کہاں یہ وقت کہاں یہ دیار ٹھہرے گا
کہاں یہ تخت کہاں تاجدار ٹھہر ے گا

فقط یہی کہ تیرا انتظار ٹھہرے گا
"نہ گل رہے گا چمن میں نہ خار ٹھہرے گا ”

وہ جس نے چوم کے سولی کو جان دے ڈالی
وہی مسیحا میرا داغدار ٹھہرے گا

ہمارے بس میں اگر ہو تو روک لیں تم کو
تمھا را رکنا مگر ان کو بار ٹھہرے گا

محبتوں میں ملاوٹ ، ہمیں قبول نہیں
خلوص ، چاہ ، وفا ہی معیار ٹھہرے گا

کبھی تو ترسے گا تو بھی رفاقتوں کے لئے
کبھی تو دل پہ مجھے اختیار ٹھہرے گا

اتر رہا ہے سر شام ہی دریچے سے
مجھے گماں ہے ملن یادگار ٹھہرے گا

جو کوئے یار سے ہوتا ہوا گیا ہے ابھی
یقین ہے یہی کوئے دار ٹھہرے گا

ہم اپنے دل میں محبت بسائے رکھتے ہیں
سو اہل دل میں ہمارا شمار ٹھہرے گا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے