اِس تحریک میں یہ کمال خصوصیت تھی کہ اسے ذرائع ابلاغ کے بے پناہ استعمال کا شعور تھا۔اور اُس زمانے کے ذرائع ابلاغ محض اخبارات ، پمفلٹ اور خطوط ہی ہوا کرتے تھے ۔ ریڈیو ٹی وی ، سوشل میڈیا ابھی ایجاد نہ ہوئے تھے یا دسترس میں نہ تھے ۔ لہذا اِن اکابرین نے بھر پور طور پر اخبارات کا استعمال کیا۔
انہوں نے اس کے باوجود ایسا کیا کہ اُس زمانے میں پڑھے لکھے لوگ تعداد میں کم تھے ۔ اور اخبارات کھلے عام میسر بھی نہ تھے۔ قلات سے سٹیٹ میں اخبارات پہ پابندی تھی۔
جیسے کہ معلوم ہے ’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘‘ اُس پارٹی کا نام تھا جو پہلے ’’انجمن اتحاد بلوچاں‘‘ کا نام اپنائے ہوئے تھی ۔ اور اخبارات کا بھر پور استعمال اُسی انجمن ہی کے زمانے سے موجود تھا۔ اور یہ کام یوسف عزیز سے پہلے انجمن ہی نے مروج کر رکھا تھا کہ اُس پارٹی (تحریک) کی حمایت میں لاہور اور کراچی کے اخباروں میں خبریں،’’مضامین اور مقالے بڑے پیمانے پر شائع ہوتے تھے ۔
اب جبکہ چھلاوا یوسف اس تحریک میں شامل ہوچکا تھا اوروہ ’’بلوچ کانفرنس‘‘ کا نام دے کر اس پارٹی یا تحریک کو وسیع کرنا چاہتا تھاتو اُس نے بھی اخبارات کے استعمال کی اہمیت کوخوب سمجھا اور جانا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوسف علی خان نے کانفرنس کی کامیابی کے لیے ابلاغ کے ہر ذریعے کے استعمال پہ راتوں کی نیند اور دن کا چین تج دیا تھا ۔ جنون سا سوار ہوگیا تھااس پہ ۔اس نے رائے رکھنے والے ہر شخص سے رابطہ کیا اور پورے ہندوستان میں ایک بھی ایسا اخبار نہ چھوڑا جو اُسے چھاپنے پہ تیار ہوتا۔ اُس نے ذاتی اثرور سوخ، دلیل کا سارا زور، اور باپ کا چھوڑا ہوا سرمایہ تحریک کے لیے بے دریغ خرچ کیا ۔
لاہور کے ’’زمیندار ‘‘اخبار تو اُس کا نظریاتی ہمنوا تھا، اس نے اور بھی بے شمار اخبارات کے مالکان کے دروازے کھٹکھٹائے ۔کانفرنس کا ایک اشتہار دیکھیے:

’’بلوچ کانفرنس
’’بلوچ کانفرنس وسط دسمبر میں بمقام جیکب آباد سندھ منعقد ہوگی۔ تاریخوں کے تقرر کا اعلان عنقریب کیا جائے گا۔ جس میں بلوچستان اور بلوچوں کی موجودہ تعلیمی اقتصادی اور سیاسی پستی کا حل سوچ کر ایک بہترین لائحہ عمل تجویز کیا جائے گا۔ تمام بلوچوں کا فرض ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوکر اسے کامیاب بنائیں۔
’’ تفصیل طلب امور کے لیے ’’سیکرٹری استقبالیہ کمیٹی بلوچ کانفرنس جیکب آباد سندھ‘‘ سے خط و کتابت کی جائے ۔ صاحبِ ثروت احباب اگر مالی مدد کرنا چاہیں تو تمام ترسیلِ زر بنام سیکرٹری استقبالہ کمیٹی ہونی چاہیے۔
’’یا ایھالذین آمنو جاھدوفی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم
(خاکسار محمد یوسف علی خان عزیز ؔ بلوچ)‘‘

جیسے کہ پہلے ذکر ہوا لاہور کا ’’زمیندار ‘‘اخبار ظفر علی خان چلاتا تھا ۔ یوسف اور ظفر سمجھو یک جان دو قالب تھے ۔ اُن دونوں میں فکری ہم بستگی مثالی تھی ۔ اس لیے ’’زمیندار‘‘ گویا بلوچ کا نفرنس کا ترجمان اخبار تھا۔ مگر کراچی کا’’ البلوچ‘‘ تو تھا ہی بلوچوں کا ، بلوچ کانفرنس کا ۔آپ سمجھیں کہ اس کا مالک ، پبلشر ، ایڈیٹر سب کچھ یوسف عزیز اور اس کے رفقا تھے۔ چنانچہ آپ کو ریسرچ کرتے وقت یہی البلوچ اُس کانفرنس کا باقاعدہ اور آفشل ترجمان کے طور پر ملے گا۔آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے بارے میں میری مرتب کردہ یہ تاریخ اسی ’’البلوچ‘‘کی مرہونِ منت ہے ۔ اور اس کے لیے ہم سب کو محترمہ زاہدہ رئیسی کا مشکور ہونا چاہیے جس نے اس اخبار کو انفارمیشن ٹکنالوجی کے میسر ذرائع سے محفوظ کیا اورہم تک پہنچایا ۔آئیے،20 نومبر1932 کے ’’البلوچ‘‘ میں شائع شدہ یہ خوبصورت ٹکڑا دیکھیے:
’’وفد آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا دورہ

درغلامی عشق ومذہب رافراق
انگبین زندگانی بدمذاق
پیارے بلوچ بھائیو۔’’آل انڈیا کانفرنس‘‘ کے انعقاد کی خبریں آپ سن چکے ہوں گے اور اگر آپ نے نہیں سنیں تو اس کے لیے ہمارے نالے اور فریادوں کی خامیاں ذمہ دار ہیں نہ کہ آپ۔بایں ہمہ ہمیں کامل یقین ہے کہ جس مقصد کو اللہ کے نام ، اللہ کے بھروسے اور منشا ئے ایزدی کی تکمیل کے لیے لے کر اُٹھے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوکر رہے گا۔ البتہ یہ راہ آسان نہیں اور ہم اس سے بے نیاز ہیں، فقط اُس بے نیاز کے بھروسہ پرہے۔
’’وہ میرا وہم وتوہم تھا جو سدراہ تھا
ورنہ راہِ عشق میں تو ایک بھی مشکل نہیں
’’ہم30نومبر1932سے10دسمبر1932تک آپ کے علاقوں میں جہاں جہاں ہم پہنچ سکتے ہیں کا سہِ گدائی لے کر پھریں گے ۔ آپ کو اجتماعیشرکتکی دعوت دیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔ آپ سے خیرات مانگیں گے۔ اس لیے ابھی سے آپ کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ تیار ہوکر بیٹھیں۔ گداؤں کے انتظار میں۔
’’بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

نوابزادہ یوسف علی خان عزیز مگسی بلوچ
اور
سردار غلام رسول خان (پریذیڈنٹ انجمن اتحاد بلوچاں ہند)‘‘
قوم کی بہبود کے لیے گداگر !!۔ بلوچ ترقی کے لیے فقیرو بھکاری !!۔ اورکون بھکاری ؟ ۔۔اُس وقت کا لکھ پتی یوسف عزیز مگسی،سندھ وبلوچستان میں پھیلے مگسی قبیلے کا نواب ،بھکاری!۔ یہ سب سے بڑا انسان دوست دودو تین تین روپوں کے لیے بستی بستی جھولی پھیلانے لگا۔ آپ نے declass لوگ دیکھے؟ ۔ آپ نے انا خور انسان دیکھے ؟ ۔ اس جذبے پہ قربان!
کانفرنس کے مندوبین نے جب گھوم پھر کر مشاہدہ کیا تو انہیں ایک اور بات کا اندازہ ہوا ۔ وہ یہ کہ ’’کانفرنس ‘‘ کے بارے میں پیدا کردہ شکوک ، شبہات ، وسوسے اور اندیشے ہنوز موجود تھے ۔ جوں جوں کانفرنس کی تاریخ نزدیک آتی جارہی تھی یہ وسوسے بڑھتے جارہے تھے ۔یہ خدشہ بھی موجود تھا کہ کانفرنس سرداروں کے خلاف ہے ،رسم ورواج کے خلاف ہے ۔ یہ امیر غریب کے فرق کو ختم کردے گی ۔۔۔ اور یہ کہ یہ انگریز کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ انگریز کا خوف موجود تھا۔ چنانچہ مراعات یافتہ لوگ کانفرنس کے بارے میں انگریز ڈپٹی کمشنر کے سر کو دیکھ رہے تھے کہ آیا وہ اثبات میں سرہلا کر منظوری دے رہا ہے یا نہیں۔ اور ڈپٹی کمشنر تھا کہ کُھل ہی نہیں رہا تھا۔
الغرض ایک طرح کی شش وپنج موجود تھی ۔ لوگوں کادل چاہتا تھا شامل ہونے کو ،مگرخدشات بھرا دماغ دل کی خواہش کو مسترد کرتا جاتا تھا۔
اس صورتحال کوبھانپ کر ایک اور تحریر جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اور گوکہ اُس کا مخاطب ہر عام وخاص تھا مگر خصوصاً اس میں سرداروں کو مخاطب کیا گیا تھا۔ ایک مدلل اور قائل کرنے والی تحریر ۔ یہ زبردست مضمون ہفت روز ہ ’’البلوچ‘‘ کے 4دسمبر1932 کے شمارے میں شائع ہوا۔

’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد ‘‘
بلوچ سرداروں سے خطاب
’’اگر چہ عرصہ سے بلوچانِ ہند نے ایک انجمن بنام ’’اتحاد بلوچان ‘‘قائم کی ہوئی ہے جس کی ایک کانفرنس پنجاب کے کسی ضلع میں بھی منعقد ہوچکی ہے ۔ پنجاب کے زندہ دل بلوچوں نے اس کانفرنس کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور یہی ان کے شایان شان تھی۔ وہاں کے سردار، تمندار اِس کانفرنس کی شرکت سے نہ گھبرائے ۔ اور نہ حکومت پنجاب کے کسی ذمہ دار افسر نے کسی کو اس کانفرنس کی شرکت سے روکنے کی سعی کی ۔ اور کرتابھی کیوں جبکہ پنجاب میں زبردست سے زبردست سیاسی انجمنیں موجود ہیں۔ بلوچوں کی انجمن کا مقصد تو صرف اپنے سوشل اور سیاسی جائز وفطری حقوق کا مطالبہ ہے جو کہ ہر ایک قوم کا حق ہے۔ اس میں کوئی گھبرانے کی بات نہیں ۔ مگر چونکہ سندھ کے اکثر بلوچ بھائی زیور تعلیم سے محروم ہیں ، اپنے حقوق کا انہیں علم نہیں لہذا وہ ہر ایک کانفرنس کے نام سے گھبراتے ہیں۔ مبادا افسرانِ بالاناراض ہوجائیں ۔ ان کو خیال رہتا ہے کہ جب تک ان کی طرف سے اشارہ یا کوئی حکم نہ ہو اس وقت تک وہ شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مرض ہے کہ اس کا علاج کسی حکیمِ حاذق اور تجربہ کار ڈاکٹر کے پاس نہیں۔
’’ کانفرنس کا مقصد نواب زادہ میر یوسف علی خان کے اس اعلان سے صاف واضح ہوگیا ہے جو آ پ نے بعض سردارانِ ضلع جیکب آباد سے تبادلہ خیالات کے بعد شائع کیا ہے ۔ اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بعض بلوچ سردار جو ایک جری اور بہادر اور نڈر قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اُس وقت تک کانفرنس کی شرکت وامداد سے اغراض کرتے رہیں گے جب تک اس کانفرنس کی معصومیت پر جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جیکب آباد مہر تصدیق ثبت نہیں فرماویں گے ۔ اس کا جواب جس مدلل طریق سے نواب زادہ موصوف نے اپنے اس اعلان میں دیا ہے وہ ہر ایک زندہ قوم کے فرد کے لیے کافی ہے۔پھر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کیوں ہمارے بلوچ بھائی اس کانفرنس کی شرکت کو شجرِ ممنوعہ تصور کر کے پرے پرے بھاگ رہے ہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بلوچ سردار اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے بہادر اسلاف کا نمونہ بن کراس کانفرنس کی شرکت وامداد پر لبیک کہتے۔ ہم اس بات کے سمجھنے سے کلیتاً قاصر ہیں کہ جناب ڈپٹی کمشنر جیکب آباد کو اس قسم کی کانفرنس پر اعتراض ہوگا جس میں ایک پسماندہ قوم مجتمع ہو کر اپنی ترقی وبہبودی کے متعلق تجاویز سوچ کر اپنی کمزور آواز کے ذریعہ ایوانِ حکومت تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں جبکہ نواب زادہ میر یوسف علی خان نے دلائل وبراہین مقصد کو اِن الفاظ میں واضح فرمادیا ہے کہ ’’ہمارا مقصد صاف اور واضح ہے یعنی معقولیت اور اعتدال کے ساتھ داخلی اصلاح کی سعی کرنا ، رسوماتِ قبیحہ کو ترک کرنا، اقتصادی بدحالی رفع کرنے کے ذرائع سوچنا، بلوچوں کے اندر تعلیم کی اشاعت کرنا، بلوچستان کو ہندوستان کے دیگر صوبحات کی سی آئینی حکومت دلانا، حکومت کے قوانین وضوابط کا( اسلام کے اندررہ کر) احترام کرنا ، اور اپنی پرانی روایات کے مطابق گورنمنٹ برطانیہ کا ہر حالت میں وفادار رہنا ۔ بشرطیکہ وہ وفاداری ہمارے اسلامی عقائد کے ساتھ متصادم نہ ہوتی ہو۔ ان صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے اور اس اعلان کے بعد ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کسی سردار یا ڈپٹی کمشنر کو کچھ شبہہ باقی رہا ہوگا۔
’’انعقاد کانفرنس کا وقت قریب سے قریب تر ہورہا ہے ۔ معزز سرداران وزمینداران پر لازم ہے کہ جلداز جلد شرکت اجلاس کا اعلان کردیں۔ اور ہر ایک صاحب حسبِ استطاعت اس کے کامیاب ہونے کے لیے امداد دیوے ۔ تاکہ ہر صورت میں کانفرنس کامیاب ہو ۔ ہم اپنے بلوچ بھائیوں کی توجہ سندھ آزاد کانفرنس کی طرف منعطف کرانا چاہتے ہیں جو حال ہی میں حیدر آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ جس کی شرکت کے لیے نہ کسی ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بہادر کی اجازت لینے کی ضرورت محسوس ہوئی بلکہ اس میں سندھ کے مختلف الخیال اشخاص موجود تھے ۔ کسی نے بھی اس کی شرکت پر اعتراض نہیں کیا ۔ اور کیوں کرتے۔ ہر ایک ضلع کے بڑے سے بڑے خطا ب یافتہ اور زمیندار موجود تھے ۔ ہمارے بلوچ سردار وزمیندار بھی کافی تعداد میں موجود تھے ۔ پھر ہم نہیں جانتے کہ ان باتوں کے باوجود وہ کیوں اس بلوچی کانفرنس کی شرکت کے سوال پر سوچ بچار میں پڑگئے ہیں۔ بلکہ آج ان کی زندگی کا امتحان ہے ۔ کیا وہ اس کانفرنس میں شریک ہو کر اپنی زندگی کا ثبوت دیں گے یا کہ اس دورِ ترقی میں بھی خواب غفلت سے نہیں اٹھیں گے؟۔
’’ہم بانیانِ کانفرنس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ توکل علی اللہ اپنے کام کو شروع کریں۔ انشاء اللہ تعالی کانفرنس مزکور نہایت آب وتاب سے کامیاب ہوگی اور ہمارے بلوچ سردار بھی ضرور اس میں شریک ہوں گے ۔ اللہ تعالی ہم بلوچوں کو بھی اپنی نظر رحمت سے مشرف فرماوے‘‘۔
اگر آپ اُس زمانے کے مسودات اور یہاں وہاں بکھری رپورٹیں ملاحظہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ منتظمین سرداروں کی شرکت کے بارے میں حتمی طور پرمایوس ہوتے جارہے تھے۔ذرا سا کسی سردار نے آنے کا عندیہ دیا تو منتظمین نے جھٹ اُسے اپنے اخبار ’’البلوچ‘‘ میں چھاپ دیا: ’’آج سردار بہادر سردار محمد بہرام خان تمندار ہڑی(لہڑی؟) آف بلوچستان کا مراسلہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی تائید وشمولیت کے لیے موصول ہو کر باعث بلند حوصلگی ہوا ۔ سردار بہادر کے یہ الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں کہ :
’’خدا وند تعالی سے التجا ہے کہ اس قوم کو جوتا ریکی میں ہے ، نیک راستہ پر لا کر اُن کو آئندہ حیات سے متمتع کرے ۔ کیونکہ آج کل ہماری قوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ امید ہے کہ ایک عمدہ راستہ نکل آئے گا۔ خدا اپنے بندوں کو توفیق دے‘‘
’’ہم امید کرتے ہیں کہ باقی سرداران وتمنداران بھی جلد تر اپنی شمولیت کا اعلان فرما کر اپنے آپ کو زندہ دل ثابت کریں گے ۔
(جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس)‘‘
بلوچ کا کارواں کن کن مصائب میں رواں دواں رہاہے بلوچ کارواں کن کن مصائب میں رواں دواں ہے !!۔
***
ہمارے لیے یہ بات بہت تعجب کی ہے کہ اس کانفرنس میں داخلہ مفت نہ تھا۔بلکہ اس کے لیے ٹکٹ رکھا گیا تھا۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ جو لوگ کچھ دے سکتے تھے اُن سے چندہ تو پہلے ہی لیا گیاتھا۔ اسی طرح، منتظمین بھی اپنے گھر پہلے ہی پھونک کر سب کچھ اس کانفرنس پر جھونک چکے تھے ۔ اب جو لوگ کانفرنس میں آرہے تھے اُن کے پاس پتہ نہیں کچھ تھا بھی کہ نہیں۔مگر اس کے باوجود اس میں شرکت کے لیے ٹکٹ رکھا گیا تھا۔ یہ تو معلوم ہے کہ کانفرنس بہت نیک ، پاک اور حساب کتاب کے پکے لوگ کر رہے تھے ۔ تو ظاہر ہے انہوں نے اپنی رپورٹوں وغیرہ میں ٹکٹوں سے حاصل شدہ’’آمدنی ‘‘رپورٹ کی ہوگی ۔ بہر حال البلوچ کے4دسمبر 1932کے شمارے میں ایک بار پھر ٹکٹوں کے نرخ چھاپ دیے گئے۔ جوں یوں تھے:
استقبالیہ ٹکٹ ۔۔۔5روپے
ڈیلیگیٹ ٹکٹ۔۔۔۔2روپے
سیزن وز ٹرز ٹکٹ ۔۔ 1روپیہ
ڈیلی وزٹرز ٹکٹ۔۔۔6آنہ
********************

عورت
نور بانو
صبح کی کرن میرے دامن میں ا یک خوبصورت خواب بن کر جانے کب آیا تھا؟ پھر اچانک خواب جانے کیسے ا ندھیری رات میں بدل گیا۔۔۔!
ماں کی پیاری بیٹی ہوں ۔۔۔سوال ہزاروں ہیں۔۔۔ ناجانے کب میں اس عالم میں سوتی جاگتی رہی ہوں۔۔۔ہر سو میرے چرچے ہیں۔ ناجانے کون سی مخلوق ہوں ۔ہرلمحہ میں اس صنف کو سوچا کرتی ہوں۔آجامیرے خوا ب سہانے اماں کے سنگ آجا۔ اماں کہاں گئی ؟ تو اس بیٹی کو ویرانے میں چھوڑ کر؟کاش تم مجھے بھی ساتھ لے جاتی دلدل کی اس گہرائی سے۔ میں نے ایک ہی دن میں دیکھا دنیا مجھ کو کھاجائے گی۔ کوئی نہیں یہاں ایک ماں جیسا کہ مجھ کو ٹھنڈ چھاؤں دے۔ اس چھاؤں کی یادوں میں ، میں پل پل مرتی ہوں۔
دنیا کی نظر میں یہ بچی ہے بن ماں کی۔ میں جینا چاہوں ناہی مرپاؤں۔ جس ماں کو میں نے کھویا اس کی جگہ نہ لے پائے کوئی۔سانس میری نکلتی ہے جب یاد اس کی آتی ہے۔ میں ایک انسان ہوں لیکن مجھے عورت کہہ کر نکالا گیاہے۔ کاش کوئی سمجھ سکے عورت گھر کا سرمایہ ہے۔ تیری ذات کو نا سلجھائے کوئی۔ تجھ کو نا پہچانے کوئی۔ساتھ رہے ہم جب بھی تب تب تو گرایا مجھے۔ جس دن تو نے مجھ کو مانا، میں اس دنیا بنی میں تیری۔
میں نے کہا کون ہو تم؟ اس نے کہا کو ہو تم؟نامیں کون ۔ نہ تم کون۔دونوں اس دھرتی کے ہم۔ عورت نے پیدا کیا تجھ کو۔ عورت نے پیدا کیا مجھ کو۔ ہم اک شاخ کے پھول ہی دونوں۔ اس چمن میں رہنے والے دونوں۔ میں عورت تیری کائنات بنانے والی۔ ہر صورت تجھے مکمل کرنے والی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے