میں خواب دیکھتی ہوں
یہ ست رنگی صبح کا خواب نہیں
کچھ ستے ہوئے سے چہرے ہیں
کھائیوں سے ابھرتی
دکھ کی گہری پرچھائیاں ہیں
بہت سی آنکھیں
چھم چھم نیر بہاتی ہیں
بارش برستی رہتی ہے
کوئی دیکھتا نہیں
گائے کو سر پر بٹھائے وہ
مدقوق انسانوں کی بلی دیتے ہیں
ماں میرے چہرے پر
گائے کا مکھوٹا چڑھا دیتی ہے
شائد میں بچ جاؤں
ریپ ہونے سے
مگر میرے بھائی کے ادھ کٹے
گلے سے بہتے لہو نے
میرا راز کھول دیا ہے
بھاگتے ہوئے بند گلی میں جا نکلی
جج کی کرسی پر
انسانی کھال کے جوتے پہنے
پتھر کے قلم سے کوئی
انصاف لکھتا ہے
مگر کسی کو نظر نہیں آتا
ہجوم میرے تعاقب میں ہے
اندھے راستہ میں
نیم کے درخت پر سوئی
امن کی فاختہ
پیشاب کی بو سے گھبرا کر
اڑ گئی ہے
درخت کی چھال سے
بدن رگڑتے ہجوم نے
بیت الخلا سمجھ کر
اپنے بلیڈر ہلکے کیے
مجھے ریشمی رومال کی
گانٹھ میں بندھا
تھوڑا سا وقت مل گیا ہے
مگر
انصاف کی تلاش میں
بہتی آنکھوں نے
اندھے رستے پر پڑی
بند گھڑی کی سوئی میں
مجھے پرو دیا ہے
میں نے گھبرا کر
آنکھیں کھولنی چاہیں پر
یہ خواب نہیں تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے