اک تجسس لئے جب گوشہ نشیں ملتے تھے
تو گماں کاٹ کے دونوں کے یقیں ملتے تھے

ایک عادت تھی جو ہم دونوں میں مشترکہ تھی
اور وہ یہ کہ محبت سے نہیں ملتے تھے

ہم کو ماحول نے چھوڑا نہیں جانے کا کہیں
شام ہوتی تھی تو دریا کے قریں ملتے تھے

کتنا حیران پریشان ہے وہ چہرہ جسے
کسی گوشے میں بھی جاتا تھا ہمیں ملتے تھے

ایک وحشت کہ گْل و گِل میں اتر جاتی تھی
مشتعل ہونے سے پہلے جو کہیں ملتے تھے

ہائے کیا لوگ تھے اک جیسے مکانوں والے
ہائے کیا دور تھا آپس میں مکیں ملتے تھے

ہم مہاجر تھا جبھی دھوپ سے نفرت تھی ہمیں
جہاں دیوار کا سایا ہو وہیں ملتے تھے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے