۔21ویں صدی اپنے لاڈلے نیو ورلڈ آڈر کے ساتھ اچھلتا ، کودتا اِدھر اُدھر پھسلتا پھیلتا بڑھتا جارہا ہے۔ جبھی تو شیطان کل کے مقابلے میں آج زیادہ مچلتا جارہا ہے ۔ مارکیٹ اکانومی انسانوں کو کچلتا جارہا ہے ۔ امن کا سورج ڈھلتا جارہا ہے ، سمندر کا پانی ابلتا جارہا ہے ۔ مشینوں کی چک چک میں مزدور اُلتا جارہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سب کو نگلتا جارہا ہے ، جذبہ انسانی گلیشیئر کی مانند پگھلتا جارہا ہے، کوئی لاپتہ ہورہا ہے تو کوئی اغواء برائے تاوان کے جال میں پھنستا جارہا ہے۔انسانی سماج یوں بدلتا جارہا ہے کہ کوئی گدھے کا گوشت کھاتا جارہا ہے کوئی فارمی مر غیاں کھا کر پھولتا جارہا ہے ،کوئی نوجوان ہیروئن پی کر گرتا پڑتا جارہا ہے ، کوئی ون ویلنگ کے شوق میں مرتا جارہا ہے۔ منافق سماج میں عورت کا دم گھٹتا جارہا ہے ، خودکش حملہ آور مارتا اور مرتا جارہا ہے ۔ وقت یوں ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے ۔
۔21ویں صدی کے آغاز سے اب تک سنگتوں نے محض ہر طرف دکوہی دکھ دیکھے ہیں۔ مشرف کی آمریت نے ہر طرف چھڑی گمائی ۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگ بلک بلک کر رو رہے ہیں ۔ امیروں کو کوئی پرواہ ہی نہیں ۔وہ تو اپنے بنگلوں میں سو رہے ہیں۔ (اسحاق ڈار) ڈار ڈار مارمار کھیلا جارہا ہے ۔ نہ جانے سی پیک ، ریکوڈیک اور سیندک کا اونٹ اب کس کروٹ بیٹھے گا۔ جب حکومتیں کمزور ہوں تو انسان جنگ وجدال کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ فرسودہ روایتوں کے ساتھ جیتے ہیں، اور ایک نئے غم کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ایسے ملکوں کے ٹی وی چینلوں پر بے روح مباحث شروع ہوجاتے ہیں ، سیاستدان ایوانوں میں مکھی پر مکھی مارتے ہیں۔ ذرا دیکھیے گذشتہ ستر ہ سالوں میں کیسی تبدیلی آئی ہے۔پہلے اخبارات کے میگزین حسین وادیوں اور بہتے جھرنوں پر مضامین اور سروے چھاپتے تھے۔ اب احتجاجوں اور دھرنوں پر لکھا جارہا ہے۔
بدعہدی کے اس زمانے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری اور اس کے رفیق کا اپنے بزرگوں ، ماؤں اور بہنوں کے لیے محبت کے گیتوں سے شعور پیدا کرنے والی کہانیوں ، دکھوں سے نجات کے مضامین لے کر غمزدہ سانتا کلاز کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ تحریک بھی لٹ خانہ سے مختلف نہیں صرف زمانے کا فرق ہے۔ وہی حالت ، بددلی، بدبختی ، قتل وغارت گری موجودہ نوجوانوں کو بھی درپیش ہیں جو ہمارے اسلاف کو درپیش تھے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ترقی پسندی اور سائنس کو باعث نجات سمجھتے تھے اور ہم غلط روایات سائنس وترقی پسندی کی آڑ میں گھس بیٹھوں کا گند دھونے میں مصروف ہیں۔ یہ تحریک اس طرح مختلف ہے کہ یہ روزانہ کی بنیادوں پر لڑتی ہے جبکہ بدنیتی پر مبنی ایم ایم اے کو جمعہ کے جمعہ تبدیلی کا خیال آتا ہے ۔ یہ اسلم بیگ جیسوں کے جیب پر پلتاہے جبکہ سنگتوں کی تحریک خشک روٹی لے کر نکلتا ہے ۔
۔2001سے سترہ تک سنگت کے ذمہ دار ایک دن بھی چین سے نہیں سوئے ۔ کونسی ایگزیکٹو، جنرل باڈی کے اجلاس یا پوہ زانت کی نشست ایسی ہے جس میں مذمتی قرار داد پاس نہ کی گئی ہو۔
بلوچستان میں ماوراے عدالت قتل ہوں ، شعیہ سنی کی آڑ میں دھماکے ہوں، پشاور سکول کا دلخراش واقعہ ہو، پارکوں مزاروں پر عقیدت مندوں کے دھمال پر خودکش حملہ آوروں کی یلغار ہو،بسوں سے اتار کر مارنے کے دلدوز واقعات ہوں، وکلاء کے اجتماع پر خود کش حملہ ہو،مشال کا بے دردی سے جان لینے کا واقعہ ہو ، خواتین کی اجتماعی آبروریزی ہو، گوادر میں پانی کا مسئلہ ہو، ٹارگٹ کلنگ ہوں اور 21ویں صدی کے خونی تحفے ہوں، سنگت اکیڈمی کے دوست سب پر دل گرفتہ رہے ۔ اسی دوران ڈاکٹر خدائیداد ماما عبداللہ جان جمالدینی ، سائیں کمال خان شیرانی ، نادر قمبرانڑیں ، دانیال طریر، امرت مراد بھی ہم سے بچھڑتے ہیں۔ ان سب نے بہت سارے خلا چھوڑے ہیں جنہیں پُر تو نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی سعی کی جاسکتی ہے ۔ہم اس دوران بلکتے ، روتے ، اور سینہ کوبی کرتے رہے لیکن علامہ اقبال کے شاہین کرکٹ کے مزے لوٹتے رہے۔ فیض کی نظم بول کہ لب آزاد ہیں تیرے پر پی ٹی سی ایل کا اشتہار چلتا رہا ۔ مشروب کی ایک بوتل پر کوہ ہمالیہ سر کرنے کی ترغیب دی جاتی رہی۔ سادہ لوح لوگ فریج کے ساتھ اشتہار میں آنے والی خوبرو لڑکی کا بھی خریدو فروخت میں مطالبہ کرتے رہے۔
این جی اوز ٹائپسٹ بناتے رہے جبکہ سنگت کے متوالے اس دوران دنیا کی شاہکار کتابوں کے اردو، بلوچی ،پشتو، براہوئی تراجم پیش کرتے رہے۔
اس کے باوجود کہ کتابوں کی دکانوں اور ہاسٹلوں سے عطا شاد کے شعری مجموعے اور درسی کتابیں اٹھائی جاتی رہیں ۔جس معاشرے میں عورت اور مرد یکساں پستے ہوں، نامعلوم موت مرتے ہوں، جھوٹ پر مبنی سب ایک دوسرے کو ایک پیج پر ہونے کا دھوکہ دیتے ہوں۔ جھوٹ اور فریب کی دنیا سے نکلنے کے لیے سنگت کی کتابوں کے سٹال گوادر فیسٹیول ، سندھ فیسٹول، نوشکی ، نصیر آباد میں کتابوں کی نمائش لگنے کی روایت برقرار ہو۔ پوہ زانت کی نشستوں میں ہر موضوع پر مقالے پیش ہوتے ہوں۔ گل خان نصیر لائبریری کے لیے ایک ہزار کتابوں کی اعزازی ترسیل سے ایک نئے کام کا آغاز ہوا ہوجوبڑھتے بڑھتے گوادر گرلز ہائی سکول اور ژوب میں شیرانی لائبریری کے لیے اعزازی کتب کی فراہمی کی ذمہ داری تک پہنچ چکا ہو۔ابھی اسے مزید وسعت دینے کے لیے فنڈ سے محروم لائبریوں تک مزید رسائی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
سنگت کے نوجوان وہ ہیں جو جیالا جالوں جان نثار نعروں میں نہیں پھنسے۔ انٹرنیٹ اور فیس بک کے بداعمالیوں میں نہیں پھنسے، محض دھوپ سینکنے ہیروئن اور چرس پینے والے بے کمالوں کے پاس نہیں رکے۔ محبوبہ کی تل اور خالوں میں نہیں پھنسے، بے گناہوں کے قتل میں ملوث دلالوں میں نہیں پھنسے۔
یہ علم وادب کے رکھوالے ہیں۔ انسانیت پر پُریقین ڈھنگ میں نرالے ہیں۔ یہ پاک محبت کے لالہ لالے ہیں۔ان کے پاؤں میں انقلابی مسافت کے چھالے ہیں ۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کو ایک موقع پر خیال آیا کہ خواتین کو اپنے مسائل حل کرنے ، حقوق کے لیے آوازاٹھانے کے لیے ایک فورم کی ضرورت ہے ۔ اس طرح سموراجہ ونڈ تحریک کی داغ بیل بھی ڈالی گئی ۔ جس کے زیر اہتمام سٹڈی سرکل اور اپنے مسائل کے حل کے لیے گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے ۔
اس طرح دیے سے دیا جلنے کا کام جاری ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے