionِ ‘ کہیں گے۔۔۔شور کہیں گے‘۔
انعم جاوید کا ’ فنِ مصوری، مجسمہ سازی اور شاعری‘ اور شائستہ مومن کا ’ کچھ بارے آرٹ کے‘ کے بہت اچھے مضامین تھے ۔ اس موضوع پر سنگت میں اس سے پہلے کوئی مضمون میری نظر سے نہیں گزرا۔
استاد ابراہیم جویو صاحب پر مضمون ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اپنے مخصوص خوبصورت انداز میں تحریر کیا۔
پوہ زانت کا ایک اور مضمون ’ نادرات تحقیق‘ فرزانہ خدرزئی نے تحریر کیا جو کہ اصل میں کرن داوود کی ایک تحقیقی مقالوں پر مبنی کتاب ہے۔ کافی اچھا معلوماتی مضمون تھا ۔ میرا خیال ہے کہ اس مضمون کو ’ کتاب پچار‘ میں ہونا چاہئے تھا۔
اور اب میں جس مضمون کا ذکر کرنے جا رہی ہوں وہ ہے تمثیل حفصہ کا ۔ جی ہاں The Philosphy of pointing finger ۔ ایک نہایت خوبصورت مزیدار مضمون ۔ اچھوتا موضوع جس پر کبھی میں نے ایسا کچھ نہیں پڑھا۔انگلی کا اشارہ کہ جو صرف ایک اشارہ ہی نہیں بلکہ تمام عمر کے افراد کے لئے ایک فلسفہ ہے اس میں ۔بچپن سے لے ساری عمر، پینٹنگ میں اس کی اہمیت ، اس کا مطلب۔ اور مختلف آرٹسٹ کی پینٹنگز میں اس کی وضاحت۔ تمثیل ہی کر سکتی تھی۔ مزہ آگیا پڑھ کر۔
موسیقی جو ہماری روح سے روزمرہ زندگی کی گرد دھو ڈالتی ہے۔ ایک جادو ہے موسیقی میں۔ اوراس جادو کے ایک Instrument ستار کے بارے میں ظلِ ہما اکرم کھوسہ نے بہت اچھا مضمون لکھا۔
ایوب بلوچ صاحب نے ڈاکٹر نبی بخش صاحب کی 100 سالگرہ پر ان کے کام ان کی شخصیت کے بارے میں ایک بہت اچھا مضمون لکھا ۔
آرکائیو میں ایک مضمون شامل تھا ’ محمد حسن نظامی کی یاد میں ‘ جو بابا عبداللہ جان جمالدینی صاحب کے قلم کا شاہکار ہے اور جیسا نام سے ظاہر ہے کہ محمد حسن نظامی صاحب کے بارے میں تھا۔
’ قصے‘ کی جانب چلیں تو بتاتی چلوں کہ اس میں اس بار چھ کہانیاں تھیں جن میں دو ترجمہ تھے۔ ایک گوہر ملک صاحبہ کی ’ دادی کیوں تنہا ہے؟‘ اور دوسری کہانی میکسم گورکی کی تھی جسے سعادت حسن منٹو نے ترجمہ کیا ’ خزاں کی ایک رات ‘ کے نام سے۔ یہ دونوں بہت مزیدار کہانیاں تھیں۔ اس کے علاوہ ’ چندو فقیر‘ کے نام سے کہانی جو رزاق شاہد کی تحریر تھی کافی اچھی رہی جو ہمارے ملک کا احوال ہے کہ حکومتیں بدلتی ہیں لیکن ایک عام انسان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آ پا رہا۔ عابدہ رحمان نے لب / ولور کے موضوع پر ’ برائے فروخت‘ لکھی۔
عابد لغاری/عبدالسلام کھوسہ کی کہانی ’ درد جی پجاٹیی‘ نہایت کمزور کہانی رہی ۔ بڑھیا کی اپنی بہو سے ایک طویل یکطرفہ گفتگو۔یوں لگا جیسے کسی دیوار سے باتیں کر رہی ہو۔ ایک خود کلامی تھی۔ کوئی ایکسپریشن ، کوئی اموشنزنہیں تھے۔ کوئی منظر نگاری نہیں تھی۔کوئی سر پیر اس کہانی کا نہیں تھا۔ زرابھی مزہ نہیں آیا۔
اسی طرح فرزانہ خدرزئی کی کہانی ’ روغدیہ‘ بھی بس ایسی ہی تھی ۔ کوئی رنگ نہ جما سکی۔ ہاں اتنا تھا کہ اس کے اول و آخر کی خبر رہی قاری کو۔
’ کتاب پچار‘ میں اس دفعہ دو تبصرے تھے عابدہ رحمان کا ’ سنگت کے بکھرے موتی‘ کے نام سے اور اورنگ زیب صاحب کا ’ سنگت 2017 ‘ کے نام سے ۔ دونوں ہی تبصرے دسمبر کے سنگت پر تھے۔
اور اب شاعری کی بات ہو جائے۔ نور محمد شیخ صاحب نے بڑے پتے کی بات کی ’ خود کو خوش اسلوبی کے زندہ رکھو‘
زندگانی کی تنگ گلیوں سے
اپنی جدا راہ نکال کر
آگے بڑھتے رہو
اپنا کام کئے جاؤ
بس جئے جاؤ!
ریل جو پتہ نہیں کیوں اداسی کا ایک استعارہ لگتا ہے مجھے۔ریل کا سفر ، ریل پر شاعری، ریل کی چھک چھک۔۔۔ خیر آپ عرفان شہود کی نظم کا آخری ٹکڑا پڑھیں؛
ایک ٹھنڈی اداسی اسی بینچ پر پھر اترنے لگی
وسل بجنے لگی
ریل چلنے لگی!۔
نسیم سید صاحبہ کی نظم مزیدار تھی؛
سیلی سیلی سی یادوں کی
تہیں کھولنا، دھوپ لگانا
شام پڑے پھر
ہنس ہنس کے خود کو سمجھانا
سب اچھا ہے
سب کچھ ٹھیک ہے!۔
واہ!۔
ریاض تسنیم کی خوبصورت نظم ’ موہنجو دڑو کی ڈانسنگ گرل‘ کا بس آخری ٹکڑا پڑھیں اور بتائیں کیسا ہے۔
اور جہاں فن زندہ ہو
وہاں سانس لینا دشوار نہیں ہوتا!۔
اور واہ تو اب آپ سلیم شہزاد کی نظم ’ بلوچستان‘ پر کریں گے
دھواں ہے اس قدر زیادہ
میری پہچان مشکل ہوتی جاتی ہے
مسلسل ہی نظر انداز کرتا جارہا ہے
مجھے اس نے ’ بلوچستان‘ سمجھا ہے

قندیل بدر نے کتنی حسین نظم کہی ’ سیتم شیوم سندرم‘ ؛
پرندے میرے اندر پھڑپھڑانے لگے ہیں
مصری کا ذائقہ میری زبان نے چکھ لیا ہے
میری شب گزدہ نظریں سورج کی تیز شعاعیں تو جھیل نہیں سکیں گی
لیکن اب دل کو اطمنان سا ہے
میں اپنی آخری سانسیں صبح کی اجلی کرنوں میں لونگی!۔

قندیل کی نظم To and Fro مزے کی تھی۔
بلال اسود کی ’ سات پہیلیاں ‘ بھی مزیدار رہی؛
کیا کوئی لمحہ ایسا بھی ہے
جس کے ساتھ میں بہہ کر
سات کے سات
سمندر پار ہو جائیں! ۔
ڈاکٹر وحید احمد کی نظم ’ ہم شاعر ہوتے ہیں ‘ بہت زبردست!۔
جب رتھ کے پہیے جسموں کی پوشاک کچلتے ہیں
تو گیتا لکھتے ہیں
جب ہونٹوں کے سہمے کپڑوں پر بخیہ ہوتا ہے
ہم بولا کرتے ہیں !۔

آمنہ ابڑو صاحبہ کی نظمیں بھی بہت اچھی رہیں ، ’ سکھیاں ‘ کا ایک ٹکڑا دیکھئے
اپنی پتھرائی آنکھوں سے
میرے آنسو پیتی جائیں
گھر کی یہ دیواریں
اب تو پکی سکھیاں
بنتی جائیں !۔

صرف دو غزلوں کا ذکر ہی کرونگی بس!۔
ایک ڈاکٹر منیر رئیسانی صاحب کی جو بہت زبردست ہے اور آپ واہ کئے بنا نہیں رہیں گے۔ ایک شعر اس غزل کا؛
آؤ تعمیر کریں قریہ بے نام و نشاں
شہرِ موجود کے اس خوابِ سراپا سے ادھر

اور دوسری غزل ہے انجیل صحیفہ کی؛
چیخ آنکھوں سے نکل آئی ہے لاوا بن کر
ہجر پھر گریہ کوئی آخرِ شب چاہتا ہے
اس کے علاوہ ڈاکٹر فاطمہ حسن، ثروت زہرا، نوید مروت، تمثیل حفصہ، امداد حسینی، اسامہ امیر کی شاعری بھی اچھی تھی۔
انور حسن صدیقی نے پابلو نرودا اور ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے مایا کوفسکی کی نظموں کے ترجمے بھی ماہتاک سنگت میں شامل تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے