سورج دیوتا آج غضب ناک ہو رہا تھا ۔ وہ بھی اینٹوں کے اس شہر پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھا ۔ اس پر جب لُو چلتی تو سالوں سے جُھلسے ہوئے وجود مزید جُھلس جاتے۔ لیکن مجال ہے کہ ان کے کام کے ردھم میں جو ذرا بھی فرق آیا ہو۔ سانچہ گیلی مٹی کے گولے سے بھرتا جاتا اور اینٹوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی۔ ایک لمحے کو تو یوں لگتا کہ جیسے ان سب کو ایک دوسرے سے تو کیا ، خود سے سے بھی کوئی تعلق نہ ہو۔
دلبر نے بیل گاڑی کچی اینٹوں سے بھری اور بیلوں کو ہانکتے ہوئے چلتی گاڑی میں بھاگتے ہوئے چڑھا۔ چاچا گلزار جوابھی ابھی گارا بنا کر ہٹا تھا ،سر پر باندھے رومال کا کونا جو اس کی آنکھوں کے سامنے لٹکنے لگا تھا اسے باندھنے لگا اور پاس سے گزرتے بیل گاڑی میں بیٹھے دلبر کو اس نے آواز لگائی ’ اوئے دلبرے اتے زور سے نہ کھچ بیلاں نوں‘۔
’ اچھا چاچا ‘ دلبر نے ہنستے ہوئے کہا ۔ بیل گاڑی پر لگے گھونگھرو ؤں کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔
اینٹیں بناتے بناتے کرمو کو اچانک پھر سے کھانسی کا دورہ شروع ہو گیا ۔ اسے ادھ مواء کر کے کھانسی نے ایک لمحے کو جو جان چھوڑی تو اس نے سانچہ دور پھینکا ۔ اپنے دائیں طرف زور سے تھوکا ۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالی ۔ اینٹوں کی قطاریں دور تک چلی گئی تھیں جو وہ صبح سے بناتا رہا تھا۔ چند گز کے فاصلے پر تین ادھ ننگے بچے صغری کو اینٹیں پکڑا رہے تھے جو وہ پہلے سے بنی کچی اینٹوں کی دیوار پر دھرتی جا رہی تھی۔ سوچوں میں گُم کرمو کی نظر دور اینٹ در اینٹ ، آسمان کو چھوتی ہوئی عمارت پر جا رکی۔ اس نے ایک جھر جھری لی۔ پسینہ اس کے کانوں کی لوؤں سے ہوتا ہواگردن تک بہہ رہا تھا۔ وہ جھنجھلا کر اٹھا اور ننگے پاؤں گرم تپتی زمین پر تالاب کی جانب چل پڑا۔
سوچوں میں گم چلتے چلتے صغری کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ ایک لمحے کو ٹھٹکا ۔ تیزی سے اینٹ پر اینٹ رکھتے ہوئے اس کے کانوں میں پیتل کے بالے بھی اسی تیزی سے لرزتے ہوئے اس کے گالوں کو چھو رہے تھے ۔ کرمو کے لبوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ آئی اور وہ تالاب کی جانب تیز تیز قدم لینے لگا۔
’ ارے او کرمو کی ہویا تیرے منہ تے بارہ کیوں وجدے ۔ ارے سب ٹھیک آں نا ۔۔۔؟‘ بشیرے نے گدھوں کو تالاب کی طرف ہانکتے ہوئے دور سے آتے ہوئے کرمو سے پوچھا۔
’ ارے کجھ نہیں یار ہونا کیا ہے۔۔۔!‘ کرمو تالاب کے کنارے بیٹھ کر کلی کرنے لگا۔ منہ پر پانی کے چھپاکے مارے اور تالاب سے ہٹ کر کچی مٹی کے گارے کے پاس بیٹھ گیا ۔ بشیرا بھی اس کے قریب آبیٹھا ۔ دور خلاؤں میں جانے کرمو کیا ڈھونڈتا رہا۔ چند لمحے خاموشی رہی پھر کرمو بولا ۔
’ یار بشیرے اساں تو ں اچھی تے اے چمنیاں ایں ۔۔۔انھاں دے سیناں اچ جو کچھ جلدا ہوگا ۔۔۔ جو پکداہوگا ۔۔۔ انھاں نوں کم از کم سیاہ گاڑھے دھویں دی صورت اگل تے سکدیاں نا۔۔۔ آکاش دے حوالے کر کے خود کو ہلکا تے کرسکدیاں۔۔۔!‘۔
’ کہتا تو تُو ٹھیک ہے کرمو میرے یار پر اساں کی پئی کریں ۔ اپنی تے جندگی ایٹ کا سانچہ ہی رہا بھائی ۔۔۔نہ ادھر کو جا پاویں نہ ادھر کو ۔۔۔!‘ بشیرا اپنی کھردری ہتھیلیوں سے سرخ آنکھوں کو ملتے ہوئے بولا۔
بیل کی بڑی سی آواز نے خاموشی کو توڑا۔چمنی فضا میں کالے سیاہ بادل پھونکتی رہی۔ کرمو پر ایک دفعہ پھر سے کھانسی کا دورہ پڑا۔ وہ مسلسل کھانستا رہا۔ اس نے گارے کے پاس تھوکتے ہوئے کہا ’ یار بشیرے ان بھٹیاں نے تے خدا دی قسمے ساڈی پالن دی وی ذمہ داری لے رکھی اے تے اساں نوں مارن دی وی‘۔
’ پر یہ بتا کرمو تو اَج اتنا اداس کیوں اے؟‘ بشیرا جو اٹھ کر تالاب کے پاس چلاگیاتھا، پاؤں پانی میں ڈالتے ہوئے پوچھنے لگا۔کافی دیر تک کرمو نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ چمنی دھواں اگلتی رہی۔ پاس ہی سے گدھوں کی آواز آتی رہی۔
’ کدی کدی تے اس جندگی توں وی جی اکتا جاندا یارا۔ ساری حیاتی اک جیسے ہی حالات رہے۔ سارا سارا دن گجر جاندا اے ایٹاں بناتے بناتے‘ کرمو آہ بھر کر خاموش ہو گیا پھربولا ’ ارے بشیرے سچ بتا کیا تیرا دم نہیں گھٹدا ادھر۔۔۔؟ پیڑیوں سے اساں ادھر ۔ پہلے باپ دادا ۔۔۔ فیر ہم۔۔۔اگے سے ہماری اولاد۔۔۔‘ کرمو نے کھانستے ہوئے بلغم دور پھینکا جس میں کچھ د ن سے سرخی بھی تھی۔
’ او یارا گھٹداہے دم میرا، دم کیوں نئیں گھٹ دا۔۔۔ پر جاواں وی تے کدھروں جاواں آخر۔۔۔! بشیرے نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔
’ ارے کھوتوں جیوں کام کردے اساں پورا دن تے منافع سارا او کمینہ مالک خود لے جاندا۔۔۔ او بشیرے کیا اساں منافع دے حقدار نئیں ۔۔۔!‘ اس کی نظریں چودہ سالہ منیرے پر تھیں جو اپنے نازک ہاتھوں میں کوئلہ لئے آگ میں جھونک رہا تھا۔
’ مینوںیاد ہے اچھی طرح بشیرے میں سولہ سال دا بچہ ہوساں۔ ابا بھٹیاں تے کَم کردے کردے دمے دا مریض بن گیا ۔ ہر وقَت اس دا سانس بند ہندا سی ۔اک دن اوس دی طبعیت بہت ای کوئی بگڑ گئی ۔ میں گھبرا گیا ں ۔ پلے ایک دھیلانئیں جو دوا لایا اوساں یا ابے لئی ڈاکٹر نوں لاندا۔جا کر مالک توں پیشگی تنخواہ دا تقاضا کیا ‘۔
’ دیئے تھے فیر اوس نے۔۔۔؟ او تے بڑا کمینہ بندہ اے ‘ بشیرے نے پوچھا
’ ارے ذلیل کرن دوں بعددیئے ۔ا وہی سود تے چُکا رِیاں اَج دن تک یارا۔۔۔ ادھار ختم ہی نہیں ہو ریا۔۔۔! ‘ کرمو دکھ سے بولا۔
’ بندہ کرے تے کی کرے۔ اپنی تے حیاتی پر ہی لعنت ہوے کرمو ‘ بشیرے کی آنکھوں کی نمی حلق میں اتری۔
اساں تے مالک دے قیدی آں بشیرے۔۔۔نا ضرورتاں پوری ہوویں تے نا مالک توں پیشگی تنخاہاں لینا بند ہویں۔۔۔نہ ای ادھاراں پئی چکیں ۔۔۔اپنی جندگی ، اپنی اجادی گروی ہوئے مالک دے کول‘ ۔
سورج غروب ہونے کو تھا ۔ اس کی زرد کرنیں افق پر پھیل گئیں تھیں ۔کرمو اٹھ کھانستے ہوئے اپنے بیٹے منیرے کی طرف چل پڑاجو کوئلے کی کالک سے اٹے کپڑے پہنے زخمی ہاتھوں سے بھٹیوں میں کوئلہ ڈال رہاتھا۔ جانے کس آسیب سے بچانے کو منیرے کے گلے میں ایک بڑا تعویذ جھول رہا تھا۔
منیرے کے پاس پہنچتے پہنچتے کرمو کو ایک دفعہ پھر سے کھانسی کا دورہ شروع ہو گیا۔ کھانسی شدید ہوتی چلی گئی۔ کھانستے کھانستے سینہ پکڑ کر وہ نیچے گر پڑا۔منیرا بھاگ کر باپ کی طرف آیا ۔ منیرا جو گدھوں کی جانب مڑ گیاتھاوہ بھی دوڑتا ہوا آیا۔۔۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ اس کی آنکھیں بھی غروب ہو رہی تھیں ۔۔۔! کرمو کی صبح طلوع نہیں ہوئی۔۔۔ نسل در نسل اپنی آزادی گروی رکھنے والے کے کفن دفن کے لئے چودہ سالہ منیرے نے مالک کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔ ایک اور زندگی۔۔۔ ایک اور آزادی گروی رکھنے کے لئے۔۔۔!
تعویذ منیرے کے گلے میں جھول رہا تھا۔۔۔!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے