ابر پارے ندی کی رواں راگنی سے بہلتے نہیں
وہ کِناروں پہ اشجار کی موج مہمیز کرتے ہوئے
آبجو میں نئے رنگ کی دھار پیدا کریں
جھلملاتے فلک پہ فقط ایک مہتاب ہے
نیم شب میں ستاروں کی ٹولی چمکتے ہوئے
چاندنی کے دریچے ہویدا کریں
شاہراہوں پر جلتے ہیں فانوس بھی روشنی کے لیے
جگنوؤں کا مگر قافلہ جگمگاتا ہوا
مشعلیں نور کی وہ کشادہ کریں
ایک تیری ہی آمد سے لذت کے منظر بدل جائیں گے
کوئی جگنو بنو، ابر پارہ بنو کوئی تارہ بنو
کیف کے نقش میں زندگی کا نیا اک شرارہ بنو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے