اِنھی کج نہادوں نے یوں تو چبایا تناسب سے میری صداقت کا پھل
ھم کو درسی کتابوں میں جو بھی سلوگن پڑھائے گئے جھوٹ تھے۔۔۔۔
سوچنے والے سارے دماغوں کو ہانکا گیا رعب سے۔۔۔
طے شدہ راستوں کے سوا کوئی منزل پہ آیا تو مارا گیا
اور شودر غلاموں کو ذلت بھری کھڑکیوں سے جہنم میں پھینکا گیا
اور غاروں کے انگار میں، آئی سیون کے محفوظ برفاب کمروں میں درسی کتابیں پڑھائی گئیں۔۔۔۔۔۔۔

کتنے یعقوب، یوسف کے انجام سے بے خبر اپنی آنکھوں کو پانی بناتے رہے
کتنی ماؤں کے صحنوں سے پھلدار پودے اْکھاڑے گئے

آج سارے حریفوں سے پھر سے نئی دوستی ہو گئی ہے
اِن کو قاتل چراغوں کی شعلہ گری کا جو پوچھے کوئی
اْن کے لاشوں کو کْوڑے کے ڈھیروں پہ جا کر ٹٹولو۔۔۔۔۔۔
اگر بچتے سانسوں کی خیرات چاہو تو نظریں جھکا کر ” بڑے شہر ” کی بے صدا روشنی کے جھمیلوں سے بھاگے ہوؤں کی کسی تنگ و تاریک بستی کو چْپکے سے مسکن بناؤ۔۔۔۔۔۔
کہ ان سازشوں سے جْڑے ہیں یہ میرے مقدس نگہبان۔۔۔۔۔۔۔۔
سو ان کج نہادوں سے خود کو بچاو
نئی زندگانی کا طْوطک بجاؤ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے