نزار قبانی کی نظم
"ان کی کیا قدر جن کی زبانیں بند ہیں”
کا آخری بند ۔

بحرِ اوقیانوس سے بحیرہ عرب اور خلیج تک پھیلے ہوئے بچو!۔
تم گندم کی بالیوں کی طرح ہماری امید ہو
تم ہی وہ نسل ہو
جو زنجیریں توڑے گی
جو ہمارے سروں کی افیون تلف کرے گی
جو ہماری خوش فہمیوں، اندیشوں اور واہموں کو
موت کے گھاٹ اتارے گی
بچو!۔
تم معصوم اور خالص ہو
شبنم کے موتیوں اور برف کے گالوں کی طرح
صاف اور پاکیزہ ہو
ہماری شکست خوردہ نسل کی تقلید نہ کرو
ہم ناکام ہیں ہم بالکل حقیر ہیں، بے کار ہیں
تربوزکے چھلکے کی طرح
پرانے جوتوں کی طرح
ہماری تاریخ نہ پڑھو
ہمارے نقش قدم پر نہ چلو
ہمارے خیالات پر کان نہ دھرو
ہم بیماروں کی، خوف زدہ لوگوں کی
دھوکہ بازوں اور بازی گروں کی نسل ہیں
بچو!۔
تم بہار کی بارش ہوامید کی کونپل ہو
ہماری بنجر زمینوں میں زرخیزی کے بیج ہو
تم ہی وہ نسل ہو جوہماری شکست کو
اپنی فتح میں تبدیل کر سکتی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے