جب ہم چوتھی جماعت کے طالبعلم تھے تو سالانہ گرمیوں کی چھٹیاں سیندک سے آگے چاغی کی پْرفضا بلند کوہساروں کے درمیان کچاو میں گزارنے چلے جاتے تھے جہاں ایک گاوں میں آبِ رواں آبِ حیات کی طرح جاری و ساری ہے؛ ہر طرف سبزہ و باغ سے چشم پْرنور ہوجاتے ہیں اور ان پہاڑیوں کے درمیان گدان و بْزگل کی موجودگی کا ایک الگ ماحول تھا ؛ دْودھ و دہی شیر و مکھن سْمبار و دیسی گھی مشک و مشکیزہ زک و روغن کا ایک الگ مزہ تھا۔
جب سیندک سے کچاو کی جانب جارہے تھے تو پوچھا یہ کون سی جگہ ہے۔ تو پتہ چلا کہ یہ سیندک ہے ۔یہاں سے سونا چاندی نکالا جاتا ہے ۔ بہترین روڈز بنے ہوئے تھے چاک و چوبند لیویز موجود تھی سٹریٹ لائٹس اور روڈ کے ساتھ درخت لگائے گئے تھے ۔آگے جاکر ایک بہت بڑی بلڈنگ دیکھی جو رنگ و روغن تھی۔بچے بچیوں کا جمِ غفیر تھا ۔پوچھا یہ کیا ہے کہا گیا یہ سیندک ماڈل سکول اینڈ کالج ہے۔ پیچھے جو بلڈنگ ہے وہ اس کی یونیورسٹی ہے ۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی ایک ساتھ ہیں اور اسے ایجوکیشنل سٹی کہا جاتا ہے ۔ نہ صرف یہاں سیندک چاغی بلکہ پورے ملک سے بچے ایڈمیشن لے چکْے ہیں ۔یک دم میرے ذہن میں اپنے شہر کے گاوں کا سکول یاد آیا جس میں ٹوٹا پْھوٹا بلیک بورڈ، ٹوٹے ہوئے دروازے ، پھٹے ہوئے ٹاٹ ، سخت جھلستی گرمی بجلی عدم فراہمی، سخت سردی میں ہر بچے کا گھر سے اپنے ساتھ خود لکڑی کے چند ٹکڑے لانا، کبھی سیاہی تو کبھی تختی کا نہ ہونا ذہن میں گھوم رہے تھے ۔
جبکہ اس ماڈل سکول اینڈ کالج میں عالمی معیار کی تعلیم دی جارہی تھی چونکہ یہاں چائنا کی کمپنی ایم آر ڈی ایل کام کررہی ہے لہذا بیجنگ اور ہانگ کانگ کا نصاب تعلیم پڑھایا جارہا ہے ۔اس سکول اینڈ کالج میں چائینیز کمپنی کے ملازمین کے بچے اور ایس ایم ایل کے ملازمین کے بچے اسلام آباد سے آکر پڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ عالمی معیار کی تعلیمی رینکنگ کا ٹاپ ٹین تعلیمی درسگاہ ہے
’’تو مجھے بھی داخلہ دلانا بابا‘‘۔۔۔۔۔
یوں گاڑی روکی گئی ایک قریبی رشتے دار کے گھر گئے جہاں اگلے دِن مجھے اس سکول داخل کردیا گیا اور سیندک کچاو سرزئے لشکری آپ بیدوک رباط کے سینکڑوں بچوں کا ساتھ مل گیا ۔ ہر مضمون کے ٹیچر موجود تھے ۔سکول میں عالمی معیار کا کمپیوٹر سائنس کا لیب ، عالمی معیار کاسائنس روم موجود تھا، ڈیجیٹل لائبریری موجود تھی جہاں دنیا کی مختلف یونیورسٹیز کی کلاسز کے لائیو لیکچر سننے کا بھرپور موقع میسر تھا۔ میس سے لیکر ہاسٹل میں لانڈری سمیت تمام سہولیات مہیا تھیں ۔شب و روز گزر گئے ہم دوستو ں کے ساتھ گْھل مل گئے ۔صبح کلاس ہوتی چھٹی کے بعد میس میں کھانا لگتا۔ دوپہر کو آرام کے بعد ایک بہت بڑا سپورٹس میدان طلبا کے لیے موجودتھا جہاں طالب علم مل کر کرکٹ فٹبال والی بال گالف اور دیگر گیمز سے جسمانی طور پر مضبوطی کی پریکٹس میں مصروف ہوتے ۔ شام کو طالب علم لائبریری جاتے ۔ ساتھ ہی ایک بہت بڑا سینما ہاوس بنایا گیا تھا جہاں ہر سنڈے کو طلباکی ذہنی نشوونما کے لیے عمر کے حساب سے فلمز چلائے جاتے تھے ۔جبکہ ادب شاعری کے اجلاس ماہانہ بنیادوں پر ہوتے تھے۔
طلباکی تعلیمی زندگی جاری رہی ساتھ ہی اربوں کھربوں ڈالر کے ذخائر نکالے جارہے تھے ۔طلبابہترین سکول اینڈ کالج جبکہ ان کے والدین اس پروجیکٹ میں اعلیٰ پوزیشنز پر کام کررہے تھے ۔ ان طلباکو ماہانہ وظیفہ الگ مل رہا تھا جس سے ان کی زندگی روشنی کی جانب گام زن تھی اور ایک روشن مستقبل سیندک تفتان چاغی کی منتظر تھی
وقت رواں رہا۔ یہ بچے جوان ہوئے آج کئی نوجوان اس سیندک پروجیکٹ کے سکول کالج یونیورسٹی سے فارغ ہوکر دنیا کے مختلف اداروں ناساآئل اینڈ گیس کمپنیز سائنسی اداروں گول ایمیزون یورپ امیریکہ افریقہ خلیج روس سمیت دنیا کی مختلف کمپنیز میں کام کررہے ہیں اور اکثر عالمی کمپنیز و مالیاتی اداروں بینکس میں سی ای اوز پریذیڈنٹس یہی سیندک کے لوگ ہیں ۔انہیں ای میل کیا گیا کہ سیندک پروجیکٹ اس سکول اینڈ کالج کا تین دہائیوں پر مشتمل تیسواں کمبائنڈ ائیر گولڈن جوبلی منا رہی ہے کیونکہ بہترین تعلیمی سماجی حقوق دینے پر اسے ایم آر ڈی ایل کو سیندک پروجیکٹ کے نئے مائننگ سائیٹ پر کام کرنے کا ایگریمنٹ ملا ہے۔ جہاں پوری دنیا سے بولی لگائی گئی مگر مقامی لوگوں کی بھرپور حمایت سے ان کو یہ نیا ٹھیکہ ملا ہے اسی لیے یہ پروجیکٹ اپنے اثاثے یعنی طلبا کو بْلا کر اپنے طلباکے ساتھ نیا ایگریمنٹ اور سوشل رائٹس دینے کی عظیم گولڈن جوبلی منارہی ہے لہذا پورے ملک اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ۔فارغ شدہ طلباجو عملی لائف میں ہیں وہ پچیس مارچ کو پہنچ جائیں تاکہ گولڈن جوبلی منایا جاسکے ۔
چونکہ آج سیندک پروجیکٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سیندک کے قریبی علاقے ہرِنر کے مقامی چرواہے ناکو بٹے کا بیٹا ہے جو ان تمام طلباکو بخوبی جانتا ہے براہ راست رابطہ کرکے ان کواس گولڈن جوبلی جشن کا دعوت دے رہا ہے ۔ سیندک گاوں ایک شہر کی صورت اختیار کرچکا ہے ہر طرف ڈبل روڈز، بڑی بڑی بلڈنگز شاپنگ مال ؛ ٹیکنیکل ادارے سماجی گیدرنگ پارکس سینما ہاوسز موجود ہیں اور لائف اب کافی بدل چکی ہے ۔
چوبیس مارچ کی شام کو پوری دنیا سے طلبااور اس سکول و کالج سے فارغ شدہ ملٹی نیشنل کمپنیز کے سی۔ای۔اوز مالیاتی اداروں کے سربراہ ؛ ناسا کے ملازمین ،بڑے بڑے معالجی اداروں سے فارغ شدہ ڈاکٹرز نرسز سیندک ائیرپورٹ پر بوئنگ 777 سے پہنچنا شروع ہوگئے تھے اور ان میں بلوچ خان، بالاچ ،سْمالان ،رودین ،کمبر جان، کارواں کْش ،مْرید ھانازبوتک ،کلپورگ اسپے پْل وش دار ،زروش گْلشامل تھے ۔پورا شہر اپنے ان سپوتوں کے ریسیونگ کے لئے موجود تھا بلوچی چھاپ اور والدین کی خوشی دیدنی تھی ۔ناکو عبدل ناکو چاہ وش ناکو فقیر داد اور ناکو مسکان و ناکو پکیر بخش سمیت کئی بزرگ اپنے بچوں کو نہیں پہچان رہے تھے کیونکہ دس سالوں میں باہر رہ کر ان کے چہرے وضع بالکل بدل چکے تھے اور ان بزرگوں کے اپنے بچوں اور ان بچوں کا اپنے والدین کو دیکھ کر خوشی کے آنسو رواں تھے اور مائیں اپنے بچوں کے آنے کی خوشی میں نازینک گارہی تھیں جبکہ دادی بلْوک صد گنج سب سے آگے آگے تھی!۔
اگلی صبح سٹیج سجا دیا گیا تمام طلبا مقامی کالج سکول و یونیورسٹی کے تھے اور جو مختلف عالمی اداروں کے مقامی ملازم تھے وہ بھی موجود تھے جس میں مقامی لوگ پروجیکٹ کے ملازمین و آفیسران ضلعی انتظامیہ و آفیسران صوبے کا گورنر و وزیر اعلٰی منسٹرز ملک کا صدر موجود تھے۔
جیسے ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ نے افتتاح کا فیتا کاٹنا چاہامیری آنکھ کھل گئی کیونکہ میں کچاو کے پہاڑیوں میں ایک پہاڑی انجیر کے درخت کے نیچے سر کے نیچے پتھر رکھ کر سورہا تھا۔ جبکہ پہاڑی آسک کی ہنہناتی آواز اور سیسو و چکوروں کی آواز نے مجھے جگا دیا اور سورج کی روشنی سے میری آنکھیں چندھیا گئیں میں نے چادر جھاڑی۔
کیتلی نکال کر گون و تاگز کی لکڑیوں سے چائے بنائی اور سامان باندھ کر روسی موٹر سائیکل کے ساتھ اپنے شہر کی جانب روانہ ہوا ۔
پہاڑوں سے جیسے اْتر کر روڈ پر آیا تو سنگ و مٹی سے بھرا ہوا رستہ میرا استقبال کررہا تھا ۔
جیسے ہی سیندک کے قریب پہنچا تو بچے مٹی میں اٹے ہوئے تھے کسی کا قمیص پھٹا ہوا تھا تو کسی کے پاوں میں جوتے نہیں تھے تو کئی چہروں پر جلدی بیماریوں کے نشانات تھے۔ کچے مکانات راہ چلتے اپنی پسماندگی، لاچارگی، بزگی ، بدحالی کی صورت خود بیان و نمایاں کررہے تھے۔
آگے جاکر سکول کی حالت دیکھی جس میں تاریکیوں ظلمتوں کا راج تھا۔ کلاسز کے پنکھے فالج زدہ تھے ، بجلی کے بورڈ اکھڑے ہوئے تھے جو کسی بھی بچے کی جان لے سکتے تھے دروازے کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی اپنی کہانی ازخود بیان کررہی تھیں۔ جبکہ سکول کے پرنسپل کے کمرے پر ترس آرہا تھا ۔اور طلباکے چہروں سے درماندگی کے آثار نمایاں تھے ۔
اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق لینے کا شعور دے ۔آمین

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے