سندھ کے عظیم سپوت ایک عالمی سطح کے دانشور، ادیب رائیٹر ، محقق ، انقلابی قوم پرست رہنما اور سندھی غریب کا قانونی کیس لڑنے والا قانون دان ،مزدور رہنما، ہر آمر کے سامنے چٹان کے مانند ثابت قدم رہنے والا مزاحمتی کردار رسول بخش پلیجو7جون کو پورے سندھ اور ملک کو سوگوار چھوڑ کے راہی عدم ہوگیا۔
اس نے 20جنوری1930کو ایک غریب مزدور علی محمد پلیجو کے گھر گاؤں مونگر پلیجو میں اِس جہان رنگ وبو میں آنکھ کھولی ۔ بنیادی تعلیم اپنے گاؤں اور ٹھٹھہ سے حاصل کیا اور مزید تعلیم کے لیے سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں داخلہ لیا اور وہیں سے فارغ التحصیل ہوا۔ اس نے نوجوانی میں ہی 1953میں سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کے بعد1970میں اپنی پارٹی ،عوامی تحریک کا بنیاد رکھی اور پھر تادم مرگ اُس کا سربراہ بھی رہا۔
ون یونٹ توڑ دو کی تحریک میں اس نے کلیدی کردار کیا۔ کالا باغ ڈیم کی منسوخی کے لیے نہ صرف سیاسی جدوجہد کی۔ بلکہ قانونی جنگ لڑکے عدالت عظمیٰ سے سٹے آرڈر لیا۔اس کے علاوہ ضیائی دور میں اس نے1983اور 1986میں ایم آر ڈی کی جمہوری بحالی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ جس کے لیے حکومت وقت نے اسے زندان میں ڈال دیا۔ اس نے اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی گیارہ سال جیل میں گزار دیئے۔ اور وہاں سے ضمیر کا قیدی لقب قرار پایا۔
1970سے قبل ووٹر لسٹ محض اُردو میں ہوا کرتے تھے ۔ اس نے اس کے بارے میں بڑی موثر تحریک چلائی اور پھر سندھ کے ووٹر لسٹ سندھی زبان میں منتقل کر دیئے گئے ۔
1971ہی میں بلوچ اور پشتون رہنماؤں کے خلاف حیدر آباد سازش کیس میں اس نے بلوچوں اور پشتونوں کی سیاسی واخلاقی انداز میں ساتھ دیتے ہوئے ان کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنی شروع کی تو بھٹو حکومت نے اسے میں جیل میں ڈال دیا۔
ضیائی مارشل لا کے دور میں جب میڈیا پر سخت ترین سینسر شپ عائد کی گئی اور ملک کی صحافتی تنظیموں نے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تو فاضل راہو اور پلیجو صاحب نے بھر پور اندازہ میں انکا ساتھ دیا ۔ جس کی پاداش میں 17جنوری1987کو فاضل راہو کو شہید کر دیا گیا۔ فاضل راہو کی شہادت کے بعد پلیجو نے سندھ عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے ضیاء کے خلاف بھر پور جدوجہد کا آغاز کیا تو ضیاء نے اس کے متبادل سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کی بنیاد رکھوادی۔ اور پھر ایم کیو ایم کو خصوصاً کراچی میں کھلی چھٹی دے دی گئی ۔ پلیجو صاحب نے بتیس سال قبل ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا لیکن ان کا کسی نے نہیں سنا۔ اُلٹا اسے زندان میں ڈال دیا گیا مگر ریاست نے بتیس سال بعد اسی ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اسے بین کردیا۔
ون یونٹ کے دور میں جب سندھی رجعت پسند اُدبااور شعرانے ایک منصوبے کے تحت سندھ کی ایک اور عظیم شخصیت شیخ ایاز کے خلاف مہم کا آغاز کیا تو پلیجو صاحب نے ایک کتاب لکھ کر تمام لوگوں کا منہ بند کر دیا۔ او رشیخ ایاز پر آنچ آنے نہیں دی۔
نومبر 2007کو جنرل مشرف کے امر جنسی کے خلاف ججوں کی بحالی کی تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
وہ اپنے نظریات اور عوامی مفاد پر کسی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کے ہرگزروادار نہیں تھے ۔اس نے ستمبر 2016میں اپنے بیٹے ایاز لطیف کو پارٹی کے نظریات اور منشور کی پیروی میں کوتاہی دیکھی تو اس نے بیٹے سے سیاسی لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس نے گھر گھرمیں فکری اور سیاسی شعور دیا۔ انتہائی پسماندہ لوگوں کو اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے انہیں زبان مہیا کی ۔ پلیجو صاحب نے اپنی زندگی کا ایک پل بھی بیکار نہیں گزارا ۔ اس نے جاگیرداری سرمایہ داری اور طبقاتی نظاموں کی بھر پور انداز میں مخالفت کی۔
اس کے علاوہ عورتوں کے لیے اس نے بڑاکام کیا۔ پہلی دفعہ عورتوں کو اس نے سیاست کی جانب راغب کیا۔ ہمیشہ عورتوں کی دفاع کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے ۔ وہ فکری طور پدرسری نظام کے مخالف تھے ۔ گھر یلو معاملات سے لے کر زندگی کے تمام معاملات میں عورت کو سربراہ دیکھنے کے قائل تھے ۔اس کی جسد خاکی کو کراچی سے اپنے آبائی گاؤں لایا جارہا تھاتو جس جس جگہ سے گزر ہوا وہاں مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کی بڑی تعداد نے اس کے جسد خاکی کو قطار میں کھڑی ہو کر بڑے مودبانہ انداز میں سلامی پیش کیا۔ اور پھر اس کے جنازے کو عورتوں کی فرمائش پر بڑے بڑے بانس باندھے گئے اور عورتوں نے اس بانسوں کو پکڑ کر کاندھا دیا۔
پلیجو صاحب نہ صرف سیاسی رہنما تھا بلکہ وہ آرٹ ادب فلسفہ اقتصادیات ، اورتاریخ کا بہت بڑا ماہر تھا۔ جبکہ کئی زبانوں پر اسے عبور حاصل تھی۔ وہ تقریباً پینتیس کتابوں کا مصنف تھا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے